مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں

June 22, 2018

تحریر:مفتی عبدالمجید ندیم…برمنگھم
مقبوضہ کشمیر میں 1989سے اب تک ایک لا کھ سے زیادہ افراد انتہا ئی بے دردی کے ساتھ شہید کیے جا چکے ہیں جب کہ دس ہزار کشمیری لا پتہ ہیں۔یہ اعداد وشمار کل جما عتی حریت کا نفرنس کی طرف سے جا ری کیے گئے ہیں۔ان اعداد و شمار کے مطابق 143048افراد کو انتہا ئی بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنا یا گیا جس کے نتیجے میں ان کی اکثریت زندگی بھر معذوری کا شکا ر ہو چکی ہے ۔108596سے زائد مکانات اور دکانیں جلا کر خاکستر کر دی گئی ہیں۔سات ہزار بے نام قبروں کا انکشاف اس قدر اندوہناک ہے کہ معلوم ہی نہیں کہ ان قبروں میں کون دفن ہے ۔22862خواتین بیوہ اور 107676بچے یتیم ہو چکے ہیں ۔اس صورتِ حال کا سب سے زیا دہ خوفنا ک پہلو سات ہزار سے زیادہ نیم بیوائیں ہیں جن کے شوہر لمبے عرصے سے غائب کر دیے گئے ہیں جن کے با رے میں کچھ معلو م نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا شہید کر دیے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطا بق وادی کی دس لاکھ کنا ل اراضی پر بھارتی فوج ناجائز طور پر قابض ہے۔رمضان المبا رک کا پورا مہینہ اس انداز سے گذرا کہ لوگوں کو نمازِ تراویح تک ادا کرنے میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔سحری اور افطاری کے وقت بھی بھارت کی درندہ صفت فوج کے ظلم کا سلسلہ جا ری و ساری رہا یہاں تک کے عید کے دن بھی ہر طرف خوف کے سائے کشمیریوں کو عید کی خوشیوں سے محروم کیے رہے۔یہ ایسے تلخ حقائق ہیں جن سے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور ساری مہذب دنیا آگاہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صورتِ حال اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین اور نا گفتہ بہ ہے اور ہر آنے والا دن اس صورتِ حال کو مزید ابتر بنا رہا ہے ۔ ساری دنیا جا نتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں پر جنگل کا قانون نافذ ہے جہاں شہید ہو نے والوں ،ٹارچر سیلوں میں بند کیے جا نے والوں ،اپاہج ہو نے والوں اور تباہی کے گھاٹ اتر جا نے والوں کا کو ئی درست ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔ظلم اور ستم کی اس داستان کا سب سے خو فناک منظر یہ ہے کہ حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں ،اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بھارت کے اپنے دانشوروں کی چیخ و پکار کے باوجود بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور ہر آنے والا دن اپنی خون آشامی میں اضافہ کر رہا ہے ۔کچھ عرصہ قبل بھی امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ آچکی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ بد نا م ِ زما نہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت غیر قانونی طور پر نظر بند کیے گئے کشمیریوں کو نہ تو وکلا ء تک رسائی دی جا تی ہے اور نہ ہی انہیں طبی سہولتیں میسر ہیں۔ صرف سات سال کے عرصے میں چھ سو کشمیری رہنماؤں کو اس کالے قانون کے تحت انسانیت سوز سزائیں دی گئیں لیکن بھارت کو پو چھنے والا کو ئی بھی نہیں ہے ۔چند سال قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا جب اس با ت کا انکشاف ہوا تھا کہ بھارت کی درندہ صفت فوج نے ہزاروں کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد اجتما عی قبروں کے سپرد کر دیا ہے ۔اسی انکشاف کے نتیجے میں ورلڈ ٹریڈ آرگنا ئزیشن نے بھارت پر پا بندی لگا دی تھی کہ وہ یورپی ممالک کے ساتھ چھ ماہ تک تجارت نہیں کر سکتا ۔ان تمام حقائق کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر لگاتار اصرار کر رہا ہے اور اس کی تشدد کی پا لیسی میں ذرا برابر بھی کمی واقع نہیں ہو رہی ۔