ترکی کا سلطان

June 27, 2018

ریاست پاکستان میں، جس کے پاس جتنے اختیارات، بے رحمی سے استعمال میں ۔ مملکت سہار پائے گی،قرائن ،مملکت اپنی تاریخ کے دوسرے بڑے بحران میں داخل ہوا چاہتی ہے۔

دسمبر 1997 میں ابھرتا سیاستدان طیب اردوان لاکھوں کے مجمع کے سامنے ایک نظم پڑھ رہا تھا،مجمع وفور جذبات اور کثرت ارتعاش سے حالت وجد و جنون میں تھا۔ نظم کے الفاظ سوشل میڈیا پر وائرل، آج کے اردوان کا بیانیہ سمجھیں۔’’مساجد ہماری چھاؤنیاں ہیں، مسجدوں کے گنبد ہمارے ہیلمٹ،مینار ہماری سنگینیں اور اہل ایمان نمازی ہماری فوج ، جنگ ہم ہی جیتیں گے‘‘ ،اردوان جنگ جیت چکا۔
نظم پر 1999 ء میں چار ماہ جیل کاٹی،تاحیات سیاسی پابندی لگی جو 2003ء میں پارلیمنٹ نے ختم کی اور وزیر اعظم بننے کا راستہ ہموار ہوا۔ صدر طیب اردوان کی فتح ، میرازندگی کا بہترین دن ہے ۔ ترکی کا صدیوں پر محیط شاندار ماضی،خلافت عثمانیہ کی میراث روایت پوری طرح انگڑائی لے چکی۔ اردوان کے 16 سالہ اقتدار کی یہ پہلی فتح نہیں ، خصوصیت اتنی کہ ’’ بین الاقوامی خلائی مخلوق‘‘ اپنی گرفت اور نرغہ تنگ کرنے پرنبرد آزما، پچھلے دس سالوں سے ہر داؤ پیچ آزما رہی ہے۔ تعجب نہیں ہوا، صدر پیوٹن نے لمحہ ضائع کیے بغیر راتوں رات صدر اردوان کے منتخب ہونے پر روشن امید کے ساتھ پیغام بھیجا،’’یہ فتح نہ صرف آپ کی عظیم سیاسی مہارت وخودمختاری کی مظہر ہے،ترک عوام میں آپکی مقبولیت کی توثیق ہے‘‘۔نئی دنیا وجود میںآنے کو ،چین ،روس، ترکی ،ایران اور پاکستان حقیقی پارٹنر ۔جب سے اردوان خطے میںمتحرک، بھرپوراقدامات رنگ جما نے کو،امریکہ اور حواریوں نے صدر اردوان پر لگایا سرخ نشان مزید گہراکر دیا ۔ صدر اردوان کاتصور الواحد اسلامیہ یا خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کا اجرا ہی۔پرعزم ، باہمت صدر اردوان بغیر حوصلہ ہارے ،بغیر بلند بانگ دعوے، یکسو، ملت اسلامیہ اور خطے کے لئے واضح لائحہ عمل اور وژن سمیت دھڑلے سے ’’ شہادت گہہ الفت ‘‘ میںقدم جمائے ہے۔پچھلے دس سالوں میں فوجی بغاوت،سازشِ قتل،کرپشن کے میگاا سکینڈل کیا کیا بُنتی نہ رہی، سب کچھ بیت چکے۔کچھ سال پہلے ترکی کے چند ممبران پارلیمنٹ پاکستان تشریف لائے، یہ لوگ فتح اللہ گولن کی حزمت موومنٹ کے ممبران اور اردوان کی AKP پارٹی کے کولیشن پارٹنر رہ چکے،ان میںایک صاحب وزیر بھی ۔پاکستان کے چوٹی کے دانشوروں کے اجتماع سے خطاب فرمایا’’ اردوان نے چند سالوں میں 107 بلین (BILLION) ڈالر چوری کیے ۔صدر اردوان کے بیٹے پر انواع واقسام کے الزام لگائے۔ ایران ( جو اس وقت بین الاقوامی تجارتی پابندیوں میں جکڑا تھا) سے غیر قانونی روزانہ لاکھوں بیرل تیل کی اسمگلنگ ، کئی آف شور کمپنیوں کا مالک ، کئی محلات کی تعمیر اوربیرونی ممالک سرمایہ کی منتقلی جیسے جرائم میں ملوث ہے‘‘۔کل جب صدر اردوان کے5کروڑ80ہزار ڈالر کے اثاثے سامنے آئے ،ترکی کا امیر ترین سیاستدان کہلایا۔مخالفین نے ترت کہاکہ’’
