خلا سے زمین کے برفانی ذخائر پر نظر

June 19, 2018

ماہرین نے نئے خلائی مشنز کو بہتر اور ان کی استعداد میں اضافہ کیا ہے ۔بالخصوص زمین پر بر فانی ذخائر میںہونے والی کمی کے باعث آبی بحران سے متعلق حقائق جاننے کے لیے یہ خلائی مشنز پہلی بار تفصیلی معلومات فراہم کریں گے ۔نئے خلائی مشنز کے ذریعے گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں دنیا کو در پیش چیلنجز سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی ۔ماہرین کے مطابق قطب شمالی میںسمندر ی برف کے حجم میں کمی کی علامات سامنے آچکی ہیں ۔گزشتہ سال اس کمی کے پراسس کا جائزہ لینے پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ سمندری برف کے ذخائر ہر عشرے میں 14فی صد کم ہو جاتے ہیں ۔دوسرے قطب پر سمندری برف کے تودے بالکل اسی طرح نظر آتے ہیں جیسے 1960ء کی دہائی کے آغاز میں سیٹلائٹ سے لی گئی تصویر میں نظر آتے تھے ،تا ہم زمینی برف کے حجم میں قابل ذکر کمی ہوئی ہے ۔

لیکن اس نئے اعداد وشمار نے ماہرین کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے کہ ہر سال 160 ارب ٹن زمینی برف پگھل رہی ہے ،جس کی اکثر یت سفید بر اعظم (قطبین )سے ختم ہورہی ہے ۔رواں سال خلا میں بھیجے جانے والے مشنز میں ’’آئس سیٹ 2 ‘‘ اور ’’گریس فالو آن ‘‘ ہیں ۔ناسا کی جانب سے بھیجے جانے والے گریس فالو آن کی تیاری ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے ۔یہ سیٹلا ئٹ ایئر بس ڈیفنس اینڈ اسپیس فریڈ رچ شیفن ،جرمنی میں اپنے پلانٹ پر تیار کررہی ہے ۔فی الحال آئس سیٹ 2 بھی تکمیلی مر احل میں ہے ۔ اس میں نصب 6 لیزر بیم کے ذریعے برف کی گہرائی اور وسعت پر معلومات حاصل ہو سکیں گی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مشنز2002سے2017تک بھیجے گئے خلائی جہازوں کی کامیاب کارکردگی کے پیش نظر زیادہ متحرک ہوں گے۔ قبل ازیں بھیجے گئے یو ایس ۔ جرمن گریویٹی اسپیس کرافٹ نے پہلی بار زمین سے متعلق انتہائی مفید معلومات فراہم کی تھیں۔ ان میں آئس شیٹس، گلیشیئرز،سمندری برف، جنگلات، جزائر اور سمندری سطح تک کی حتمی معلومات شامل تھیں۔ گریس فالوآن دراصل دو سٹیلائٹس کا مجموعہ ہے جوکہ220کلومیٹر کے فاصلے سے ایک دوسرے کے پیچھے دنیا بھر میں گھومیں گے ۔

یہ مقامی گریویٹی فیلڈ میں مختلف حالتوں سے گزرتے ہوئے اپنی رفتار میں اضافہ یاکمی کرسکیں گے ، گوکہ ان کی رفتار میں فرق انسانی بال کی موٹائی کے مساوی ہوگا ،مگر مائیکرو ویو انسٹروفٹس پر اس کے اثرات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے ۔ ماہرین رواںسال روانہ کیئے جانے والے ان مشنز کوبہت اہمیت دے رہے ہیں۔ پہلے سے حاصل معلومات نے ان کی اہمیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ حقیقت پریشان کن ہے کہ گرین لینڈ سے ہر سال 280ارب ٹن برف سمندر میں جارہی ہےتواس صورت حال کے نتیجے میں سمندروں کی عالمی سطح میں3.4ملی میٹر اضافہ ہورہا ہے،گوکہ گریس فالوآن اسی طرز پر کام کریں گا ،جس طرح اس کے کئی سٹیلائٹس کررہے تھے ،مگر اس میں نصب جدید ترین لیزر اور آلات پہلے بھیجے گئے مشنز سے 10تا20گنا بہتر ہوں گے ۔