اس ساری صورتِ حال کا ایک انتہائی اندوہنا ک پہلو یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر تعینات ساڑھے سات لا کھ فوجیوں کو اس قدر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کسی بھی عام شہری کو وجہ بتا ئے بغیرگرفتار کر سکتے ہیں ،اسے تشدد کر کے قتل کر سکتے ہیں یا اسے دہشت گرد قرار دے کر جب چا ہیں گولی سے اڑا سکتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ انہیں کو ئی بھی پو چھنے والا نہیں ہے ۔ حکومتی سطح پر ایسا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے کہ اس طرح کے مظالم کے مرتکب فوجیوں کو جوابدہ بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوجیوں کی درندگی میں روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھا رتی حکومت سے مطا لبہ کیا ہے کہ وہ فورسز کو جوا بدہ بنا ئے اور افسپا کے کا لے قانون کو فوری طور پر واپس لے جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی خوبصورت وادی مو ت کی آماجگاہ بن چکی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی ان افسوس ناک اور المناک خلاف ورزیوں کی ان ساری تفصیلات کو جا ننے کے بعد ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ سب سے پہلے حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حقائق کی روشنی میں حقوقِ انسانی کی ان شدید پامالیوں کو عالمی سطح پر اٹھائے ۔اس لیے کہ بھارت کے مظالم کی یہ داستانیں حقوقِ انسانی کی سب سے مستند عالمی شہرت یافتہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل بارہا پیش کر چکی ہے جن کے مطا بق بھارت نے خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بارہا عا لمی فورمز پر تسلیم کیا ہے ۔یہی وہ موقع ہے جسے استعمال کرتے ہو ئے پاکستان بھارت کا اصل چہرہ اقوامِ عالم کے سامنے لا سکتا ہے اور ثابت کر سکتا ہے کہ بھا رت اس صدی کا سب سے بڑا جارح ہے جس کے ہاتھ لا کھوں بے گنا ہ افراد کے خون سے رنگے ہو ئے ہیں ،جس نے اپنے درندہ صفت فوجیوں کو قتلِ عام کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو خواتین کی اجتماعی آبروریزی اور معصوم بچوں کے قتلِ عام جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہے ۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو چا ہیے کہ وہ اس حوالے سے خصوصی اقدامات کرے اور اپنے سفارت کاروں کو ہدایات جا ری کرے کہ وہ حقائق سے لبریز ان رپورٹس کو عالمی برادری کے تمام فورمز پر پیش کریں ۔اس وقت پاکستان میں الیکشن کا دور دورہ ہے۔ تما م سیاسی جما عتیں اپنے اپنے منشور کو لے کر عوام کے سامنے آ رہی ہیں ایسے میں عوام کا فرض ہے کہ وہ تمام جماعتوں سے سوال کریں کہ وہ منتخب ہو نے کی صورت میں کشمیر کی آزادی کے لیے کو ن سے عملی اقدامات کریں گے۔ آزاد کشمیرکی حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ بے حسی کے بیس کیمپ سے باہر نکل کر حقوقِ انسانی کی پامالیوں کی ان رپورٹوں کے مندرجات کو میڈیا کے ذریعے عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے وفود تشکیل دے جن میں آزاد کشمیر کی تمام جما عتوں کے نمائندے شامل ہوں جو اس مسئلے کو بین الا قوامی برادری کے سامنے پیش کر کے کشمیریوں کی پشتی بانی کا حق ادا کریں۔ برطا نیہ اور یورپ میں بہت سی تنظیمیں اور افراد کشمیر کاز کے لیے بہت ہی اچھا کا م کر رہے ہیں لیکن وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہو جا ئیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ حقوقِ انسانی کی ان پامالیوں پر آواز اٹھائیں اور یو این او کی حقوقِ انسانی کی تنظیم کے تحت شائع ہو نے والے حقائق کو اپنے ایم پیز ، ہاؤس آف لارڈز کے ممبران، کونسلرز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور برطانوی میڈیا کے سامنے پیش کریں اور ان سے مطا لبہ کریں کہ ظلم اور جبر کے اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