Thank you love birds

November 05, 2012

زندگی کے مختلف ادوار میں کچھ غلط فہمیاں دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور کچھ کا ازالہ ہوتا رہتا ہے۔ دو غلط فہمیاں جو عموماً پائی جاتی ہیں لیکن میں کبھی ان میں مبتلا نہیں ہوا، وہ نئی نسل کے حوالے سے ہیں۔ ایک یہ کہ انٹرنیٹ کی تفریحات اور ٹی وی چینلز کی بے سمتی نے نوجوانوں کو اپنے علمی ، ادبی اور ثقافتی ورثے سے محروم کردیا ہے، ان کی دلچسپیوں کا محور اب معیار سے گری ہوئی سرگرمیاں ہیں۔ دوسری غلط فہمی یہ کہ نوجوان بے حس ہوگئے ہیں اور یوں ملک و قوم کو درپیش مسائل ان کا مسئلہ ہی نہیں ہیں، جن دوستوں نے الحمرا ء آرٹس کونسل لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ تین روز ہ علمی ادبی اور ثقافتی کانفرنس کے مختلف سیشنز میں شرکت کی ان کی پہلی غلط فہمی تو ہر سیشن میں ہاؤس فل دیکھ کر ہی دور ہوگئی ہوگی اور رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی ہوگی جب انتہائی سنجیدہ اور دقیق موضعات پر بحث کے دوران انہوں نے سامعین کا انہماک دیکھا ہوگا اور جہاں تک دوسری غلط فہمی کا تعلق ہے وہ بھی اتنی ہی بے بنیاد ہے جتنی بے بنیاد پہلی غط فہمی ہے۔ پوری دنیا میں نوجوان نسل کی بڑی تعداد ہلے گلے میں مگن رہتی ہے لیکن انہی میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کی حساسیت مایوسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتی ۔ہمارا نوجوان خوش قسمتی سے دوسرے ملکوں کے نوجوانوں کی نسبت بہت بڑی تعداد میں اپنے ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچتا ہے اور بہت خوبصورتی سے اس کا اظہار کرتا ہے۔
گزشتہ روز نوشی گیلانی اور سعید خاں مجھے ملنے میرے دفتر آئے تو اس خوبصورت جوڑے کے ہاتھوں میں دو شعری مجموعے تھے۔ نوشی گیلانی کے تازہ مجموعے کا نام”ہوا چپکے سے کہتی ہے“ اور سعید خاں کے مجموعے کا نام”صحرا کا گلاب“ تھا، اگر کسی کو ان پرامید باتوں کا ابھی تک یقین نہ آیا ہو جو میں نے ابھی بیان کی ہیں تو وہ یہ شعری مجموعے ضرور پڑھے امید ہے اس کی تسلی ہوجائے گی اور وہ جان جائے گا کہ بارود بھری فضاؤں میں امن اور محبت کے چراغ روشن کرنے والی یہ نسل اپنے فریضے سے غافل نہیں ہوئی، نوشی گیلانی کو تو میں بہت عرصے سے جانتا ہوں ہم نے بیسیوں مشاعرے اکٹھے پڑھے ہیں۔ اس کی شاعری کا ایک زمانہ مداح ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پروین شاکر کے بعد جو مقبولیت نوشی گیلانی کو نصیب ہوئی وہ بہت کم دوسروں کے حصے میں آئی۔ اس کا دل اس کے خوابوں سے روشن ہے اور یوں اس کی شخصیت میں مایوسی کے اندھیروں کا گزر نہیں، اس نے اپنے شعری مجموعے کا نام بھی اپنے اس مصرعے سے لیا ہے۔
ہوا چپکے سے کہتی ہے ابھی اک خواب زندہ ہے
اور یہ خواب صرف اس کے سینے میں نہیں بلکہ اس کی پوری نسل کے سینے میں زندہ ہے۔
اور جہاں تک اس کے شوہر نامدار سعید خاں کا تعلق ہے سچی بات یہ ہے کہ مجھے اسے پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا اس سے میری یہ ملاقات بھی دوسری یا تیسری تھی لیکن اس نے مجھے اپنا شعری مجموعہ دے کر ساری کسریں نکال دیں کہ اس کی وساطت سے اس کی شاعری اور شخصیت کی اجنبیت بے انتہا قربت میں تبدیل ہوگئی۔ بہت سے لوگوں کی یہ غلط فہمی تو اس نے فورا دور کردی کہ ان کے بعد کی نسل قومی مسائل سے بیگانہ ہے اور ان میں سے کوئی مال مست ہے اور کوئی حال مست ہے۔ سعید خاں کی ساری شاعری اس بدگمانی کی نفی کرتی نظر آتی ہے۔
