مشرق سے مغرب تک ’’کم سِن دلہنیں‘‘

June 20, 2018

پنج ستارہ ہوٹل کا خنک ایوان روشنیوں سے جگ مگ کر رہا تھا، بہ ظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں ’’برائیڈل شو‘‘ ہے۔لیکن ایسا نہیں تھا،ٹھنڈے ایوان میں کم سن بچیوں کی شادی کے موضوع پر ایک این جی او کی جانب سے ورک شاپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسٹیج کے ارد گرد کم سن بچیاں عروسی ملبوسات میں کھڑی تھیں۔ کسی کے ہاتھ میں گڑیا تھی اور کسی کے ہاتھ میں اسکول کے بستے ، کسی کے ماتھے پر احتجاج کی پٹی بندھی تھی ، تو کسی کے ہونٹوں پر ٹیپ۔ ’’یہ سب کیا ہے؟ ‘‘ٹھنڈے ماحول میں ایک گرم سوال گونجا، لیکن جواب ندارد ،یہ چہار سو خاموشی میں چھوٹا سا ماتم تھا، سوال بار بار دہرایا گیا، تو ایک ماں کی آواز ایسی ابھری کہ ہزاروں کوششوں کے بعد بھی کوئی اسے خاموش نہ کروا سکا۔سوال کرنے والے کو بھرپور جواب مل گیا تھا۔ دُکھیاری ماں کی زبان سے الفاظ نہیں نکلے تھے بلکہ تھری ناٹ تھری کی گولیاں تھیں، جو شرکاء کے دل میں اُترگئی تھیں، اس نے بآواز بلند کہا، میری نا سمجھ پھول جیسی بچی کی شادی اس کے باپ اور جرگے والوں نے زبردستی کردی، ہمارے گھر سے ایک ڈولی گئی اور دوسری ڈولی آئی، میری دس سالہ بچی کو ستّر سالہ مرد کے نکاح میں دے دیا گیا، اس کے بدلے میں میرا پچھتر سالہ شوہر نو سالہ بچی بیاہ لایا۔ کیا میں اس پر احتجاج نہیں کر سکتی۔پوچھا جا رہا ہے، یہ سب کیا ہے؟ اس ماں نے دوسری ماں کو حوصلہ دیا ، اب وہ رو رو کر دُہائی دے رہی تھی کہ میری چار بیٹیاں خاندانی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھتے ہوئے اس عمر میں بیاہ دی گئیں، جب ان کے کھیلنے کودنے کے دن تھے۔ وہ دس ،گیا رہ سال کی عمر میں کیسے ماں بن سکتی تھیں، چاروں زچگی کے دوران مر گئیں۔ اب ایک بچی میرے پاس ہے، ا س کا باپ اسے بھی جلد ہی بیا ہ دے گا۔ کون اسے روکے گا؟ ۔

گلے سے نکلے ہوئے الفاظ اور لہجےمختلف ہوسکتے ہیں،مگر آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو توایک جیسے ہوتے ہیں ،جوآنسو دکھی ماں کے چہرے کوبھگورہے تھے ،اب وہ آنسوورکشاپ کے شر کاء کے رخساروں سے بہہ رہے تھے ،گر چہ ہر بچے اور بچی کی شادی پر احتجاج کی آواز نہیں بلند ہوتی، لیکن اس وقت کم سن بچیوں کی شادی کے خلاف ایسی آوازیں گونجیں کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر اُدھم مچ گیا۔دوسرے دن کے اخبارات میںشہہ سرخیاں لگیں اور تو اور ورک شاپ کے اختتام کے چند گھنٹوں کے بعد سڑکوں پر بھی احتجاج شروع ہو گیا۔ ورک شاپ میںمعزز مہمان اپنی پیشانیوں پر فکر وتر ود کی لکیریں کھینچے ،لچھے دار باتوں سے حاضرین کو جوش بھی دلارہے تھے اور یقین بھی کہ ،اب قانون نافذ ہوچکا ہے ،کسی بچی کی شادی اُس کی اٹھا رہ سال کی عمر سے پہلے نہیں ہوگی ،کسی بچی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی ۔سب باری باری بول رہے تھے ،یہ ورکشاپ کا ’’اوپن سیشن ‘‘ تھا ۔کسی کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تھا اور کسی کے پاس بلند لہجے کا کمال ،کوئی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیق کےپتھر پھینک رہاتھا، لیکن ان کے چہرے بتا رہے تھے کہ صورت حال سے نا بلد ہیں، صرف تصویری سیشن اور نام کے ساتھ بے معانی بیان ،ماخبارات میں جگہ ملنے کا شوق انہیں یہاں لایا ہے۔نرم ٹھنڈے ماحول میں محفل کا پارہ گرم ہوا ہی تھا کہ روشنیاں گل کردی گئیں اورایک کم سن دلہن اسٹیج پر آئی ۔سرخ رنگ کا دوپٹہ ،اس پر بکھرے ہوئے بہت سے پھول اور ان پھولوں میں اُس کا چہرہ خزاں کے پھولوں کی طرح اُداس بھی تھا اور دل کش بھی ۔وہ اسٹیج پر لگی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر کچھ ایسے انداز میں بیٹھی کہ جیسے وہ خود سے کر سی پر بیٹھ بھی نہیں سکتی، اس کی خوف زدگی اور ہچکچاہٹ کے باوجود اس کے چہرے میں ایسی کوئی بات ضرور تھی ،جسے لفظوں میں بیان کرناآسان نہیں۔اس کی زندگی کی ایک تصویر شر کاء اور میڈیا کے سامنے پیش کی جارہی تھی ۔میزبان نےاُس کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر کھڑا کیا تو وہ بے اختیار ہنس دی ،یہی سین کیمرے کی آنکھ نے فوکس کر کے دکھایا تولگا ، ابھی تو اس کے دودھ کے والے دانت ٹوٹنے کے بعد نئے دانت بھی پوری طرح سے نہیں آئے تھے، شادی شدہ ہے لیکن وہ اس لفظ کے معنی تک نہیں جانتی ،البتہ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اپنے باپ کی جہالت اور لالچ کے باعث شادی کے نام پر ہونے والے سودے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی ۔ورکشاپ کے شر کاء کو ایک این جی اوکی نمائندہ خاتون بتا رہی تھی ،اس معصوم بچی کا نام چندا ہے، یہ رخصتی کے وقت ڈولی میں بیٹھنے کےبہ جائے اتنی تیزی سے بھاگی کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے۔ شادی ہال کے قریب اس کی نانی کا گھر تھا،وہ وہاں چلی گئی نانی ،اسے لے کرفوری مددگار انٹرنیشنل کے دفتر پہنچ گئی اور ان کو صورت حال بتا کر بچی کے تحفظ کے لیے قانونی مدد مانگی، جس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بچی کو شیلٹر ہوم بھیج دیا۔یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا تھا۔ یوں یہ بچی اپنے باپ کی جہالت اور لالچ کی نذر ہونے سے بچ گئی۔ چندا شیلٹر ہوم کی نگراں کے ساتھ اس ورک شاپ میں آئی تھی ۔اس کے ہاتھ میں مائیک دیا ، تو اس نے پُر اعتماد لہجے میں بتایا ، ’’میں روزانہ بچوں کی شادی کے خلاف ایک تصویر بناتی ہوں، جلد ہی میری تصاویر کی نمائش اسکول میں ہو گی، جہاں میں پانچویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔ یہ میرا کم سنی کی شادی کے خلاف احتجاج کا ایک رنگ ہے، جس میں، نانی اور خالہ میرا ساتھ دے رہی ہیں۔ ‘‘