یہ لیزر لندن اور شیفیلڈ کے درمیان درست فاصلے اور بڑے وائرس کی لمبائی اور موٹائی کے بارے میں بھی درست معلومات فراہم کرسکیں گے۔امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ڈپٹی پروجیکٹ سائنٹسٹ فیلکن لینڈیر کے مطابق جرمن لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیں ایک اہم بنیاد مل جائے گی ۔ اس کے نتیجے میں مدار میں گردش کرنے والے ایسے آلات تیار کیئے جاسکیں گے جو کائنات میں سب سے بڑے بلیک ہولز کے شدید تصادم کا سراغ لگانے کے لیے استعمال ہو سکیں گے ۔اب اگلامشن2030 ء تک کشش ثقل کی لہروں کو سمجھنے کے لیے روانہ کیا جائے گا ۔ رواں سال ناسا جو مشنز خلا میں بھیجوارہا ہے اس کے ذریعے قطب شمالی پر سمندری برف کے تودوں اور زمینی برف پر روشنی کی6گرین بیم فائر کی جائیں گی ،جس کے ذریعے ان کی اصل جسامت ملی میڑمیں سامنے آ جائے گی ۔ قبل ازیں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی میں روشنی کی بیم برف سے ٹکرا کر منعکس ہوجاتی تھی، جس کے نتیجے میں برف کی گہرائی کا درست تخمینہ نہیں ہوتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک کواس وقت شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں خاص طور پرگلوبل وارمنگ نے ہماری اگلی نسلوں کوجن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دیا ہے، اس نے ماہرین موسمیات کو شدید تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں صرف جزائر گرین لینڈ سے ہرسال تیزی سے پگھلنے والی برف کو ہی پیش نظر رکھا جائے توصورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ گرین لینڈ سے پگھلنے والی برف سمندروں کی عالمی سطح میں ہرسال3.4ملی میٹر اضافہ کررہی ہے۔

سائنس دان اس وقت سے خوفزدہ ہیں جب گرین لینڈ میں برف کے ذخائر پگھل جائیں گے،ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر صرف گرین لینڈ کے جزائر کی تیزی سے پگھلتی ہوئی تمام برف پانی بن جائے تو سمندری سطح میں24فیٹ کا اضافہ ہوجائے گا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی برس سے ٹھوس برف کی شکل اختیار کرنے والے یہ ذخائر حالیہ عشروں میں10فی صد تک کم ہوگئے ہیں۔ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ گرین لینڈ میں موجود برف کی تہہ جلد صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے کہ فضا میں گرین ہاؤس گیسز کے بہت زیادہ اخراج کے نتیجے میں ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب گرین ہاؤس سے تمام برف پگھل کر سمندر کے پانی میں شامل ہوجائے گی ۔ یہ صورت حال تو صرف گرین لینڈ کے ذخائر کی ہے۔ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں بھی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج نے منجمد آبی ذخائر کو سیکڑ دیا ہے۔ اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ قطبین سے گذشتہ دودہائیوں کے دوران برف پگھلنے کے باعث عالمی سمندری سطح میں گیارہ ملی میٹر کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں سب سے زیادہ ایسے ممالک کو خدشات درپیش ہیں جو کہ ساحلی پٹیوں پر واقع ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سائنس دان تین سال قبل یہ پیش گوئی بھی کرچکے ہیں کہ اگر ماحولیاتی آلودگی بالخصوص گلوبل وارمنگ پر قابو نہ پایا گیا تو اگلے50برس میں نیویارک، لندن، پیرس اور کئی بڑے معروف شہر زیر آب آجائیں گے ۔برف کا پگھلائو گرین لینڈ میں گزشتہ دو دہائیوں میں پانچ گناتیزی سے ہوا ہے۔تحقیق سے یہ دل چسپ مشاہدہ بھی سامنے آیا ہے کہ 1992 ء سے 2011 ء کے درمیان مشرقی انٹارکٹیکا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اس کی وجہ برف باری کی شرح بڑھ جانے کو قرار دیتے ہیں، تاہم دوسری جانب مغربی انٹار کٹیکا، جزیرہ نما انٹار کٹک اور گرین لینڈ میں منجمد برف کے حجم میں کمی ہوئی ہے۔ ان خطوں میں ہونے والی کمی مشرقی انٹار کٹیکا میں ہونے والے برفیلے ذخائر سے مجموعی طور پر محروم ہوتی جارہی ہے۔ برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈ ریوشیپرڈ جوحالیہ تحقیق کے سربراہ بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ دنیا سے برف کے ذخائر، آئس شیٹس اور گلیشیئرز تیزی کے ساتھ سکڑتے جارہے ہیں جوکہ آنے والی نسلوں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