ایک معمولی ’’کوسٹ گارڈ‘‘ کا بیٹا طیب اردوان، جس کا بچپن سڑک کنارے ڈبل روٹی کے بن اور سکنجبین بیچتے کٹا، امیر ترین سیاستدان کیسے بن گیا؟‘‘۔ برطانوی اخبار ڈیلی میلز،گارڈین ٹائمز، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز،و اشنگٹن پوسٹ، جرمن اخبار فرینکفرٹراالجمین ژی ٹنگ Allgemeine Zeitung فرانسیسی اخبارi Le Mond،LE Figaroارا مغربی میڈیا ایک تسلسل اور عرصے سے اردوان کی کرپشن ، بادشاہت،طرزِ حکمرانی ، سیکولر ریاست کو اسلامی ریاست بنانے بارے معاندانہ پروپیگنڈہ میں رطب اللسان ہے۔2016ء میں فوجی بغاوت جیسی خوفناک سازش ایسی کہ F-16 کی بمباری سمیت ٹینک ،توپ خانے سارے سڑکوں پر نکل آئے،بھلا جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ عوام نے اپنی ہی مسلح افواج کو شکست فاش دی۔ پچھلے سال ناکامی بغاوت کی پہلی سالگرہ تقریب ATTEND کرنے انقرہ پہنچا تو بنفس نفیس بمباری سے تباہ حال پارلیمنٹ بلڈنگ اور کئی دوسری عمارات دیکھیں ۔ سب کچھ مرد آہن کا کچھ نہ بگاڑ پائے،ہر بار عزم،استقلال، یقین، ایمان کئی گنابڑھ گیا۔صدر اردوان سے رغبت ،اُنس شدید، میری امیدوں کا محور، جوں جوں شخصیت کی جانچ پڑتال کی، تہہ تک پہنچا توں توںشخصیت کا رعب دبدبہ، بڑا پن راسخ و پختہ ہوا۔اپنے کالموں میں کئی سال پہلے کئی دفعہ لکھ چکا ہوں، چین کے صدرشیجن پنگ، روس کے صدر پیوٹن او رترکی کے صدراردوان بالترتیب ماوزے تنگ، لینن اور کمال اتاترک سے کہیں بڑے مدبر ،سیاسی نابغے و رہنما ہیں ۔ دیوانے کی بڑ سمجھی گئی ، سمجھدار دانشوروں کے مذاق طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنا۔معلوم تھا کہ پاکستانی دانشوروں کا بین الاقوامی وژن ناقص و نامکمل، ہنس دیا مسکرا دیا۔ قدرت کی اپنی تدبیریںو ترکیبیں، کتاب حکمت کی یہی رہنمائی، فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو پالا پوسا اور بالآخر موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں غرقاب ہوا۔بعینہٖ، حیرانی نہ رہے، کہ بچپن سے مذہبی روایتی تربیت یافتہ طیب اردوان ، بھرپور جوانی میں امریکی CIAکا معاون و منظور نظر رہا ۔بیک وقت استاد نجم الدین اربکان کی سیاسی رہنمائی میں اسلامی جماعت و سیاسی نظریہ سے منسلک و مستعدداور ساتھ ہی امریکہ CIA کا معاون و مدد گار بھی۔ گولن کی رفاقت میں CIA کا ہمنوا خوب پینگیں بڑھائیں۔ سرسری تذکرہ ضروری،1953ء میں امریکی CIA نے انتہا پسند یہودیوں کے ساتھ مل کر ایک آپریشن GLADIOوسطی ایشیائی اسلامی ممالک جو روس کے تسلط میں جا چکے تھے کے لئے ترتیب دیا۔ تھیم اتنا کہ
ــ" Use Islam To Get What You Want"۔اسی موٹو کے تحت افغان جہاد ترتیب دیا لڑا گیا۔ روس کے حصے بخرے ہونے پر جب کئی اسلامی ریاستیں وجود میں آئیں تو نیا آپریشنGLADIO B وجود میں آیا۔آپریشن GLADIO B پر خطیر سرمایہ کاری ہوئی، بیشتر رقوم افغانستان سے اسمگل منشیات ذریعہ حاصل کی گئیں۔25ملین ڈالر کی ابتدائی خطیر رقم کے ساتھ فتح اللہ گولن کو سینٹرل ایشیائی ممالک اور ترکی میں تعلیمی ادارے،رفاہی کام ،ہوسٹل وغیرہ کا جال بچھانے پر متحرک رکھا۔طیب اردوان بیک وقت ایک طرف استنبول کی بلدیاتی سیاست میں مذہبی رنگ گھولتے ویلفیئر پارٹی کی سیاسی ساکھ بنا رہے تھے دوسری طرف آپریشن GLADIO B میں گولن کا ہاتھ بٹا کر CIA سے دھڑا دھڑعزت و تکریم وصول کر رہے تھے۔حاصل ِ مطالعہ و مشاہدہ اتنا کہ اردوان، چابکدستی،سیاسی مہارت سےCIA کو جھانسہ نہ دیتے تو کسی طور وزیر اعظم کے زینے قریب نہ پھٹک پاتے ۔