ورک شاپ میں بچیاں اپنا دفاع خود کر رہی تھیں،ان کی عمریں آٹھ سے بارہ سال تک تھیں۔ ہر بچے کی طرح یہ بھی آنے والے لمحوں کے عذاب اور ثواب و گناہ سے ناواقف تھیں۔ وہ اس وقت دلہن بنیں ، جب ان کی دنیا کھلونوں کے گرد گھومتی تھی۔ بابا بابا بلیک شیپ اور ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار کی متحرک نظمیں ان کے لبوں تک آکر مچل جاتی تھیں۔ وہ بھی ہر بچے کی طرح کھیل کھیل میں کبھی اسکول ٹیچر بنتیں، تو کبھی دوستوں کے ساتھ گڈے گڑیا کی شادی رچاتیں، لیکن اُنہیں یہ نہیں پتا تھا کہ ایک دن ان کے ہاتھوں سے گڑیاں چھین لی جائیں گی۔ ورک شاپ میں کم سن دلہنیں پُر اعتماد لہجے میں کہہ رہی تھیں کہ، ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا، لیکن اب ہم اپنے ساتھیوں کے لیے آگے بڑھیں گے۔ بچیوںکی شادیوں کےخلاف اس وقت تک احتجاج کرتے رہیں گے، جب تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔‘‘

انوکھی مگر موثر ورک شاپ ختم ہوئی، توہال میں خاموشی تھی۔ لیکن شرکاء اپنی کرسیوں پر ایسے جم کر بیٹھے تھے، جیسے پروگرام کا آغاز اب ہوگا۔ بچیوں کی فر یادیں محفل میں پرانے اخبار کی طرح اڑتی رہیں۔ملی ، جلی آوازیں احتجاج کا اظہار کر تی رہیں۔ کم سن بچیوں کی شادیوں کے خلاف کل بھی احتجاج ہوا، آج بھی ہو رہا ہے۔ لیکن جب بھی ہوا، وقتی ہوا، احتجاج کے بعدشور تھم جاتااور سب بھول جاتے کہ کل کس کی بچی بیاہی گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بھول کی دھول جب تک سسٹم کی آنکھوں پر پڑی رہے گی، تب تک معصوم بچیاں بیاہی جاتی رہیں گی، کبھی ادلے بدلے میں ، کبھی ونی اور اور سورہ جیسی فرسودہ رسومات ، کبھی جہالت، لالچ، جنسی ہوس اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہوئے ان کے نکاح ایسے شخص کے ساتھ ہوتے رہیں گے،جو عمر میں ان سے کافی بڑے ہوں گے۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ان بچیوں سے بے فکری کا زمانہ قبل از وقت چھین لیا جاتا ہے۔ صبح و شام ان کے اپنے نہیں رہتے ۔ کمزور جسم سخت کاموں کا بوجھ نہیں جھیل پاتا، یوں شادی جیسا حسین تصور ان کے لیے ایک بھیانک تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ایسا صرف پاکستان میں نہیں ،مشرق سے مغرب تک ایسا ہی ہو رہا ہے، دنیا بھر میں ہر تین سیکنڈ بعد اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکی جبراً بیاہ دی جاتی ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب بیش تر ممالک میں بچیاں اپنی شادیوں کے خلاف ’’از خود ایکشن‘‘ لے رہی ہیں۔ غالباً یہ حوصلہ ’’یمن کی نو سالہ نجود علی‘‘ نے انہیںدیا، جو دنیا بھر میں ہمت و حوصلے کی مثال بن چکی ہے۔نجود 2010سے یمن میں کم عمری کی شادی کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ اُس نے مہم کیوں چلائی؟ اس بارے میں اس نے یمن کے ایک اخبار اور ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا،’’میری شادی مارچ 2008میں اُس وقت ہوئی، جب میں نو سال کی تھی۔ شادی کے ایک ماہ بعد میں گھر سے بھاگ کر عدالت چلی گئی، یہ راہ مجھے میری خالہ نے سوجھائی تھی ۔ شوہر اور سسرال والوںکے ظلم سے میںتنگ آگئی تھی۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا، باپ نے کہا، لڑکیوںکے گھر جتنے جلد بس جائیں، اتنا ہی اچھا ہوتا ہے، لیکن میرے ساتھ سسرال میں کچھ اچھا نہ ہوا۔

