اسلام میں خدمتِ خلق کی اہمیت

June 22, 2018

نعمان عالم

’’خدمتِ خلق‘‘ کے لغوی معنی مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا ہے،صرف مالی مدد کرنا ہی خدمت خلق نہیںہے، بلکہ کسی کی عیادت کرنا،کسی کو ہنر سکھانا،کسی کو تعلیم دینا،کسی کو مفید مشورہ دینا،کسی کے دکھ دردمیںشریک ہونا،کسی کے لئے دعا کرنا،چرند پرند کے لیے خوراک کا،پانی کا ،سائے کاانتظام کر دینابھی خدمت خلق میں شمار ہوتا ہے اورخدمتِ خلق کے لئے مال خرچ کرنے والوںکوتو اللہ تعالیٰ بے حد پسند فرماتا ہے،ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتا ہےاور خرچ کرنے والے کے مال کو کئی گنا بڑھا کر واپس کرتاہے، اس سے رب تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ انسان کو ذہنی اور قلبی سکون بھی نصیب ہوتا ہےاور ہمارا دین اسلام بھی خیر خواہی ،امن و سلامتی اورانسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے، بعض علماء کے نزدیک عبادت کا خلاصہ دو چیزوںمیںہے ایک امر الٰہی کی تعظیم اور دوسرا خلق خدا پر شفقت یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں حقوق العبادپورا کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، چناںچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میںارشاد فرماتا ہے:ـ"اور اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماںباپ، قرابت داروں، یتیموں، ناداروں، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبی ہمسایوں، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میںہوں،سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔بےشک اللہ تکبر کرنے والے،بڑائی مارنے والے کو دوست نہیںرکھتا ۔ (سورۃ النسا، 36)

قرآن پاک میںایک اور جگہ اللہ تعالیٰارشاد فرماتا ہے: ” نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کو قبلہ سمجھ کران کی طرف منہ کر لو ،بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر ، فرشتوں پر ،اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، مال باوجودعزیز رکھنے کے رشتےداروں، یتیموں، محتاجوں ،مسافروںاور دست سوال دراز کرنے والوںکو دیںاور گردنوںکے چھڑانے میںخرچ کریں ، نماز پڑھیںاور زکوٰۃ دیں اور جب عہد کر لیں تو اسے پورا کریں، سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت میںثابت قدم رہیں۔یہی لوگ ہیںجو ایمان میںسچے ہیں اور یہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں ۔ (سورۃ البقرہ177)

قرآن پاک میںایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” اے نبی لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میںکس طرحکا مال خرچ کریں،کہہ دو کہ جو چاہو خرچ کرو، لیکن جو مال خرچ کرنا چاہو،وہ درجہ بہ درجہ اہل استحقاق یعنی ماںباپ کو، قریب کے رشتے داروں، یتیموں،محتاجوںاور مسافروںسب کو دو اور جو بھلائی تم کرو گے اللہ اسے جانتا ہے“۔( سورۃ البقرہ 215)

آپ ﷺ کی پوری زندگی خدمتِ خلق کا اعلیٰ نمونہ ہے، آپ ﷺ معاشرے میں خدمت خلق ، محتاجوں ومسکینوں کی دادرسی، یتیموں سے ہمدردی، پریشاں حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے رفاہی کاموں کے حوالے سے معروف تھے، چناںچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ، جس کا مفہو م ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میںمصروف رہے گا تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میںلگا رہے گا ،جو کسی کی کوئی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قیامت کی مصیبتوںمیںسے اس کی کوئی مصیبت دور کرے گا۔(صحیح بخاری و مسلم)

ایک اور جگہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے،جس کا مفہوم ہے کہ اللہ اپنے بندےکی مدد میںاس وقت تک رہتا ہے ،جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میںرہتا ہے۔(جامع ترمذی)

حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک فرمان مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے میںبیمار ہوا ، تو نے میری عیادت نہ کی،انسان حیران ہو کر کہے گا کہ اے میرے رب تو تو رب العالمین ہے، میںتیری کس طرحعیادت کرتا، پھراللہ تعالیٰ فرمائے گا ،کیا تجھے معلوم نہیںکہ میرا فلاںبندہ بیمار ہوا ، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے پاس پاتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو نے مجھے کھانا نہ دیا ، بندہ عرض کرےگا ۔ اے پروردگار ! تو تو رب العالمین ہے ۔ تجھے کس طرح کھانا کھلاتا ۔ اﷲ تعالیٰ فرمائےگا ، کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا،لیکن تو نے اسے کھانا نہ کھلایا ۔ اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کاثواب میرے یہاں پاتا،اسی طرح اللہ فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے : میںنے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہیںپلایا ، انسان کہے گا اے میرے رب ، میںتجھے کس طرح پانی پلاتا ،جب کہ تو رب العالمین ہے ۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاںبندے نے تجھ سے پانی مانگا ،مگر تو نے اسے پانی نہ پلایا کیا۔ تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا ۔(صحیح و مسلم)

قرآن پاک اور احادیث سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک خدمتِ خلق کی کتنی زیادہ اہمیت ہے ،لیکن دور حاضر میںخدمت خلق کا جذبہ بہت کم لوگوںمیںدیکھنے کو ملتا ہے۔آج کی دنیا میںہر شخص اپنی ہی خواہشات کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے، دنیا میںملنے والی نعمتوںپر کسی کا حق نہیںہوتا ،یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے، اپنی نعمتوںسے نوازتا ہے۔ ہمیںاللہ نے جن نعمتوںسے نوازا ہے، ہمیںچاہیے ہم ان نعمتوںمیںسے اللہ کی مخلوق کےلئے کچھ حصہ ضرور نکالیں، ڈاکٹر غریب مریضوںکا مفت یا کم فیس میں علاج کریں، استاد غریب بچوں کو مفت یا کم فیس میں تعلیم دیں،اگر آپ کا تعلق پولیس،عدالت یا سیاست سے ہے ، تو آپ اپنا کام ایمان داری سے کر کے خدمت خلق کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، آپ کا تعلق کسی بھی شعبےسے ہو ،اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میںخود کو مصروف رکھیں۔

آج کل ایک بات جو بہت عام ہے کہ ہم اپنی استعمال شدہ اشیاء سے کسی کی مدد کرتے ہیں، مثال کے طور پرہم کسی کو کھانا بھی دیتے ہیں تو بچا ہوا،ہم کسی کو کپڑے،جوتے، کتابیں،برتن،بستروغیرہ بھی دیتے ہیںتو استعمال شدہ، اگرہم میں خدمت خلق کا جذبہ بیدار بھی ہوتا ہے تو عمر کے آخری حصے میںپہنچ کربلا شبہ ایسا کرنا کسی کی مدد نہ کرنے سے تو بہتر ہے مگر ہمیںاپنی جوانی میںخدمت خلق کے لئے وقت نکالنا چاہیے ،ہمیںکھانا کھانے سے پہلے پڑوسی یاکسی غریب کو دینے کے لئے علیحدہ کرنا چاہیے،ہمیںنئے کپڑے خریدتے وقت کسی غریب کے لئے کپڑے خریدنے چاہییں۔چناںچہ آپ ﷺکا ارشاد ہے،تم میں کوئی مومن کامل نہیںہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔( صحیح بخاری ) جب تک ہم اپنی پسندیدہ چیز خدمت خلق کے لئے خرچ نہیںکریںگے، تب تک ہم اس کا اصل مزا نہیںچکھ سکتے اور اللہ پاک نعمتوںکو بانٹنے سے بڑھاتا ہے ،کم کبھی نہیں کرتا تو ہمیںاللہ پاک کی رضا کی خاطر مخلوق خدا کی مدد کے لئے ہر وقت کوشاںرہنا چاہیے۔