جاگے ہیں میرے درد، ہوا پھر آئی ہے
جاناں کی گلی سے سرد ہوا پھر آئی ہے
کیا مسجد کیا بازار، لہو کا موسم ہے
کس قریہ سے بے درد ہوا پھر آئی ہے
صرف یہی نہیں بلکہ سعید خاں نے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اس شرانگیز غلط فہمی کا ازالہ بھی کردیا ہے جس کے مطابق بیوی سے محبت نہیں کی جاسکتی۔ خود میں نے بھی ایک دفعہ یہ جملہ لکھا تھا کہ اپنی بیوی سے رومانی گفتگو کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ایسے مقام پر خارش کی جائے جہاں خارش نہ ہورہی ہو، مگر سعید خاں کے متذکرہ شعری مجموعے میں تو اپنی بیوی نوشی گیلانی سے محبت ہی محبت نظر آتی ہے بلکہ اس کے تو مجموعے کا نام ہی”صحرا کا گلاب“ ہے کہ نوشی کا تعلق چولستان کے صحرا سے ہے، اگر آپ کو میری بات کا ابھی یقین نہیں آیا تو اس کی ایک غزل کے یہ دو اشعار سن لیں۔
کھل جائے موسم کی رنگت، جاگ ا ٹھے ماحول ذرا
روپ نگر کی رانی ا پنا روشن چہرا کھول ذرا
وہ صحرا کی سب سے موہنی مورت کب آسان سعید
عشق میں کچھ دن اور ابھی خود کو روہی میں رول ذرا
اسی حوالے سے دو شعر اور بھی ملاحظہ کریں۔
میں کب سے بوجھ رہا تھا پہیلیاں اس کی
کھلیں تو رشک حنا تھیں ہتھیلیاں اس کی
ہمیں بھی محفل یاراں سے اس نے چھین لیا
اسے بھی ڈھونڈ رہی ہیں سہیلیاں اس کی
نوشی گیلانی!تم بہت خوش قسمت ہو، مگر ایک مہربانی کرنا اور وہ یہ کہ سعید کا یہ شعری مجموعہ اپنی کسی ایسی سہیلی کو نہ پڑھنے دینا جس کا شوہر شاعر ہو، ورنہ اس بے چارے شاعر کو بیوی کے طعنے سن سن کر یا خودکشی کرنا پڑے گی یا اس پر غزلیں کہنا پڑیں گی۔ میرے خیال میں وہ خود کشی کرے گا۔
اور اب آخر میں ایک اور سچی بات ،میں پہلے ہی یہ بات کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ میں نقاد نہیں ہوں ایک شریف آدمی ہوں، یہی وجہ ہے کہ میں نے نوشی اور سعید کے کلام میں سے طبیعاتی ،حسیاتی، استعماراتی ،محاکاتی اور کیفیاتی پہلو تلاش نہیں کئے کیونکہ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے مجھے آسودگی کی کیفیت محسوس ہوئی۔ مجھے ان کے ہاں سے لطف سخن کی دولت ملی اور میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ یہ شاعری میرے حالات سے بے گانہ نہیں ہے، یہ میرے عہد کی شاعری ہے۔ یہ میری شاعری ہے، میری وہ شاعری جو میں کرنا چاہتا تھا مگر بے ہنری کی وجہ سے کرنہ سکا۔ تھینک یو نوشی گیلانی، تھینک یو سعید خاں۔
اور اب چلتے چلتے ہم سب کے محبوب شاعر ظفر اقبال کی ایک تازہ غزل ہی سنتے جائیں۔
کنار خواب گرانبار پر رکا ہوا ہوں
کسی رکی ہوئی رفتار پر رکا ہوا ہوں
مرے خلاف جو سازش ہے، بے خبر اس سے
میں اہل شہر کے اصرار پر رکا ہوا ہوں
کٹے گا کیا سفر اتنے بڑے خرابے کا
ابھی تو اپنے ہی آثار پر رکا ہوا ہوں
پہنچ گئے ہیں کہاں سے کہاں تک اہل وفا
میں آج بھی ترے انکار پر رکا ہوا ہوں
کہ احترام سے لوٹا سکوں یہ خلعت خاص
اسی لئے ترے دربار پر رکا ہوا ہوں
دکاندار دکانیں بڑھا گئے، اور میں
امید گرمی بازار پر رکا ہوا ہوں
میں جارہا تھا کہیں اور پھوڑ کر آنکھیں
کسی کے وعدہ دیدار پر رکا ہوا ہوں
کسی کی چھاؤں ہوں، چھایا ہوا ہوں دشت بددشت
کسی کی دھوپ ہوں، دیوار پر رکا ہوا ہوں
سبک سری کا ہی ایک اعتراف ہے یہ ظفر
جو ابر سا کسی کہسار پر رکا ہوا ہوں
ظفر اقبال