مجھے نوکرانی سے بھی بدتر درجہ دیا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ میںنے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سسرال کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔ جب میری شادی ہوئی تو مجھے شادی، طلاق، خلع کے بارے میں علم نہیں تھا، لیکن دس سال کی عمر میں ان الفاظ کے معنی پتا چل گئے۔ بچیوں کی کم عمری میںشادی اکثر والدین اپنے سر سے بوجھ کم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی جیب گرم کرنے کے لیےبھی کرتے ہیں۔ میرے اس اقدام سے میرے ملک میںابکوئی کم عمر بچیوں کی شادی نہیںکرسکےگا ۔ ایسا میری جاری مہم اور بغاوت سے ممکن ہوا۔‘‘

نجود علی کی شادی تو خاموشی سے ہو گئی، لیکن ’’خلع‘‘یمن سمیت دنیا بھر میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن گئی، کم و بیش ہر چینل نے اسے نشر کیا اور ہر اخبار کی سرخی بنی۔ نو برس کی نجود کی شادی 30سالہ فیض علی تھامر سے مارچ 2008میں ہوئی، لیکن صرف ایک ماہ بعد 2اپریل 2008کی صبح وہ شوہر کے گھر سے جاتے ہی بغیر کسی کو بتائے عدالت چلی گئی۔ وہ عدالت کےا حاطے میںکھڑے ہر آنے جانے والے سے باآواز بلند کہتی، مجھے ’’جج‘‘ سے ملنا ہے۔ بالآخر جج مھمد ال غدا کے کانوں میں اس کی صدا پہنچ گئی۔ وہ کمرہ عدالت سے باہر آئے اور نجود کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا، بیٹی کیا بات ہے؟ اس نے روتے ہوئے کہا،کوئی میری بات نہیںسن رہا، مجھے اپنے شوہر سے علیحدگی چاہیے۔ یہ سن کر جج نے حیرت سےاسے دیکھا، بعد ازاں جج نے نجود کو عارضی پناہ فراہم کرتے ہوئے ایک خاتون وکیل شاوا نصیر سے کہا کہ بچی کی بات سنو۔ آشاوا انسانی حقوق کی علم بردار اور فیملی مقدمات کو دیکھتی ہے۔ نجود کی بات سننے کے بعد اس نے نجود کی طرف سے خلع کی درخواست دائر کر دی، جلد مقدمے کی کارروائی شروع ہو گئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتےاس مقدمے نے نہ صرف ملک گیر شہرت حاصل کرلی، بلکہ عالمی میڈیا کو بھی چونکا دیا۔ یہ صرف یمن نہیں،بلکہ دنیا بھر میںپہلی بار کوئی 9سالہ بچی اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میدان میں اُتری تھی۔ قدامت پرست پریس بچی کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ اس کا باپ بھی بچی کی عمر زیادہ بتا کر کیس کا رخ موڑنا چاہتا تھا۔ عدالت نے شوہر اور باپ سے بھی باز پرس کی، بہرحال ہزار مشکلات کے باوجود صرف چند سماعتوں کے بعد نجود مقدمہ جیت کر دنیا کی سب سے کم عمر خلع یافتہ بن گئی۔

نجود علی نے میڈیا کو بتایا ’’میں وکیل بن کر بچوں کے حقوق کی جنگ لڑنا چاہتی ہوںا ور دنیا بھر کی ان بچیوں کے لیے جو کم عمری میںبیاہی گئی ہیں، ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کروںگی۔‘‘

ایک طرف نجود علی مہم چلا رہی ہے، دوسری طرف برطانیہ میں مقیم بھارت کی جسوندر سنگھیڑا ، کم سنی کی شادی کے خلاف آواز بلند کررہی ہے، ایسا وہ اپنے تجربے کی روشنی میںکیا۔جسوندر ، آٹھ سال کی تھی جب والدین نے اس کا رشتہ طے کر دیا تھا، دس سال کی ہوئی تو اسے شادی کا مژدہ سنادیا گیا، لیکن اس نے رشتہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور گھر سے فرا ر ہوگئی، پھر اس نے جو کچھ کیا، اس نے برطانیہ میں مقیم بھارتی شہریوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

جسوندر سنگھیڑا کے والدین پچاس کی دہائی میں بھارت سے برطانیہ منتقل ہوئےتھے۔یہ سکھ خاندان برطانیہ کے مشرقی اور صنعتی شہر ’’ڈربی‘‘ میں جاکرمقیم ہوا۔ جسوندر نے زندگی کی پہلی سانس بھی اسی سرزمین پرلی۔والدین کی سات بیٹیوں میں سے اس کا چھٹا نمبر تھا۔وہ دس سال کی تھی جب اس کی بڑی پانچ بہنوں کو جب وہ تیسری‘ چوتھی اور پانچویں کلاس میں زیرتعلیم تھیں ،والدین بھارت چھوڑ آئےتھے۔یعنی وہاں لے جاکر ان کی شادی کردی۔ جسوندر‘ اپنی بہنوں کے بغیر اداس رہنے لگی، وہ ان کے پاس جانا چاہتی تھی۔ایک دن وہ اسکول سے واپس آئی، تو ماں نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا‘تم اپنی بہنوں سے ملنا چاہتی ہو ناں، ہم نے تمہاری خواہش پوری کردی ہے۔ آج میںنے تمہاری پسند کا کھانا بھی پکایا ہے، چلو جلدی سے کھانا کھالو، پھر چلنے کی تیاری کرتے ہیں۔ ماں نے اس سے پہلے کبھی اس طرح محبت کااظہار نہیں کیا تھا۔وہ ان کے رویے پر حیران ہوئی لیکن جلدہی اس پر عقدہ کھل گیا، ماں نے‘اس کے سامنے ایک سکھ نوجوان کی تصویر رکھ کر کہا‘ جب تم 8 سال کی تھیں تو ہم نے اس سے تمہارا رشتہ طے کردیاتھا‘اب دو دن بعد تمہاری شادی ہے۔کل تم ہمارے ساتھ بھارت جارہی ہو۔یہ سن کر جسوندر نے برجستہ کہا‘ ’’مجھ سے پوچھے بغیر‘ میری مرضی کے بغیر‘میں نے اسے دیکھا نہیں‘ ہرگز اس انجانے شخص سے شادی نہیں کروں گی‘ ویسے بھی میری شادی کی عمر نہیں ہوئی۔‘‘ماں باپ کو کم عمر بیٹی سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ وہ اس کا انکار سن کر سیخ پا ہوگئے۔باپ نے مارا‘ ماں نے ڈانٹا لیکن وہ اپنے انکار سے پیچھے نہ ہٹی۔اس رات اسے ایک کمرے میں قید کردیاگیا لیکن صبح ہونے سے قبل وہ کمرے کی کھڑکی سے فرار ہوگئی اور والدین کو فون کرکے بتایا‘میں نے آپ کا گھر چھوڑ دیا ہے،گرچہ کم عمر ہوں لیکن شادی اپنی مرضی سے کروں گی۔

