پاکستان اور بھارت کے انتخابی ضابطہ اخلاق کا موازنہ

June 16, 2018

اسلا م آباد(احمد نورانی) الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی )کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق برائے عام انتخابات 2018ہوبہواس ماڈل ضابطہ اخلاق کی نقل ہے جو الیکشن کمیشن آف بھارت نے 2014میں جاری کیا تھا اس میں صرف دو فرق نمایاں ہیں ااور بھارتی ضابطہ اخلاق زیادہ تفصیلی ہے۔دونوں ضابطہ اخلاق میں آئین، انتخابی قوانین اور ہدایات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی بات کی گئی ہے، کسی بھی عوامی ریلی یا جلسے سے قبل باقاعدہ اجازت لینا اور الیکشن والے روز بیان کیے گئے طریقہ کار پر عمل درآمد کا کہا گیا ہے۔دونوں ضابطہ کار میں بے بنیاد الزامات اور امیدواروں کی ذاتی زندگی پر تنقید پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے۔ضابطہ اخلاق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کو غیر قانونی عمل سمجھا جائے گا ۔الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے پوائنٹ 61کے تحت ضابطہ اخلاق کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی پر تعزیری کارروائی عمل میں لائی جائے گی ، مثلاًانتخابات کو کرپٹ یا غیر قانونی اعمال کی وجہ سے کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ای سی پی ضابطہ اخلاق کے 62پوائنٹس میں سے دوسرا پوائنٹ امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو ایسی رائے قائم کرنے سے روکنا ہےجس سے عدلیہ یا مسلح افواج کی تضحیک ہوتی ہو۔تاہم، بھارت کے ماڈل ضابطہ اخلاق میں کسی ادارے پر صحیح اور درست تنقید پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔جمہوری دنیا میں کہیں بھی درست تنقید پر پابندی عائد نہیں ہےبلکہ عدالتی فیصلوں پر تنقید کو خوش آمدید کہا گیا ہے۔ان دونوں ضابطہ اخلاق میں دوسرا بنیادی اور دلچسپ فرق یہ ہے کہ بھارتی ماڈل ضابطہ اخلاق میں دوران مہم یا پولنگ کے روز نشہ آور محلول کی ترسیل پر سخت پابندی ہے، جب کہ پاکستانی ضابطہ اخلاق میں انتخابی عمل یا مہم کے دوران ووٹرز کو کسی قسم کا فائدہ پہنچانے پر پابندی عائد کرتا ہے۔ای سی پی کے ضابطہ اخلاق میں پوائنٹ نمبر 27خاصی اہمیت کا حامل ہے، جس کے تحت کسی بھی سرکاری عہدیدار کی تصویر کسی بھی تشہیری یا الیکشن مواد پر شائع کرنے پر سخت پابندی ہے۔تاہم، ایک سیاسی جماعت مسلسل کچھ اداروں کے سربراہوں کی تصاویر کا استعمال کررہی ہے جو کہ سرکاری ملازم ہیں اور یہ ای سی پی کے ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی ہے، تاہم ای سی پی نے اس کے خلاف اب تک کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔بھارت کے ماڈل ضابطہ اخلاق 2014کے پوائنٹ 2کے مطابق، دوسری سیاسی جماعتوں پر جب تنقید کی جائے گی تو وہ ان کے ماضی کے کام اور ریکارڈ کی بنیا دپر ان کی پالیسیوں اور پروگرام تک محدود ہوگی ۔امیدوار اور سیاسی جماعتیں ذاتی زندگی پر تنقید سے اجتناب کریں ، جس کا تعلق لیڈروں کی عوامی زندگی سے یا دیگر سیاسی کارکنان سے نہیں ہو۔دوسری جماعتوں اور ان کے کارکنوں پر غیر مصدقہ الزامات سے اجتناب برتا جائے۔جب کہ ای سی پی کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق 2018کے پوائنٹ 46کے مطابق، دوسری سیاسی جماعتوں اور مخالف امیدواروں پر تنقید ان کے ماضی کے ریکارڈ کے حوالے سے ان کی پالیسیوں اور پروگرام تک محدود ہونی چاہیئے۔