عید یوں شروع ہوتی ہے…

June 16, 2018

حرف بہحرف … رخسانہ رخشی،لندن
عید ہو یا کوئی بھی مذہبی تہوار ہو ہم اسے احترام سے اور شریعت کے مطابق مناتے ہیں۔ عید اور دیگر خوشی کے موقعوں پر ہم نعمت خداوندی پر شکر بجا لاتے ہیں۔ صاف ستھرا لباس، ایک دوسرے سے بڑھ کر ملنا آپس میں خوشیاں بانٹنا، تحفے تحائف دینا، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا اور غریبوں کی خیر خواہی کرنا۔ کیا ہم ان تمام لوازمات کےساتھ عید مناتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ عید ان تمام لوازمات کے برعکس ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارے مولوی ملا یہ خطبے عید سے متعلق فرماتے رہ گئے کہ عید سادگی سے منائی جائے مگر آج کل لوگ اس خوشی کےگرد گھومتے جھومتے نظر آتے ہیں۔ روزے کا اہتمام بھلے صحیح طرح ادا کر پائے یا نہیں مگر عید کی خوشیاں خوب منانے کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں عید طرح طرح سے منائی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ جن ممالک میں سحر اداسی سے شروع ہو دوپہر اس فکر میں گزرے کہ شام کو ہم زندہ بھی رہیں گے یا نہیں یا ہمارا کوئی پیارا خون میں لت پت ملے گا۔ وہاں بھی عید تو مناہی لی جاتی ہے۔ یہ فلسطین، کشمیر اور شام کی بات ہو رہی ہے کہ وہاں کے لوگ اس آس پر قربانیاں دے رہے ہیں کہ خدا ایک نہ ایک دن مسلمانوں کے گناہ معاف فرما کر ابابیل ضرور بھیجیں گے۔ خون کی ہولی جاری رہتی ہے مگر عید یوں بھی مناہی لی جاتی ہے۔ کیا کریں ہم حساس ذہن رکھنے والے لوگ عید کی مسرتوں میں اپنی مشکلات و مصیبت زدہ بہن بھائیوں کا ذکر کئے بنا نہیں رہ سکتے۔ شام، کشمیر اور فلسطین کے معصوم بچے جو زخمی حالت میں ہوں وہ ذہن میں اور آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔ ہم انہیں کیسے بھولیں۔ حال تو ہمارے اپنے ملک کا بھی دگرگوں ہے ہم نے غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ اگر ہمارے یہاں کے دریا و نہریں سوکھتے گئے تو ہم بوند بوند کو ترس جائیں گے۔ ہمارے صحرائوں میں بسنے والے لوگ تو ختم ہو رہے ہیں آہستہ آہستہ کہ انہیں خوراک تو کیا پانی ہی نصیب ہو جائے۔ مگر کہاں ان کا نصیب کہ انہیں پانی نصیب ہو۔ پھر بھی عید تو ہر طرح سے مناہی لی جاتی ہے۔ عید تو وہ بھی منائیں گے کہ جن کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہے کہ اگر ہمیں وضو کےلئے پانی نہ ملا تو مردوں کو نہلانے کے لئے بھی پانی میسر نہ ہوگا۔ جی ہاں اہل کراچی اب اس نہج پر سوچنے لگے ہیں۔ اسی لئے اب ڈیم بنانے کے لئے شور اٹھنے لگا ہے ہر طرف سے۔ عوام کے اس مطالبے میں شدت آنے لگی ہے اور اب اس پر عمل درآمد شروع ہو جانا چاہئے کہ حالات اب بدلنا چاہئیں کہ جدید دور میں بھی ہم پسماندہ ہیں۔ خیر چلئے عید کی خوشیوں کی طرف لوٹتے ہیں یہ ایسا مذہبی تہوار ہے کہ بخوشی منایا جاتا ہے۔
آئو مل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن
باقی رہے نہ کوئی بھی غم عید کے دن
ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اترے
اور چمکتا رہے ہر آنگن عید کے دن