جسوندر اب اپنے گھر نہیں جاسکتی تھی‘اس نے بورڈنگ ہائوس میں داخلہ لے لیا۔ماں باپ نے اس سے قطع تعلق کرلیا۔جسوندر تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے یونی ورسٹی آف ڈربی میں پہنچ گئی‘اسی اثناء میں اس کی بارہ سالہ بڑی بہن نےشوہر کے مظالم سے تنگ آکر خود سوزی کرلی۔بہن کی المناک موت نے جسوندر کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔وہ کم سنی کی شادی کے خلاف کھڑی ہوگئی۔اس نے برطانیہ میں رہتے ہوئےنہ صرف کم سنی اور جبری شادیوں کے خلاف آواز بلند کی بلکہ تین ناول کم عمری کی شادی کے تنا ظر میں قلم بند بھی کیے۔

دنیا کے بیش تر ممالک میں انسانی حقوق کے عالمی کنونشنز کے برخلاف اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہی لڑکیوںکی شادی کردی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر والدین غربت، سماجی تنازعات اور زیادہ بچوں کی وجہ سے انہیں بوجھ سمجھنے لگتے ہیں، یوںبچوںکی کم عمری میں شادی کر کے اپنے کاندھوں کا بوجھ کم کر کے اپنے بچوں پر ڈال دیتے ہیں۔

عالمی کنونشنز میں واضح طور پر کم عمری کی شادیاں بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل (2)16کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (CRC) میں حق بقا، غیر مناسب سلوک اور استحصال سے تحفظ سمیت بچوں کو اپنے خاندان کی ثقافتی اور سماجی زندگی میں مکمل طور پر شمولیت کا حق دیا گیا ہے، لہٰذا پاکستان سمیت بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک پر پابندی لاگو ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں بچیوںکو تحفظ اور تمام معینہ حقوق فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میںکم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے جو قوانین رائج ہیں، وہ ناکافی ہیں۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل عورتوں اور بچّوںکے تحفظ کا کوئی قانون نہیں تھا۔ انگریزوں نے ان کے تحفظ کے لیے پہلی بار قوانین رائج کیے۔ ابتدائی اقدامات کے طور پر ’’ستی‘‘ جیسی ظالمانہ رسم ختم کی، جس میںبعض ہندو ذات میں مرد کی چتّا کے ساتھ اس کی بیوہ کو بھی زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ نئے قوانین میںہندو عقیدے کے برخلاف بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت دی گئی، نیز دختر کشی روکنے کے لیے دو قوانین بنائے گئے۔ پہلا قانون 1795 اور دوسرا 1804میں بنا۔ قانون سازی میں جہاں ہندوئوں کی سماجی زندگی سے متعلق معاملات کا خیال رکھا گیا، وہیں مسلمانوں کے حقوق اور مسلم خواتین سے متعلق قوانین بھی بنائے گئے، لیکن خواتین سے متعلق قانون سازی میں ترقی پسند اور قدامت پسند نظریات کے حامل افراد تقسیم ہو گئے، ان کے اختلافات سے قانون سازی کے عمل میں رکاوٹیں حائل ہوئیں، مگر لوگوںکے منفی رویوں کے باوجود خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میدان میںآگئیں، اگرچہ ان کی تعداد بہت کم تھی، لیکن اُنہوںنے سماجی زندگی سے متعلق قانون سازی پر آواز بلند کی، جن میںکم عمری کی شادی کا مسئلہ بھی شامل تھا، بعد ازاں چائلڈ میرج ایکٹ 1929، مسلم شریعت ایکٹ 1937اور تنسیخ نکاح کا قانون 1939میں نافذ ہوا۔ چائلڈ میرج ایکٹ کی مسلمانوں نے مخالفت نہیںکی، جب کہ دوسرے ایکٹ کی مخالفت کی۔ 1935میںمرکزی قانون ساز اسمبلی میں شریعت بل پیش کیا گیا۔

اس بل سے ہندوستان کی مسلم خواتین کی سماجی اور سیاسی حیثیت بڑھی۔ فرسودہ رسم و رواج کے خاتمے اور حقوق و فرائض میں توازن پیدا ہوا۔ مسلم خواتین کے عائلی قوانین کے سلسلے میں سب سے اہم قانون سازی چائلڈ میرج ایکٹ 1989کی صورت میں ہوئی۔ اس ایکٹ کے تحت کم عمر بچیوںکی شادی کرانے کے جرم میں ایک ہزار روپے جرمانہ اور تین ماہ کی سزا تھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ ایکٹ نافذ تھا، جو انتہائی غیر موثر تھا۔اس کے بعد پاکستان سمیت مختلف ممالک میں وقتاََ فو وقتاََ ’’چائلڈ میرج ایکٹ‘‘نا فذ ہوتے رہے لیکن عمل درآمدصِفر ہی رہا۔ہر ملک میں قوانین کی دھجیاں بکھرتی رہیںاور کم سن بچوں کے ہاتھوں سے کھلونےچھین کر ان پر ذمے داریوں کا بوجھ لاد دیا گیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ کم عمری کی شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوتی ہیں، جو تقریباً 46 فیصد ہیں، جبکہ پاکستان میں 13 فی صد بچیاں شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کردی جاتی ہیں۔ معاشی و سماجی لحاظ سے پس ماندہ دیہی علاقے، جہاں بچیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی، وہاں کم عمری کی شادیوں کا زیادہ رجحان ہے۔ 1929ء کے چائلڈ میرج ایکٹ کے مطابق شادی کے لیے لڑکی کی عمر کم از کم 16 سال مقرر تھی ، مگر چائلڈ میرج کے حوالے سے پالیسی بنانے والے اوردیگر بااثر افراد نے اسے ہمیشہ نظر انداز کیا ۔ چند سال قبل اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ نوجوان لڑکیوں کا عالمی دن منایا تھا، اس موقع پر یونیسیف کے پاکستان میں نمائندوں نے کہا تھا کہ، لڑکیوں کی تعلیم میں اضافہ، ان کی اچھی صحت اور نومولود بچوں کی شرح اموات میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ نو عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔

