پاکستان کا کیا ہوگا؟

June 19, 2018

رمضان بھی گزر گیا، عید بھی چلی گئی۔ گرمی نے روزہ داروں کا امتحان لیا۔ عید آئی تو موسم اچھا ہو گیا۔ اب پھر گرمی کا انتظار ہے۔ گرمیاں تو نہیں گزریں نا۔ ابھی تو حبس کا موسم آنے والا ہے۔ اس کے بعد دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ ادھر ایک شعر نے نیندیں اڑا دی ہیں ۔ وہ شعر یہ ہے

کل رات بھی پرندہ نہ سویا سکون سے
پھر خواب میں یہ دیکھاکہ پر ہی نہیں رہے
سچ اور جھوٹ کا فرق مٹ گیا ہے۔ کہتے ہیں، ہم سچائی کے بعد کے زمانے میں زندہ ہیں۔ یہاں سچ وہی ہے جو ہمیں بتایا جاتا ہے بلکہ جو ہمارے نجات دہندہ ہمیں پڑھاتے ہیں وہ سچ ہے۔ اب ہمیں اپنے خیالات اور ان خیالات کے اظہار پر پابندی کے لیے باہر سے کسی سنسر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب ہم اپنے آپ کو خود ہی سنسر کرتے رہتے ہیں۔ جنہیں بولنا چاہیے وہ بولتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ اور جنہیں نہیں بولنا چاہیے وہ بول رہے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں ترازو ہے فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے اقتدار اس کے ہاتھ میں ہے۔ حق اور ناحق کے معیار بدل گئے ہیں۔ حق وہ ہے جو ’’میں‘‘ کہہ رہا ہوں۔ تم جو چاہے کہتے رہو۔ اور یہ جو سوشل میڈیا ہے، اس نے ایک اور ہی تماشہ لگایا ہوا ہے۔ یہاں جھوٹ سچ سب چلتا ہے۔ دل میں جو بھی آئے، اسے خبر بنا کر اڑا دو۔ کوا کان لے گیا۔ کسی نے اڑا دی۔ اور ہم کوے کے پیچھے بھاگے پھر رہے ہیں اپنا کان نہیں دیکھتے۔ لیکن اس سوشل میڈیا کو برا بھی نہیں کہنا چاہیے۔ اس سیلف سنسر کے زمانے میں یہ سوشل میڈیا ہی ہمارے لئے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہو رہا ہے۔ ہمارے اخبار اور ہمارے ٹی وی چینل جو نہیں کہہ سکتے، اور عام حالات میں جو بات کہتے ہوئے ہماری ٹانگیں کانپتی ہیں وہ سوشل میڈیا پر نہایت بہادری کے ساتھ برملا کہا جا رہا ہے۔ اب یہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی موضوع ہوں یا تاریخی، ان سب پر بلا دھڑک بحث ہو رہی ہے۔ وہاں کسی شخص کا خوف نہیں ہے۔ یہ کہنا ایک کلیشے بن گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر معلومات ہوتی ہیں، علم نہیں ہوتا۔ اگر آپ صاحب نظر ہیں تو سوشل میڈیا پر علم بھی ہوتا ہے حتیٰ کہ جنہیں آپ معلومات کہتے ہیں، اکثر و بیشتر وہ بھی آپ کے علم میں اضافہ کرتی ہیں۔ اور پھر یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ آ رہا ہے اسے آپ پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ اصل میں تو سوشل میڈیا ایک گستاخ اور منہ پھٹ بچہ ہے۔ اسی لئے تو صاحب اختیار و اقتدار اس سے ناراض رہتے ہیں۔ اور اس پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
اب عام انتخابات کی ہماہمی ہے۔ ہر جماعت نے اپنے اپنے امیدواروں کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کی جانچ پڑتال بھی شروع ہو گئی ہے۔ لیکن اس جانچ پڑتال میں پچھلے الیکشن کی طرح جو تماشے ہو رہے ہیں ان پر تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ کسی کے عقیدے اور ایمان کا امتحان لینا جانچ پڑتال کرنے والے افسر کا کام نہیں ہے۔ اسی طرح ذاتی زندگی پر سوال کرنا بھی اس کا کام نہیں ہے۔ آمریت نے ہمارے ایمان اور ہمارے عقیدے میں دخل دینے کی جو سقیم روایت ڈالی ہے اب اسے ختم ہونا چاہیے۔ اب انتخابات اور امیدواروں کی بات آئی ہے تو خواجہ سرائوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس جنس یا اس صنف کو ہم نے برادری سے باہر کر رکھا ہے۔ انہیں ہم اپنے سماج کا حصہ بننے ہی نہیں دیتے۔ پہلے تو یہی بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ انہیں مردوں کے خانے میں رکھا جائے یا عورتوں کے۔ اسی لئے ان کے شناختی کارڈ نہیں بنائے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہو گا تو وہ الیکشن میں حصہ بھی نہیں لے سکیں گے۔ ان کے الیکشن میں امیدوار بننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس نے خود ہی اس مسئلے پر توجہ دی ہے اور نادرا کو وضاحت کے لیے عدالت بلا لیا ہے۔ بہرحال، یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جانا چاہیے۔ خواجہ سرا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہوتے، مغربی ملکوں میں بھی ہوتے ہیں۔ لیکن وہاں ان کے لیے علیحدہ اسکول نہیں کھولے جاتے۔ انہیں عام انسانوں سے الگ تھلگ مخلوق تصور نہیں کیا جاتا۔ آپ اپنی تاریخ پر ہی نظر ڈال لیجئے۔ آپ کو خواجہ سرا حکومت کے انتظامی امور میں دخل دیتے بھی نظر آتے ہیں اور فوجی اور جنگی امور میں بھی۔ ہمارے ہاں، اس کے لیے خواجہ سرائوں کی ہی نہیں عام آدمی کی ذہنی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔ آنے والے عام انتخابات کے بارے میں ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خاں کے ہاتھ میں حکومت سونپنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ نواز شریف سے ہر حالت میں جان چھڑانے کا تہیہ کر لیا گیا ہے۔ جس انداز سے بلوچستان میں حکومت بنائی گئی تھی اور جیسے سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب کرایا گیا ہے اسی انداز سے عام انتخابات بھی کرائے جائیں گے لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان انتخابات میں کسی جماعت کو بھی مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے بعد تیسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہو گی۔ اس لئے اصل سودے بازی کی طاقت پیپلز پارٹی کے پاس ہو گی۔ مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں جماعتوں کو پیپلز پارٹی کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت پیپلز پارٹی اپنی بات منوا ئے گی۔ یہاں پیپلز پارٹی اپنے پتے کھیلے گی۔ آصف علی زرداری اگر کہتے ہیں کہ آنے والی حکومت ان کی ہو گی تو وہ اسی برتے پر تو کہتے ہیں۔ بہرحال یہ سب افواہیِں، جنہیں آپ قیاس آرائیاں بھی کہہ سکتے ہیں، ہوا میں گردش کر رہی ہیں۔ لیکن جہاں تک عمران خاں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں کی جانے والی باتیں کچھ ایسی غلط بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ آپ شروع سے اب تک دیکھ لیجئے، عمران خاں کو کہاں کہاں چھوٹ نہیں دی جا رہی ہے۔ تازہ ترین واقعہ عمران خاں کے جگری یار زلفی بخاری کا ہے۔ زلفی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہے۔ وہ پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے۔ عمران خاں کے ساتھ عمرے پر جاتے ہوئے انہیں ایئر پورٹ پر روک لیا جاتا ہے لیکن عمران خاں کے ذرا سے اشارے پر انہیں باہر جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ یہاں نہ وزارت داخلہ کو کوئی خبر ہوتی ہے اور نہ ایف آئی اے کو۔ عمران خاں پر سب خون معاف ہیں۔ اور ہاں۔ یہ خون ہمارے مقتدر حلقوں کی طرف سے ہی معاف نہیں ہیں بلکہ ان کی جاں نثار خواتین کی طرف سے بھی معاف ہیں۔ اب وہ چاہے بی بی سی کے انٹرویو میں طالبان کی تعریف کرتے رہیں یا عورتوں کے حقوق اور آزادیٔ نسواں کے خلاف باتیں کرتے رہیں، ان پرسارے خون معاف ہیں۔ اصل میں ڈر تو یہ ہے کہ آنے والے انتخابات کے لئے یہ جو نقشے بنائے جا رہے ہیں اگر ان پر ایسے ہی عمل ہو گیا تو پاکستان کا کیا ہو گا؟ پرندے کے تو پر ہی نہیں رہے کہ وہ اڑان بھر سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)