اس مرتبہ عید یوں شروع ہوئی سیاسی لحاظ سے کہ ریحام خان کی آنے والی کتاب کے لوگوں نے وہ لتے لئے کہ بہت سے لوگوں کواس میں مزہ عید جیسا آیا بہت سے لطیفے بن گئے کہ بیوی اگر اپنی ڈائری کھول کر کچھ لکھ رہی ہے تو شوہروں کے پسینے چھوٹنے لگے کہ شاید ہمارے خلاف کتاب تو لکھنے نہیں بیٹھ گئی۔ پھر مذاق کچھ ایسے بھی بنے کہ ریحام نے کتاب میں وہ باتیں بھی نہیں لکھیں مگر لوگوں نے اخذ کرلیا کہ بے حیائی کا مواد اس میں ہوگا۔ ریحام نے سبھی کو مزاح کا تحفہ دے دیا کہ عمران خود سو جاتے اور مجھے کہتے ساری رات گو نواز گو کے نعرے لگاتی رہو۔ انہیں عید کی خوشیوں کا حصہ رمضان اور اس کی سرگرمیاں مثلاً اعتکاف میں بیٹھنا اور عمرے وغیرہ پہ جانا بھی عید کی خوشیوں کو دوبالا کرتا ہے۔ خیر سے خان صاحب بھی عمرے پر چلے گئے ہیں اور اپنی محترمہ پیرنی کو ساتھ لے کر گئے ہیں۔ اور وہاں لوگوں نے انہیں وزیراعظم عمران خان کے نعروں سے نوازا۔ اتنی عظیم عبادت ہو اور اس میں گندی سیاست کا ذکر کچھ اچھا نہیں۔ قوم تربیت سے عاری ہے تعلیم پر بھاری ہے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ اس مرتبہ عید سبھی کی ساتھ میں ہوگی جی خوش ہوا کہ فرقہ بندی کے بادل چھٹنے لگے ہیں۔ مگر یہ کیا کہ ہمارے مفتی لوگ ایڑیاں اٹھا اٹھا کے چاند دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب وہاں نظر نہ آیا تو دائیں بائیں بھی دیکھا مگر چاند تھا کہ کہیں نظر نہ آیا گویا چاند نہ ہوا آستین کا……خیر یہ ہو نہیں سکتا کہ تمام فرقے کے لوگ اپنی آئیں بائیں چھوڑ کے ایک مرکز پر جمع ہوں۔ اچھا ہم سوچ رہے تھے کہ ان کی عید ہوتی ہے ان کی عید ہوتی ہے یہ کہ فلاں فلاں ایسے عید مناتے ہیں مگر کچھ لوگ آج کل پرانے یا گزرے وقت کی عید کو یاد کرکے عید مناتے ہیں وہ جو خوامخواہ خود کو دکھی شاہ سمجھتے ہیں
ذرا دم کو بھلا دو قصہ دردِجدائی تم
بجھے دل سے سہی، لیکن منائو عید کا دن ہے
یعنی حالیہ میچور لوگ اپنی یاد تازہ کرتے ہیں کہ جوانی میں گھریلو حالات تنگ اور پھر یہ احساس کہ کوی لڑکی بھی لفٹ نہیں کراتی تھی ایسے میں عید کے موقعوں پر دوستوں کیساتھ مل کر عید کارڈ اور چوڑیوں کے کھوکے لگا لیا کرتے تھے یا پھر ریکھا او رسری دیوی کے کارڈ دیکھ کر حسرت مٹا لیا کرتے تھے۔ کبھی کچھ لوگ ایسے بھی کرتے تھے کہ پرانیے عید کارڈز کو دوبارہ استعمال میں لاتے یعنی کارڈ کا درمیانی صفحہ نکال کر جس پر عید لکھا ہوتا تھا وہ نکال کر صرف کارڈ پر خوبصورت سا عید مبارک لکھ کر بھیج دیتے اس طرح صفحے نکال کر بھیجنے سے پیسے بھی بچ جاتے اور دوست بھی بھگت جاتے تھے۔ پھر مزاحیہ اشعار کہ ’’عید آئی دھوم دھام سے۔ نوری اُچھلی سویوں کے نام سے‘‘۔ ان سب کیساتھ ساتھ عید آجاتی کہ روزوں سے گناہوں کے تمام داغ دھل جاتے اور عید سے ہی لوگ پھر کھانے پہ تل جاتے۔ بڑے بڑے اسلامی جو وقتی طور پر دین پر عمل پیرا ہوتے ہیں وہ ٹوپیاں اتار اور داڑھیاں صاف کراکے پھر سے پرانی روش پہ آجاتے ہیں۔ چاند رات سے وہ خوشی کی دھوم مچتی ہے کہ توبہ نعتیں پڑھنا سننا بند ہو کے ہو شربا قسم کے گانے سننا شروع ہو جاتے ہیں۔ سبھی رکوع و سجدہ ریز اچھل کود شروع کر دیتے ہیں مولوی ملا بھی سستانے لگتے ہیں اور مزے سے مسجد چھوڑ گھر آکر ٹی وی چینل بدل کر رنگا رنگ عید پروگرام دیکھتے ہیں۔ اسی لئے تو مسجدیں خاموش احتجاج کرتیں کہ رمضان میں رونق بخشی اور چاند رات سے ہی مسجدوں میں ویرانی شروع، یعنی کہ
مے خانۂشرابِ ارماں کھل گیا ہے
پھر عید آگئی ہے، شیطان کھل گیا ہے
تو ساتھیو سبھی کو عید مبارک کہتے کہتے اور دوسرے لوازمات کیساتھ عید آہی جاتی ہے، خوشی منائیے۔