گر چہ کم عمری کی شادیوں کے بارےمیں ابھی تک کوئی جامع تحقیق منظر عام پر نہیں آئی ہے، لیکن ایک سرکاری سروے رپورٹ کے مطابق، 15 سے 18 سال کے درمیان 50 فی صد بچیاں یا تو اُمید سے ہوتی ہیں یا ماں بن چکی ہیں۔ واضح رہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ گائوں اور دیہات میں بچوں کے پیدائشی سرٹیفیکیٹ نہیں بنوائے جاتے اور شادی کے وقت لڑکی کی عمر کی تصدیق نہیں کی جاتی۔ پاکستان سمیت مختلف ممالک میں کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون تو ہے، لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔سابق رکن پارلیمان، ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ مرحومہ نے اسمبلی سوال اٹھایا تھا کہ’’ اگر 18 سال ووٹ کی عمر ہے اور اسی عمر میں قومی شناختی کارڈ بنتا ہے تو شادی16 برس کی عمر میں کیوں؟‘‘ لیکن اس کا جواب نہ ملا، حالاں کہکم عمری کی شادیوں کے خاتمے پر اتفاق پایا جاتا ہے، تاہم یہ معاملہ مذکورہ اتفاق کے باوجود رک نہیںسکا۔

اعداد و شمار کے مطابق، ترقی پزیر ممالک میں ہر تین میں سے ایک لڑکی کی سن بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی شادی کردی جاتی ہے۔ ہر نو میں سے ایک لڑکی کے پندرہویں سال گرہ منانے سے قبل ہی ہاتھ پیلے کردیئے جاتے ہیں، ان میں زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق غریب گھرانوں، کم تعلیم یافتہ اور دیہی علاقوں سے ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2010میں6.7ملین سے زائد لڑکیوں کی شادیاں 10تا 14سال کی عمر میںہوئیں، جن میں نصف کا تعلق براعظم ایشیا اور براعظم افریقا کے ممالک پر مشتمل تھا۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرحجاری رہا تو 2021تا 2030تک ہر سال 15.1ملین کم عمر لڑکیوں کی شادیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔یو این ایف پی اے (UNFPA) کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میںبیس سے تیس فی صد لڑکیوںکی شادی اٹھارہ سال سے قبل کردی جاتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں کم عمری کی شادی کا تناسب 29فی صد ، پنجاب 20فی صد، بلوچستان22فی صد اور سندھ میں سب سے زیادہ یعنی 33فی صد تک ہے، یہاںتک کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی عمر رسیدہ مردوں کے ساتھ ہونا بھی عام ہے۔

کم سِنی کی شادی کے خلاف قوانین پاس ہونے کے باوجود عملی طور پر عورت کی حالت نہیں بدل پائی، وہ آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔ برطانوی حکومت اپنے ملک میں موجود جنوبی ایشیائی تارکینِ وطن میں کم عمری کی شادی روکنے کے لیے قانون سازی پر غور کررہی ہے، جب کہ پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کو پہلے ہی غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے، تاہم اس پر عمل درآمد ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔ چھوٹی بچیوں کی شادیاں پاکستان کے دیہی علاقوں میں ایک روایت بنتی جا رہی ہے۔ خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی نجی تنظیم وائٹ ربن کمپئن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کا کہنا تھاکہ اسمبلیوں اور سینیٹ میں موجود سیکڑوں خواتین ارکان کی طرف سےعام عورت کو حقوق کی فراہمی اوراُن حالت زار سنوارنے کی جدوجہد کے بلند بانگ دعووں کے باوجود، آج بھی پاکستان کی لاکھوں لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں ہو جاتی ہیں، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں بیاہی جانے والی بچیاں 15 سے 18 سال کی عمر میں ماں بن جاتی ہیں۔ وہ اپنی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پاتیں اور ان کے ہاں کم وزن بیمار بچے بھی پیدا ہوتے ہیں، جو پہلی سالگرہ سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ کم عمری کی شادیاں زچگی کے دوران اموات کی بڑی وجہ ہیں۔ نیز کم عمر مائیں لاتعداد سماجی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔

چند سال قبل ایک امریکی اخبار میں "Early Marriage Child Spouses" کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی‘جس میں کہاگیاتھا کہ‘بچوں کی شادی کا زیادہ تر رواج بھارت‘ بنگلا دیش‘افریقا میں ہے۔ان ممالک کے جن علاقوں میں بچپن میں شادی عام ہے،اس کی بڑی وجہ غربت ہے‘ والدین اخراجات کم کرنے کے لیےکم سن بچیوںکو بیاہ دیتے ہیں‘کئی جگہ تو لڑکی کو پتھر کی مانند بوجھ سمجھا جاتاہے۔رپورٹ کے مطابق شادی کے بعد کم سن دلہنوں سے وہ کام کروائے جاتے ہیں جو ایک اوسط عمر کا شخص بھی نہیں کرسکتا۔ مثلاً ان سے جانوروں کے چارے کا انتظام سنبھالنے کو کہاجاتا ہے۔دیہی علاقوں میں گھروں کی صفائی ستھرائی سے لے کر کھیتوں تک میں کام لیاجاتا ہے۔یونی سیف کی ایک اور رپورٹ کے مطابق‘ دنیا میں سالانہ 15 سے 19 برس کی مائوں کی تعداد 15 ملین ہے‘ جب کہ ناقص طبی سہولتیں کے باعث بیش تربچیاں زچگی کے دوران مرجاتی ہیں۔

