وضع داری، یوسفی صاحب پر ختم تھی

June 21, 2018

رضا علی عابدی

دنیا یوسفی صاحب کو ان کی بے مثال تحریروں سے یاد رکھے گی، میں خود کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرتا ہوں جنہیں ان کا قرب حاصل ہوا اور جو انہیں ان کی شفقت، رواداری، عنایت اور محبت کے سبب یاد رکھیںگے۔ لندن میں اپنے قیام کے جو دو چار بڑے فائدے یاد رہیں گے ان میں ایک یہ ہے کہ میں نے کئی برس یوسفی صاحب کے قریب رہ کر گزارے، ان کو نزدیک سے دیکھا اور ان کے مشفقانہ برتاؤ سے میں نے کیسے کیسے فیض اٹھائے ، میں ہی جانتا ہوں۔

کیسا عجب اتفاق ہے کہ آج جو ان کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو یادیں اُمڈ پڑی ہیں۔ وہ بے شمار شامیں ، وہ محفلیں، وہ احباب کی مجلسیں، وہ ساتھ بیٹھ کر موسیقی سے لطف اٹھانا، شہر کے کسی تھیٹر میں ڈرامے دیکھنا، لوگوں کے مرنے جینے میں شریک ہونا، وہ چھوٹی بڑی ادبی نشستیں، اچھے بُرے مشاعرے، وہ سب تو یاد رہیں گے لیکن جو یاد ان سے بڑھ کر ساتھ چلے گی وہ بیچ بیچ میں یوسفی صاحب کے تبصرے، فقرے اور چٹکلے وہ بھی بن مانگے۔ اس معاملے میں ذرا سے بھی بخیل نہیں تھے۔ دیر تک خاموش رہتے لیکن جو ں ہی محسوس ہوتا کہ کچھ کہنے کو ہیں، لوگ چپ سادھ لیتے کہ اب حس مزاح کا کوئی شاہکار نزول کے قریب ہے۔ کراچی میں آخری ملاقات کے دوران اپنی نقاہت کے دوران بولے۔’’صاحب لمبی عمر کا یہ فائدہ ہے کہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مرنے کے بعد لوگ کس طرح یاد کریں گے‘‘۔پھر کچھ دعاؤں کی بات چلی اور میں نے کہا کہ خدا جانے کیا بات ہے، دعائیں قبول نہیںہوتیں۔ بولے’’صاحب ، دوسروں کے لئے کی جائیں تو قبول ہو جاتی ہیں‘‘۔

یوسفی صاحب نے بہت لکھا لیکن میں جانتا ہوں کہ اس سے زیادہ پڑھا۔ حالات اور معاملات پر غضب کی نگا ہ تھی۔ بات کہنا تو دور کی بات ہے، خاموش رہ کر سوچ رہے ہوتے تھے تو صاف ظاہر ہوتا تھا کہ حکمت کے کسی گوہرکی جستجو میں ہیں۔

جستجو میں تو ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ لفظوں کی تلاش میں جیسا ہم نے انہیں منہمک دیکھا، کسی کو نہیں دیکھا۔ اوّل تو یہ کہتے ہوئے کبھی نہیں شرمائے کہ کسی مخصوص شے کانام انہیں نہیں معلوم ، دوسرے دو چار احباب خصوصاً خواتین کو فون کر کے پوچھنا کہ، مثلاً اگلے دانتوں کے درمیان جو خلا ہوتا ہے ، اسے کیا کہتے ہیں؟پھر یہ ہوتا کہ جتنے لوگ اس جستجو میں شریک ہوتے تھے انہیں ایک دلچسپ مشغلہ مل جاتا تھا۔کھکیڑ اور روکن جیسے لفظ انہوں نے یوں ہی تلاش کئے تھے۔ کبھی کبھی کہا کرتے تھے کہ اردو میری زبان نہیں۔ اپنی ہر تحریر کسی اہلِ زبان کو ضرور دکھاتے تھے۔ ان کی زیادہ تر تحریریں اشاعت سے پہلے شان الحق حقی صاحب کو دکھائی گئی تھیں۔

ان کے تجسس کا تو کیا کہنا۔ لوگوں کی باتیں اتنی توجہ سے سنتے تھے کہ جیسے یہ سوچ کر کہیں ذخیرہ کر رہے ہوں کہ یہ سارے قصے کبھی کام آئیں گے۔ کراچی میں لیاری کے محلّے کو انہوں نے یوں ہی جانا ہوگا ورنہ ان گلی کوچوں کو اتنی تفصیل سے انہوں نے کب دیکھا ہوگا کہ آبِ گم میں علاقے کو اور اس کے باشندوں کو یوں بیان کردیا جیسے عمر وہیں کہیں بسر کی ہو۔

ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تو ہمارے ہم عمر ہو جاتے اور ہر قسم کی ہنسی مذاق میں برابر کے شریک ہوتے۔ ایک دور ایسا تھا جب لندن میں مشاعروں پر مشاعرے ہونے لگے تھے۔ افتخار عارف، میں ، میری اہلیہ ماہ طلعت،ہم سب کی ہمشیرہ شاہدہ احمد اور ان کے شوہر عزیز احمد حوصلہ افزائی کے خیال سے ہر چھوٹے بڑے مشاعرے میں جاتے اور یوسفی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے۔ جب جگہ جگہ وہی پرانی بیاضوں سے پرانا کلام سنتے سنتے ہم تنگ آگئے تو میری بیوی نے کہیں یہ تجویز پیش کردی کہ ایک انجمن بنائی جائے جس کا نام ’انجمن انسداد بے رحمی بر سامعین مشاعرہ‘ رکھاجائے۔ یہ خیال یوسفی صاحب کو اتنا پسند آیا کہ پھر کئی روز اس میں خیال آرائیاں ہوتی رہیں اور اس کے منشور میں بھانت بھانت کی شقیں شامل ہوتی رہیں۔ بات پرانی ہوئی، وہ ساری پرلطف باتیں ذہن سے محو ہو چلی ہیں۔

یوسفی صاحب جو برجستہ فقرے چست کرتے تھے وہ تو ہاتھ کے ہاتھ تخلیق ہوتے لیکن جب کبھی وہ پرانے قصے سناتے تو ان کا لطف الگ ہی تھا۔ ان کا بیان کیا ہوا وہ قصّہ بھلائے نہیں بھولتا جب وہ پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئر مین تھے ۔ یہ بلاشبہ اونچا عہدہ اور مقام تھا اور کسی نے اڑا دی تھی کہ یوسفی صاحب بلا کے بد دماغ ہیں ۔ہوں گے کہ ہم نے ان کا وہ زمانہ نہیں دیکھا لیکن جب وہ لندن آئے اور ہم سب پہلے بار کہیں کھانے پر ملے تو خواتین نے کمال کیا۔ بڑی سادگی کے ساتھ یوسفی صاحب سے بولیں۔ ’ ہم نے تو سنا تھاکہ آپ بہت بددماغ ہیں، ہمیں تو آپ ذرا سے بھی چڑچڑے نہیں لگے‘۔ اس روز ہم نے پہلی بار انہیں کھل کر ہنستے دیکھا اور شاید وہ ان کی رسوائے زمانہ بد دماغی کا آخری دن تھا۔

ہاں وہ قصّے کی بات رہی جارہی ہے۔ یوسفی صاحب بینکنگ کونسل کے سربراہ تھے۔ ایک روز جوش صاحب چوتھی منزل پر ان کے دفتر جا پہنچے اور کہا کہ یوسفی صاحب ، میں ایک لڑکے کو ساتھ لایا ہوں،یہ فلاں خاتون کا بھائی ہے،اسے اپنے ادارے میں ملازمت دیجئے۔ یوسفی صاحب نے انکار کے جتنے مہذّب نسخے ہوسکتے تھے ،سارے آزمالئے لیکن جوش صاحب نہ صرف اڑے رہے بلکہ باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے کہ آپ لڑکے کوملازمت نہیں دیں گے تو میں اس کھڑکی سے کود کر جان دے دوں گا۔ اس کے آگے یوسفی صاحب اتنا کہہ کر رہ گئے کہ انہوں نے جوش صاحب کو کس مشکل سے روکا لیکن ہم یہ تصور کرکے لوٹ پوٹ ہو رہے کہ کہاں جوش صاحب کا وہ تن و توش اور کہاں چھوٹے سے قد کے دبلے پتلے ہمارے یوسفی صاحب، ان دونوںنے زور آزمائی کی ہوگی تو کیا منظر ہوگا۔

وضع داری یوسفی صاحب پر ختم تھی۔ وہ اور حقی صاحب کبھی سوٹ اور ٹائی کے بغیر گھر سے نہیں نکلے۔ یوسفی صاحب کا تو یہ عالم تھا کہ ایک بار شدید بیمار ہوئے اور ہنگامی طور پر اسپتال جانا پڑا جہاں انہیں گہری نگاہ داشت کے وارڈ میں رکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ وہاں مریض کو اسپتال کا لباس پہننا ہوتا ہے ، اس کا حلیہ سمٹا سمٹایا نہیں ہوتا اور بال بے ترتیب ہوتے ہیں۔ کئی لوگ انہیں اس حال میں بھی دیکھنے پہنچ گئے۔ وہی ہوا جو ہمیں اندیشہ تھا۔ یوسفی صاحب نے مارے مروّت کے ظاہر تو نہیں ہونے دیا لیکن انہیں ناگوار گزرا اور دوسر ے احباب کو پیغام دیاکہ جب تک وہ صحت کی بحالی کے کمرے میں نہ آجائیں، کوئی ان کی عیادت کو نہ آئے۔ اسی طرح جو لوگ اچانک اور خبر کئے بغیر ان سے ملنے پہنچ جاتے تو سخت پریشان ہوتے تھے۔ ہاں آخر آخر میں ہم نے پہلی بار انہیں کرتے شلوار میں دیکھا۔