پارٹیوں اور امیدواروں کودوسرے پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنان کی نجی زندگی جس کا تعلق عوامی سرگرمیوں سے نہ ہو پر تنقید سے اجتناب برتنا ہوگا۔غیر مصدقہ الزامات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے تنقید کرنے اسے اجتنا ب برتا جائے۔جب کہ ای سی پی کے ضابطہ اخلاق کے پوائنٹ 47 کے مطابق،سیاسی جماعتیں ، انتخابات میں حصہ لینے والے امیداواروں ، الیکشن ایجنٹس اور ان کے حامیوںکو جان بوجھ کر غلط اور عداوت پر مبنی معلومات پھیلانے سے اجتناب کرنا ہوگاکہ جس سے دوسری سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کی بدنامی ہو۔سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں کے خلاف بدزبانی کو ہرقیمت روکنا ہوگا۔اسی طرح بھارت کے ماڈل ضابطہ اخلاق 2014کے پوائنٹ 5کے مطابق، ہر شخص کی پرامن گھریلو زندگی کا احترام کیا جائے ، تاہم زیادہ تر سیاسی جماعتیں اور امیدوار اپنی سیاسی آرا اور سرگرمیوں کی خفگی کا اظہار کرسکتی ہیں۔کسی بھی فرد کے خلاف اس کے گھر کے آگے دھرنے دینا تاکہ اس کی رائے کے خلاف احتجاج کیا جائے ، کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔جب کہ ای سی پی کے ضابطہ اخلاق 2018کے پوائنٹ 48کے مطابق،ہر شخص کی پرامن اور پرسکون نجی زندگی گزارنے کے حق کا احترام کیا جائے گا ، چاہے اس کی سیاسی جماعت یا امیدوار سے کتنی ہی مخاصمت ہو ۔ایسے افراد کے کے گھر کے باہر دھرنے دینا کیوں کہ اس کی سیاسی رائے کے خلاف احتجاج کرنا مقصود ہوتو ایسی سرگرمیوں کا ہر صورت تدارک کیا جائے گا۔اسی طرح تقریباً80فیصد نکات ای سی پی کے ضابطہ اخلاق 2018 میں بھارت کے ماڈل ضابطہ اخلاق 2014سے اخذ کیے گئے ہیں ۔ای سی پی ضابطہ اخلاق کے پوائنٹ 15کے مطابق، سیاسی جماعتوں پر اس بات کی سخت پابندی ہے کہ وہ میڈیا پر غیر ضروری دبائو ڈالے۔جب کہ اسی کے پوائنٹ 6کے مطابق، سیاسی جماعتیں اپنے اہل ارکان مرد و خواتین کو انتخابی عمل میں برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم کرنے کی پابند ہیں ، جب کہ اسمبلی میں جنرل سیٹوں پر امیدواروں کا انتخاب کرتے وقت پارٹی کو 5فیصد نمائندگی خواتین کو دینا یقینی بنانا ہوگا ، جو کہ ایکٹ کے سیکشن 206کے تحت ضروری ہے۔اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو پارٹی ٹکٹ اب تک دیئے گئے ہیں یا آئندہ دیئے جائیں گے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ خواتین کو پانچ فیصد جنرل سیٹ کے ٹکٹ دیئے جائیں گے ، اس شرط کی خلاف ورزی ہوئی ہےتو ایسی صورت میں ای سی پی کیا اقدام کرے گا ؟اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں آئے گا۔ای سی پی کے ضابطہ اخلاق کے پوائنٹ 61کے مطابق آرٹیکل 218(3)ای سی پی کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی غلط اعمال کے خلاف تحفظ دے، مثلاًبھتہ خوری، کسی کا روپ دھارنا، کسی پر اثر انداز ہونا، پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ پر قبضہ کرنا، پیپرز میں تبدیلی او ر غلط بیان یا ڈیکلیئریشن بنانا یا شائع کرنا اور الیکشن اخراجات کی مقررہ حد سے تجاوز کرنا وغیرہ۔ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر تعزیری اقدامات کیے جاسکتے ہیں مثلاًالیکشن کو کرپٹ یا غیرقانونی اعمال کے باعث کالعدم قرار دے دیا جائے۔