ایک مغربی ادیب نے آنسوؤں کو نجات کا راستہ قرار دیا تھا، مگر رسم و رواج میں جکڑی بچیاں برسوں سے رو رہی ہیں، مگر تا حال انہیں نجات نہیں مل پائی۔ عرصۂ دراز سے نسل در نسل یہ سلسلہ چل رہا ہے، جو قوانین کے نفاذ کے باوجود بھی ختم نہیں ہو سکا۔ آخر ہوگا کیا؟

کم عمری کی شادی کے خلاف آگاہی کا انوکھا انداز

گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین نے کم عمری کی شادی کے خلاف ایک انوکھا طریقہ اپنایا۔عروسی ملبوسات کا فیشن شومنعقد کیا گیا،جس میں ایک کم عمر بچی کو بطور ماڈل پیش کیا گیا جس نے آرائشی کام سے لیس اسکول یونیفارم زیب تن کیا ہوا تھا۔ بچی نے دلہن کی طرح میک اپ اور زیورات پہنے ہوئے تھے۔آگاہی کی اس مہم کے لیے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ برائیڈل یونیفارم کا استعمال کیا گیا اور معروف شخصیات نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کی جانب سے بنائی گئی پٹیشن پر دستخط بھی کیے۔اسکول یونی فارم میں ملبوس کم سن دلہن کو فیشن شو میں پیش کرنے کا مقصدوالدین میں شعور اُجاگر کرنا ہے۔

دنیا کی پہلی کم عمر خلع یافتہ یمن کی نجود علی

نجود علی

یمن کی 9 سالہ نجود علی کے مقدمہ جیتنے کے بعد دنیا بھر میںہلچل مچ گئی۔ نجود کی بہادری سے متاثر ہوکر فرانس کے پبلیشر، مائیکل لافون نے کتاب شائع کی، جس کا عنوان ہے۔ ’’میںنجود علی، عمر دس سال، خلع یافتہ‘‘ اس کتاب کے اب تک 16زبانوںمیںتراجم ہوچکے ہیں، جب کہ 35ممالک میںلاکھوں فروخت ہوئیں۔مائیکل نے کتاب کی اشاعت کے ساتھ اعلان کیا کہ جب تک نجود 18سال کی نہیںہوجاتی، وہ ہر ماہ اسے ایک ہزار ڈالر دے گااور اس کے تمام تعلیمی اخراجات اٹھائے گا۔ اخباری خبروں کے مطابق مائیکل نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں نجود کو ایک گھر بھی تحفے میں دیا ہے۔نجود علی کی شادی 9 سال کی عمر میں ہوئی اور اسی عمر میں اس نے خلع لے لیا۔

کم عمر لڑکیوں کی شاد ی، بھارت اور بنگلا دیش سرفہرست

نیشنل کمیشن فارویمن (بھارت) کی چیئرپرسن سالہ موہانی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت میں چائلڈ میرج ایکٹ 1978 کے تحت 18 برس سے عمر لڑکی اور 21برس سے کم عمر لڑکے کی شادی نہیں ہوسکتی لیکن راجستھان، مدھیا پردیش، اتر پردیش، بہار اور مغربی بنگال میںکم عمر بچیوںکی شادی عام بات ہے۔ ان علاقوں کی آبادی بھارت کی آبادی کا تقریباً 40 فی صد ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک این جیو کیے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 6 کروڑ لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں کی جاتی ہیں، جب کہ صرف بھارت میں گزشتہ دو سال میں تقریباً 2 کروڑ 30لاکھ لڑکیوں کب شادیاں کردی گئیں،جو بھارت میں دنیا بھر میں کمر عمری میں ہونے والی شادیوں کا 40 فی صد بنتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کم عمربچیوں کی شادی میں بھارت اور بنگلا دیش سرفہرست ہیں۔

بنگلا دیش جہاں غربت، بے روزگاری اوردیگر معاشرتی مسائل کی کمی نہیں، وہاں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی بھی گوناگوں مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ معاشرتی علوم کی ایک پروفیسر، مسعودہ راشد چوہدری نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، خواتین میں معاشرتی تحفظ کی عدم موجودگی کا احساس، ناخواندگی اور مذہبی روایات دراصل کمسنی میں ہی لڑکیوں کو بیاہ دینے کی فرسودہ روایت کا سبب ہیں۔ 160 ملین کی آبادی پرمشتمل، اس مسلم معاشرے میں بچّیوں کو اکثر ان سے دوگنے عمر کے مردوں کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے۔ ماہرین معاشرتی امور کے خیال میں اس رجحان کے سبب معاشرتی ترقی کی رفتار بری طرح متاثر ہو ری ہے۔ یہ خواتین معاشرے کو بہت کچھ دے سکتی تھیں، تاہم اس کے لیے انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ضروری تھا۔ کم عمری میں بیاہ دی جانے والی لڑکیاں نہ تو تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، نہ ہی روزگار کی منڈی میں خاطر خواہ جگہ بنا پاتی ہیں۔ انہیں صحت کے مسائل کا بھی سامنا رہتا ہے، اکثر اپنے بچوں کی پرورش بھی مناسب انداز میں نہیں کر پاتیں۔‘‘ کمسن لڑکیوں کی شادی کے خلاف غیر سرکاری اداروں اور حکومتی مہم کے جاری رہنے کے باوجود حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔ ’’چائلڈ پری وینشن ایکٹ‘‘ میں نابالغ لڑکیوں کی شادی کرنے والے والدین کے لیے ایک ماہ کی قید کی سزا کا قانون ہے، تاہم اس کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس امر کی تصدیق بنگلا دیش کی، ویمنز لائیر ایسوسی ایشن کی ڈائریکٹر نے بھی کی ہے۔ بنگلا دیش میں لڑکیوں کو ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ خاندان والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی کو کسی صاحب ِثروت مرد کے حوالے کردیا جائے، تاکہ ان پر معاشی بوجھ کم ہوسکے، تاہم کچھ لڑکیاں بیوی بننے کے بعد اپنی زندگی کےمعیار کو بہتر بنانے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔

ہر تین سیکنڈ بعد اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکی کی شادی