کچھ بھی ہو، ان کی مزے مزے کی باتیں بہت یاد رہیں گی۔ خود ہی بتا رہے تھے کہ پاکستان میں کوئی نوجوان ایم فِل کر رہاتھا اور یوسفی صاحب پر اسے تحقیقی مقالہ لکھنا تھا۔ اس کا بیشتر حصہ اس نے لکھ لیا لیکن سوانح لکھنے کے لئے اس نے یوسفی صاحب کو ایک سوال نامہ بھیجا اور جواب کی درخواست کی۔یوسفی صاحب ٹھہرے بہت ہی مصروف انسان، طالب علم کے خط کا جواب نہ دے سکے۔ غرض اس نے دو چار بار خط لکھ کر یاد دہانی کرائی، یوسفی صاحب نظر انداز کر گئے۔ خود بتاتے ہیں کہ صاحب پھر جو اس کا خط آیا تو ہماری جان ہی نکل گئی۔ اس نے لکھا کہ یا تو اپنی سوانح لکھ کر بھیجئے ورنہ میں اپنی مرضی سے لکھ دوں گا۔

مجھے ان کی سادگی نے ہمیشہ بہت متاثر کیا۔ ایک بار بیگم یوسفی کچھ عرصے کے لئے انہیں گھر پر چھوڑ کر کہیں گئیں اور گھر کی دیکھ بھال یوسفی صاحب کے ذمے کرگئیں۔ یوسفی صاحب نے نہایت مستعدی سے گھر پر نگاہ رکھی۔ خود ہی بتاتے ہیں کہ کئی روز تک فلیٹ میں آراستہ پودوں کو پانی دیتے رہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ پودے اصلی نہیں، پلاسٹک کے تھے۔ خود اپنے اوپر ہنسنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔اس میں ساراکمال انسان کے ظرف کا ہوتا ہے، اور یہ ہنر ان کو خوب خوب آتا تھا۔ ان کی بعض باتیں ہم لوگ ہمیشہ دہراتے رہیں گے۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ جو کچھ لکھتا ہوں،پہلے اسے کچھ عرصے کے لئے پال میں رکھتا ہوں، پھر اسے نکال کر پڑھتا ہوں اور کسی قابل سمجھتا ہوں تو اسے آگے بڑھاتا ہوں۔

لکھ کر کاٹتے نہیں تھے۔ ایک ورق پر ایک پیراگراف لکھتے تھے، کچھ بدلنا ہو تو پورا ورق منسوخ کردیتے تھے۔ یہ تو ایک ورق کی بات ہے، یوسفی صاحب نے اپنی لکھی ہوئی پوری کتاب منسوخ کر دی۔ کم سے کم ہمیں یہی بتایاگیا۔ پہلے تو خود ان ہی نے بتایا کہ ایک ناول لکھ رہے ہیں، پھر یہ بھی بتایا کہ ناکام بینک بی سی سی آئی کے زوال کے بارے میں ہے۔ ہمیں یہ تو اندازہ تھا کہ یوسفی صاحب نے اپنا لکھا ہوا پورا ناول پال میں ڈال دیا ہے، پھر یہ خبر ملی کہ ، ان ہی کے مخصوص لہجے میں۔’’نہیں صاحب ، بات نہیں بنی‘‘۔

آج خیال آتا ہے کہ کاش بات بننے یا نہ بننے کا فیصلہ انہوں نے ہم پر چھوڑ دیا ہوتامگر جس مشتاق احمد یوسف زئی کو ہم جانتے ہیں ، اس سے یہ امید رکھنے کا خیال بھی مناسب نہیں۔ کچھ بھی ہو ہمیں تو یوں ہی لگے ہے کہ ادب کا ایک شاہکار وجود میں آتے آتے رہ گیا۔

کچھ بھی ہو، ایک بات طے ہے۔ جو کچھ یوسفی صاحب لکھ گئے ہیں،ہماری کئی نسلوں کے لئے بہت ہے۔ اپنے اگلے پڑاؤ پر جاکر اور اپنی دو چار کتابیں دکھا کر وہ ’ قبلہ‘ کے مخصوص انداز میں بڑے فخر سے کہہ سکیں گے۔’’صاحب ، یہ چھوڑ کر آئے ہیں‘‘۔