انتخابات کے قصے

June 12, 2018

آج کا قصہ ہماری ستر سالہ تاریخ میں ہونے والے گنتی کے چند انتخابات میں سے ایک الیکشن کا قصہ ہے پاکستان سے انگریزی کو بھگانے کے درپے محبت وطن مجھے معاف کریں۔ میں حقیر فقیر ان سے کم درجے کا محب وطن نہیں ہوں، ہم جب تک اردو لغت کا حصہ بن جانے والے انگریزی الفاظ کا نعم البدل تلاش نہیں کر لیتے ، انتخابات کو کبھی الیکشن اور الیکشن کو انتخابات لکھتا رہوں گا۔
اردو لغت سے جب ہم انگریزی الفاظ ٹکٹ، پلیٹ فارم ،ریل، گلاس، بس، ٹرک، لاری، آفس ،بیراج ،سائیکل ،موٹر ،انجن، لفٹ ، روڈ فٹ پاتھ وغیرہ خارج کر دیں گے اور ان کی جگہ روزمرہ کی زندگی میں روانی سے استعمال ہونے والے نعم البدل دیسی الفاظ لے آئیں گے، تب میں الیکشن کو کبھی انتخابات اور انتخابات کو کبھی الیکشن لکھنا اور بولنا چھوڑ دوں گا۔ اور اسطرح میں اپنے آپ کو کٹر قسم کا محب وطن ثابت کروں گا۔ پلیٹ فارم وہ جگہ ہےجہاں ریل گاڑیاں آتی ہیں، جہاں سے ریل گاڑیاں روانہ ہوتی ہیں۔ مسافر ریل گاڑی میں سوار ہوتے ہیں۔ مسافر ریل گاڑی سے اترتے ہیں۔ ہم جب پلیٹ فارم کا نعم البدل دیسی لفظ تلاش کر لیں گے تب بھی اس جگہ ریل گاڑیاں آتی رہیں گی، وہاں سے ریل گاڑیاں روانہ ہوتی رہیں گی۔
مسافر ریل گاڑیوں سے اترتے رہیں گے۔ اس جگہ سے لوگ ریل گاڑیوں میں سوار ہوتے رہیں گے۔ پلیٹ فارم کو کوئی دوسرا نام دینے سے وہاں ریل گاڑیاں آنا جانا بند نہیں ہوں گی۔ اور لوگ ریل گاڑیوں سے اترنا اور ریل گاڑیوں میں سوار ہونا چھوڑیں گے نہیں۔ نام بدلنے سے کام کی نوعیت نہیں بدلتی۔ نام بدل جاتا ہے مگر کام وہی رہتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ الیکشن کو انتخابات اور انتخابات کو الیکشن کہنے سے لوگ اسمبلی ممبر بننے کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا نہیں چھوڑیں گے۔الیکشن کو انتخابات اور انتخابات کو الیکشن کہنے سے لوگ اپنی پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنا نہیں چھوڑیں گے۔ دیکھئے نا، ہمیں ابھی ووٹ کا نعم البدل دیسی لفظ بھی تو تلاش کرنا ہے ! جب تک ہم ووٹ کا مناسب نعم البدل لفظ تلاش نہیں کرتے مجھے الیکشن کو کبھی انتخابات اور انتخابات کو کبھی الیکشن لکھنے کی اجازت دیجئے۔ اور ایک پرانے الیکشن یعنی انتخابات کا قصہ سنئے۔
ماضی میں جب بھی الیکشن آتے تھے ہم ووٹ دینے والے کم سمجھ لوگ جلوسوں اور جلسوں میں امیدواروں کی تقریریں سننے جاتے تھے۔ ان کے بلند بانگ دعوے دار تقریروں سے متاثر ہو کر ان کو ووٹ دیتے تھے۔ وہ منتخب ہونے کے بعد اسمبلیوں کے ایوان تک جا پہنچتےتھے۔ اسمبلی میں بیٹھنے کے بعد وہ کچھ اور بن جاتے تھے،طوطا نہ ہونے کے باوجود وہ سب کے سب طوطا چشم بن جاتے تھے۔ ہم ووٹ دینے والوں کو پہچاننے سے انکار کر دیتے تھے۔ شروع شروع میں ان کے طوطا چشم بن جانے کا ہمیں دکھ ہوتا تھا۔ ہم افسوس کرتے تھے ،سر میں دھول ڈال کر اپنا دامن چاک کر دیتے تھے۔ گریبان بھی چاک کر دیتے تھے مگر پھر ان کے طوطا چشم ہونے کی ہمیں عادت سی پڑ گئی۔ وہ ہمیں جھاڑ دیتے تھے۔ ہمیں دھتکار دیتے تھے۔ ہمیں نظر انداز کر دیتے تھے ، تب بھی ہمیں دکھ نہیں ہوتا تھا ان کے رویئے کو ہم اپنا نصیب سمجھ کر قبول کر لیتے تھے مگر ہم چونکہ تب جب اسمبلی میں پہنچنے کے بعد وہ کچھ اور نکلے۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ ایک مرتبہ ہمارے ووٹ سے منتخب ہو کر ایک آدمی اسمبلی تک جا پہنچا۔ اسمبلی کی سیٹ پر بیٹھنے کے بعد وہ آدمی سے گرگٹ بن گیا۔ اس نے اتنے رنگ بدلے کہ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم ووٹ دینے والوں نے ایک گرگٹ کو ووٹ دیکر اسمبلی کا ممبر بنایا تھا۔
ایک صاحب جلسے جلوسوں میں اپنے آپ کو ببر شیر کہلواتے تھے۔ تقریر کے دوران وہ وقفہ لیتے تھے۔ وقفہ کے دوران لائوڈ اسپیکروں سے آوازیں آتی تھیں۔ محب وطن مجھے معاف کریں۔میں کم علم نہیں جانتا کہ لائوڈ اسپیکر کو دیسی زبانوں میں کیا کہتے ہیں۔ ویسے آپ یقین رکھیں کہ میں انگریزی زبان کا بہت بڑا دشمن ہوں، آپ اس آدمی کا قصہ سنیں جو اپنے آپ کو ببر شیر کہلواتا تھا۔ ہم ووٹر اس سے بڑے متاثر تھے۔ گرگٹوں سے تنگ آ کر ہم نے ایک الیکشن میں ببر شیر کو ووٹ دئیے۔وہ منتخب ہو کر ایوان اقتدار تک جا پہنچا۔ ہمیں حیرت تب ہوئی جب ببر شیر اسمبلی میں اپنی سیٹ پر بیٹھا تو اندر سے گیدڑ نکلا۔
جلسے جلوسوں میں ایک ایسے صاحب کو ہم نے تقریریں کرتے ہوئے سنا تھا جو خود کو حق کا علم بردار کہتا تھا۔ جھوٹ، ظلم، اور ناانصافی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔ ہم ووٹ دینے والے اس سے بڑے متاثر ہوئے۔ ہم نے قطاریں بنا کر اس کے حق میں ووٹ ڈالے وہ صاحب منتخب ہو گئے۔ اسمبلی میں جا بیٹھے۔ وہ تھا تو آدمی ،مگر نہ جانے کیسے اس کے ایک دم تھی جو اس نے کمال کاریگری سے ہم ووٹ دینے والوں سے چھپا رکھی تھی۔ اسمبلی میں اقتدار پر قابض جابروں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ریت کی دیوار نکلی، ہم نے اسے جابروں کے سامنے دم ہلاتے ہوئے دیکھا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)