دنیا بھر میں ہر تین سیکنڈ بعد اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکی کی شادی ہوتی ہے۔ تقریباً ایک سال میں ایک کروڑ سے زیادہ کم عمر بچیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں، جو زیادہ تر افریقہ، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ 2014ء کے مطابق، اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کی شادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جب کہ انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن وومن کے مطابق، دنیا بھر میں سالانہ پانچ کروڑ بچیوں کی شادی کردی جاتی ہیںاور یہ تعداد آئندہ دہائی تک دس کروڑ سے تجاوز ہونے کا امکان ہے۔ نائیجریا، چاڈ اور مالی میں ستر فی صد بچیوں، جب کہ بنگلا دیش، گنی، وسطی افریقی جمہوریہ، موزمبیق، برکینا فاسو اور نیپال میں پچاس فی صد بچیوں کی شادیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں ہوجاتی ہیں۔ ایتھوپیا، ملاوائی، مڈغاسکر، سیر الیون، کیمرون، اریٹیریا، یوگنڈا، بھارت، نکارا گوا،زیمبیا اورتنزانیہ میں یہ شرح چالیس فی صد ہے۔ بچوں کے حقوق برائے اقوام متحدہ کے کنونشن میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، ۔ اقوام متحدہ کے ملینیم ترقیاتی مقاصد، جنہیں دو ہزارپندرہ تک حاصل کرنا تھا، ان میں کُل چھ کا براہِ راست تعلق چائلڈ میرج سے تھا لیکن وقت گزر گیا،کوئی کچھ نہ کرسکا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی قرارداد پر ایران کادستخط کرنےسے انکار

ایران نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے تیار کردہ اس قرار داد پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے، جس میں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی مخالفت کی گئی ہے۔ ایرانی اخبار ’’اعتماد‘‘ کے مطابق 21 نومبر 2014ء کو انسانی حقوق کمیٹی میں متذکرہ قانون پر رائے شماری کرائی گئی تھی، جس کی ایران نے مخالفت کی تھی۔ بعض ممالک کی سفارش پر اس قرارداد میں ایک اضافی شق بھی شامل کرائی گئی، جس میں بچیوں کی تعلیم و تربیت پر بھی زور دیا گیا ۔ ایرانی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی جوڈیشل کمیٹی کے رکن محمد علی اسفنانی نے ایک اخباری بیان میں کہا تھاکہ ان کا ملک کم عمری کی شادی سے متعلق اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کی حمایت نہیں کرے گا۔ اٹھارہ سال سے کم عمری کی شادی کے امتناع کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ نیز قرارداد میں بہت سی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ کیا اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوانوں کو شادی کا حق نہیں دیا جاسکتا؟ اگر اس عمر تک شادی کی حد مقرر کی جائے گی تو معاشرے میں برائیوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہمیں ایسی کسی قرارداد کے نتائج اور مضمرات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ایران میں کوئی سترہ سال کی عمر میں شادی کرنا چاہے تو ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں۔

ہوشربا اعداد و شمار

اقوام متحدہ کے ادارے برائے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کی رپورٹ کے مطابق سالانہ ایک کروڑ 42 لاکھ کم سن بچیاں شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔جنوبی ایشیائی ممالک کی آدھی اورافریقا کی ایک تہائی بچیوں کی شادی 18 سال کی عمرتک کردی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کم سن لڑکیوں کی شادیاں سب سے زیادہ براعظم افریقا کے ملک نائیجیریا میں ہوتی ہیں۔چاڈ اور سینٹرل افریقین ری پبلک میں یہ شرح 68 فی صد ہے‘جب کہ بنگلا دیش میں 66 فی صد‘ گوئیٹسا میں 63 فی صد‘ موزمبیق میں 56 فی صد‘ مالی 55 فی صد‘ جنوبی سوڈان 52 فی صد اور ملادی میں 50 فی صد کم عمری میں بیاہ دی جاتی ہیں۔ آبادی کو مدنظر رکھاجائے تو بھارت میں سب سے زیادہ کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن ویمن کے اعداد وشمار کے مطابق بنگلا دیش‘ مالی‘ موزمبیق اور نائیجیریا میں نصف سے زائد بچیوں کی شادیاں کم سنی میں کردی جاتی ہیں‘ جس کی بنیادی وجہ غربت بتائی جاتی ہے۔

راجستھان کے ’’اکھاتیج تہوار‘‘ پر کم سن بچیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں

راجستھان جو بھارت کا ایک خوبصورت صوبہ ہے،جس کی گنگا جمنی تہذیب پوری دنیا مین مشہور ہے۔جہا ں کا رنگ برنگا کلچر پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے،اسی راجستھان میں ہر سال 30 اپریل کو ایک تہوار منایا جاتا ہےجسے’’اکھاتیج تہوار‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ راجستھان کا مشہور قدیم تہوار ہے، جس کا اعلان ہر سال مقامی ہندو جوتشی کرتاہے۔تہوار کے دن لوگ اپنے اپنے علاقوں کے داخلی راستوں کو گاڑیاں کھڑی کرکے بند کردیتے ہیں اور پہلے سے مقرر پنڈال میں جمع ہوجاتے ہیں‘جہاں کم سن بچوں کی مشترکہ شادیاں ہوتی ہیں۔یہ تہوار جوش وخروش سے ایک واقعہ کی یاد میں منایا جاتاہے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ سالوں قبل ایک بیرونی حملہ آور نے ایک ہندو لڑکی سے زیادتی کی تھی۔کہاجاتا ہے کہ بیرونی حملہ آور کنواری لڑکیوں کو زبردستی اٹھاکرلے جاتے تھے‘ سو علاقے کے لوگوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ کم سنی میں بچیوں کی شادی کردی جائے۔گزشتہ سال راجستھان کے ایک شہری، ’’شری رام‘‘ نے اپنی چارسالہ بیٹی کی شادی اکھائیج تہوار پر کی۔اس کے داماد کی عمر سات سال ہے۔شری رام کی سات بیٹیاں ہیں۔چھوٹی بیٹی کی عمر اٹھارہ ماہ اور بڑی بیٹی 14 سال کی ہے۔چھوٹی بیٹی کے سوا سب بچیوں کی اس نے اکھاتیج تہوار پر ہی شادی کی۔اب 18 ماہ کی بیٹی کا رشتہ تلاش کررہاہے۔شری رام کی خواہش ہے کہ اگلے سال چھوٹی بیٹی کارشتہ بھی طے کردیاجائے۔یہ صرف ’’شری رام‘‘ کی کہانی نہیں ہے‘ ہرسال ہی اکھاتیج تہوار پر ہزاروں کم سن بچیاں دلہن بنتی ہیں۔

