انتخابات 2018: کس کا زیادہ امکان ہے؟

June 19, 2018

مرکز اور خیبرپختون خوا میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف تاریخ کو شکست دینا اور پوزیشن برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان 25 جولائی کو عام انتخابات میں ’’تخت اسلام آباد‘‘ کے لئے مقابلہ ہوگا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت خیبر پختون خوا میں مسلسل دو مدت برسراقتدار نہیں رہی۔ ان باتوں نے انتخابات کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی نظریں اسلام آباد اور خیبر پختون خوا دونوں پر مرکوز ہیں۔ رمضان المبارک گزر جانے کے بعد اب سیاست 35 دنوں کے لئے بھرپور توجہ کا مرکز بن جائے گی۔ عیدالفطر کے دوران لوگ تہنیت اور ایک دوسرے کو مبارکباد سے زیادہ انتخابات کے حوالے سے متجسس اورلوگ عمران خان کی کامیابی کے امکانات پر گفتگو کرتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے لوگوں کو تجسس ہے کہ آئندہ وزیراعظم نوازشریف ہو سکتے ہیں؟ شہباز شریف یا شاہد خاقان عباسی ہوں گے۔ مریم صفدر کی پوزیشن کیا ہو سکتی ہے؟ معلق پارلیمنٹ کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، ایسی صورت میں آصف علی زرداری نہایت اہمیت اختیار کر جائیں گے۔ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات عمران خان کی سونامی اور نوازشریف کی لہر کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ انتخابی مہم نواز نواز اور نواز مخالف کے گردگردش کرے گی۔ تقریباً 30 سال تک سیاست بھٹو نواز اور بھٹو مخالف جذبات پر چلتی رہی۔ انتخابی مہم میں عمران خان اور آصف زرداری دونوں ہی نواز و شہباز شریف کو ہدف بنائیں گے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) نوازشریف سے ناانصافی کو انتخابی مہم کی بنیاد بنائے گی اور پنجاب میں ن لیگ حکومت کے تحت ترقیاتی کاموں کو اُجاگر کرے گی۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے نتیجے میں کتنے اُمیدوار پاک و شفاف قرار دیئے جاتے ہیں؟ نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے یہ تمام ادارے متحرک ہیں۔ لوگ نوازشریف کے انجام کے بارے میں بھی دریافت کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ کلثوم جنہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کے بعد مسلم لیگ (ن) کو حیات ِ نو بخشی تھی، وہ شدید علیل ہیں۔ یہ بات نہایت افسوسناک ہے سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو عیدالفطر پر ہدیہ تہنیت پیش نہیں کیا۔ وہ ڈرتے ہیں کہیں اس سے مفاہمت کی نہ چاہتے ہوئے کہیں گنجائش نہ نکل آئے۔ آج میڈیا تحریک انصاف کی پشت پر ہے، یہ فطری عمل ہے۔ 2013ء میں یہی میڈیا پیپلزپارٹی کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تھا۔ حکومت وقت کے اپنے کچھ نقصانات ہوتے ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں 2018ء کے عام انتخابات سخت اور نہایت دلچسپ ثابت ہوں گے۔ عمران خان جو تبدیلی کا نعرہ بلند کر کے میدان میں اُترے ہیں، ان کا پنجاب میں انحصار ’’الیکٹیبلز‘‘ پر ہے۔ جو ن لیگ اور پیپلزپارٹی چھوڑ کر ان کی جماعت میں آئے ہیں۔ عمران کے دوحکمت کار مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین پنجاب میں روایتی ذات برادری ووٹ پر انحصار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب نواز و شہباز شریف اپنی گہری جڑوں کے ساتھ تنظیم پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ 2013ء کے بر خلا ف مسلم لیگ (ن) کو اس بار مشکلات اور نقصانات کا سامنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے نوازشریف کو نااہل قرار دیا اور پھر ان کے اور بچوں کے خلاف احتساب عدالت میں زیر سماعت مقدمے کا فیصلہ بھی آنے کا خدشہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو جنہیں نوازشریف نے آئندہ وزارت ِ عظمیٰ کے لئے نامزد کیا۔ انہیں اپنے معتمد چوہدری نثار علی خان کے بغیر انتخابات میں جانے کے سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ چند مضبوط انتخابی خاندان بھی ن لیگ چھوڑ گئے۔ لیکن مشاہداللہ خان کے مطابق ان انتخابات میں ن لیگی اُمیدوار ’’نواز لہر‘‘ کی وجہ سے انہیں حیران کر دیں گے۔ اگر ن لیگ وسطی پنجاب سے اکثریتی اور جنوبی پنجاب سے کچھ نشستیں جیت جاتی ہے تو صورتحال دلچسپ ہو جائے گی۔ پنجاب میں منقسم مینڈیٹ کی صورت دیگر جماعتوں کو سودے بازی کا موقع مل جائے گا۔ اگر پنجاب میں کوئی بڑی تقسیم ہوتی ہے تو ان کا ن لیگ کو فائدہ نہیں ہوگا۔ دُوسری جانب اگر تحریک انصاف پنجاب سے قومی اسمبلی کی 50 سے 60 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی اور خیبر پختون خوا میں اپنی حیثیت برقرار رکھتی اور کراچی سے بھی چند نشستیں لے لیتی ہے تو بہتر پوزیشن میں ہوگی گوکہ اسے مخلوط حکومت بنانے کے لئے تب بھی شراکت داروں کی ضرورت ہوگی۔ تاہم عمران خان پیپلزپارٹی کے بجائے آزاد منتخب ارکان کو ترجیح دیں گے۔ آیا اس سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں مکالمے کا نیا دروازہ کھل جائے گا؟ کیونکہ سیاست نام ہی مواقع اور ممکنات کا ہے۔ گوکہ انتخابی میدان پنجاب میں سجے گا جہاں سے اکثریتی نشستیں وفاق کا فیصلہ کریں گی۔ لوگوں کو کراچی اور شہری سندھ میں انتخابی معرکے سے بھی برابر کی دلچسپی ہے جو گزشتہ انتخابات تک ایم کیو ایم کا مضبوط گڑھ رہا۔ اس کے اندرونی خلفشار کی وجہ سے خدشہ ہے اسے پہلی جیسی انتخابی گرفت حاصل نہ ہو۔ ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات نے دیگر جماعتوں کو موقع فراہم کیا ہے اور پہلی بار شہباز شریف کراچی سے انتخابی لڑ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی، پی ایس پی اور ایم ایم اے کے علاوہ تحریک انصاف کی بھی کراچی سے اب انتخابی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ معلق پار لیمنٹ کی صورت پیپلزپارٹی کا کردار اہمیت اختیار کر جائے گا۔ وہ 37 سے 40 تک قومی اسمبلی کی نشستوں پر آس لگائے بیٹھی ہے۔ 2013ء کے برخلاف اس بار عام انتخا با ت میں عمران خان، پرویز خٹک، جہانگیر ترین، شا ہ محمود قریشی، اسد عمر، عبدالعلیم خان، محمود رشید، چوہدری سرور، ڈاکٹر شیریں مزاری اور ڈاکٹر عارف علوی پر مشتمل ٹیم کلیدی کردار ادا کرے گی۔ پنجاب اسمبلی کے ممکنہ انتخابی منظرنا مے پر بعد میں بحث کریں گے جہاں ن لیگ کی ممکنہ شکست شریف خاندان کی سیاست اور قومی اسمبلی کے انتخابات پر بھی اثرانداز ہوگی۔