’’کرمانروانا‘‘ (Karma Nirvana) گروپ

بھارت کی جسوندر سنگھیڑا نے برطانیہ میں 1993ء میں ’’کرمانروانا‘‘ گروپ بنایا۔اس گروپ کا مقصد یہ ہے کہ والدین اپنی کم سنی بچیوں کی جبراً شادیاں نہ کریں۔یہ گروپ مظلوم لڑکیوں کی ہرقسم کی مدد کرتاہے۔گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہرسال ہزاروں لڑکیاں اچانک اسکول کی تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔والدین انہیں زبردستی اپنے ملک لے جاکر شادی کردیتے ہیں اور انہیں شوہر کے حوالے کرکے خود واپس برطانیہ آجاتے ہیں۔’’کرمانروانا‘‘ کے تحت ایک ہیلپ لائن قائم ہے‘ جہاں کم سن بچیاں کسی بھی وقت فون کرکے اپنی شکایات درج کراسکتی ہیں۔ابھی تک اس گروپ میں بھارتی لڑکیاں شامل ہیں‘جو اپنی ہم وطن ان بچیوں کی بھرپور مدد کرتی ہیں‘ جن کے والدین کم سنی میں ان کی جبری شادی کردیتے ہیں۔

بھارت میں جو کچھ ہورہاہے‘اس کے اثرات مغرب میں مقیم بھارتی خاندانوں پر مرتب ہورہے ہیں۔کچھ کم سن بچیاں بغاوت کررہی ہیں جب کہ بیش تر والدین کی خواہش تو پوری کردیتی ہیں لیکن شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آکر خود کو ختم کرلیتی ہیں۔

آج کل جسوندر برطانیہ میں کم سن بچیوں کی جبری شادی کے خلاف ایک ایکٹ منظور کرانے کی مہم چلارہی ہے‘جس کے تحت والدین سے بچوں کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھنے کا حق واپس لیے جانے کا مطالبہ ہے۔برطانوی اخبار آبزرور کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ بیش تر ایشیائی خاندان اپنا ملک چھوڑ کر برطانیہ تو آجاتے ہیں لیکن اپنی بچیوں کی شادیاں اپنے دیس میں کرناچاہتے ہیں‘اس کے لیے وہ لڑکی کے جوان ہونے کا بھی انتظار نہیں کرتے۔جسوندر کی مہم نے لڑکیوں میں شعور بے دار کردیا ہے۔اس نے کم سنی اور جبری شادیوں کے حوالے سے تین ناول بھی لکھے ہیں، جو شیم‘(Shame) ڈاٹرآف شیم‘ (Daughter of Shame) اور شیم ٹریول‘ (Shame Travel) کے نام سے شائع ہوئے۔تینوں ناول میں کم سنی اور جبراً شادیوں کے حوالے سے ہیں۔ان ناولوں نے ’’کرمانروانا‘‘ کا کام پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان میں قوانین کے نفاذ کا مسئلہ

پاکستان میں بچیوں کی شادیوں کے خلاف قوانین کےنفاذ کا مسئلہ ان کا مختلف ہونا ہے۔ پہلا قانون چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 برطانوی انتظامیہ نے متعارف کروایا تھا۔ اس میں لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر 14 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال رکھی گئی تھی۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا تھا۔ مسلم عائلی قوانین آرڈیننس 1961 میں لڑکیوں کے لیے یہ عمر بڑھا کر 16 سال کر دی گئی۔ دوسرا قانون تب تک عمل میں رہا جب تک وفاقی حکومت نے 2010 میں 18ویں ترمیم منظور نہیں کر دی، جس کے بعد بچیوں کی شادی ایک صوبائی مسئلہ بن گئی۔

28 اپریل 2014ء کو سندھ اسمبلی نے کم سنی کی شادی پر پابندی کا بل اتفاق رائے سے منظور کیا۔بل کی منظوری کے بعد سندھ میں (Child Marriage Restraint Act 1929) منسوخ کردیاگیا۔نئے بل کے تحت شادی کی عمر 18 سال تجویز کی گئی ہے۔خلاف ورزی پر جرمانے اور قید کی مدت بڑھادی گئی۔پرانے قانون میں خلاف ورزی پر تین ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا تھی‘ جب کہ نئے قانون کے تحت تین سال تک قید اور 45 ہزار روپے جرمانہ ہے‘خلاف ورزی ناقابل ضمانت جرم ہوگا۔ایسی شادی کے خلاف کوئی بھی شخص فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں شکایت دائر کرسکتاہے۔اس طرح کے مقدمات میں عدالت کو سماعت اور کارروائی کرکے 90 روز کے اندر اندر فیصلہ دینے کا اختیار ہوگا۔واضح رہے کہ یہ بل 2013ء میں سندھ کی ثقافتی وزیر‘ شرمیلافاروقی اور سماجی بہبود‘ ترقی نسواں کی وزیر‘ روبینہ قائم خانی نے پیش کیاتھا۔

پنجاب نے 2015 میں قانون نافذ کیا جس میں عمروں کی حدود 1961 کے آرڈیننس والی رکھی گئیں۔ یہ قانون پولیس کو بچوں کی شادی روکنے اور مقدمہ درج کرنے کا اختیار تو دیتا ہے، مگر خود سے گرفتار نہیں کرنے دیتا۔

خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اب بھی 1929 والا قانون رائج ہے جو کہ پولیس کو مقدمہ درج کرنے تک کا بھی اختیار نہیں دیتا۔ ان میں سے کسی بھی قانون میں ایسی شادی کے فسخ کرنے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