امریکی بد قسمتی کہ صدر پیوٹن کو بھی اپنے عروج کے لئے ایسے ہی جھانسے دینے پڑے،CIA پیوٹن کو سالوں امریکہ دوست سمجھتی رہی۔جب تک اردوان اور پیوٹن بارےCIA کو حتمی اندازہ ہوا،بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب امریکہ دونوں کی جان کے در پے ، دونوں اپنے ملکوں کو امریکہ سے محفوظ رکھنے پر تن من لگا چکے۔ 2014ء میں برادرم حسن نثار کی صحبت میں ترکی کا دورہ کیا۔ دورے کا اہتمام گولن موومنٹ کے دوستوں نے کیا۔ ایک روز ایسا بھی ،استنبول کی بڑی یونیورسٹی میں گولن موومنٹ کے تھنک ٹینک کے ساتھ لمبی میٹنگ رہی۔ دوران گفتگو،نامی گرامی ترک دانشور سے سوال،آپ ترکی میں CIAکو کتنا مضبوط و موجود پاتے ہیں؟ دانشور کا جواب ’’ مسٹر نیازی !جب میں صبح سویرے اپنے غسل خانے میں جاتا ہوں تو اپنے غسل خانے میں CIA کو موجود پاتا ہوں ‘‘۔یعنی ، ترکی میں CIA ہر کونے کھدرے میں موجود ہے۔ایسے نامساعد حالات میں اردوان کا امریکہ اور یورپ سے ٹکر لینا ،اپنے بیانیے کو آگے بڑھانا،گھمبیر الزامات سے بے پروا،ڈنکے کی چوٹ پر بین الاقوامی خلائی مخلوق سے ٹکر لینا ، تاریخ کامعمولی واقعہ نہیں۔صدر اردوان سازشوں ،مہروں میں گھری امت مسلمہ میں امید کی واحد کرن ہے۔ اردوان کی جیت آج امت مسلمہ کی جیت ہی،ہم سب سرشار،ہماری امیدیں ساتویں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔گڈلک اردوان ،خدا تمہارا حامی و ناصر ہو ۔
مانا کہ نواز شریف کی راجہ بھون سے مماثلت ممکن نہیں ۔مقامی خلائی مخلوق کا 4 سال سے نواز شریف پر پِل پڑنا، الزامات کی نوعیت من و عن ایک جیسی ہی۔ایک اور مماثلت بھی،نواز شریف کے چاہنے ماننے والے بہ طرز اردوان کے چاہنے ماننے والے، سوشل میڈیا، قومی میڈیا ٹرائل، اداراتی سازشوں،خلائی مخلوق کے تسلط سے بے پروا نواز شریف کے حق میںڈٹ چکے ۔نتائج کیا نکلیں گے،25جوالائی بہت کچھ ثبت کرنے کو ۔نواز شریف کے حامی پرجوش،25مئی کو مہاتیر کی واپسی، 25 جون کو اردوان کی واپسی کا مطلب25جولائی نواز شریف کے لئے نیک شگون ہے۔ میرا ڈر،25جولائی تاریخی سیاسی عدم استحکام دینے کو۔بعدازاں امریکہ کے لئے اثر انداز رہنا،پنجوں میں جکڑنا آسان رہنا ہے۔بدقسمتی امریکا کا توڑ صرف اردوان ہم محروم ۔
شذرہ 1: دو دن پہلے برادرم پرویز رشید کا نجی ٹی وی پر انٹرویو دیکھا۔ عزیز دوست سینہ تان کر فرما رہے تھے کہ’’ موجودہ لیگ جس پر ضیاء دور میں مودودی کی چھاپ لگ چکی تھی،بنفس نفیس نکال کرلایا ہوں ۔ قائد اعظم کی مسلم لیگ بنایا ہے‘‘۔یعنی کہ قائد اعظم کی نظریاتی مسلم لیگ ، پرویز رشید نے بنانا تھی یا بنائی، الامان الحفیظ۔ دو باتیں، ایسا دعویٰ جہالت یا بدنیتی؟ میرا خیال ہے دونوں کا حسین امتزاج ۔بھلاتاریخی دروغ گوئی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ برادرم حقائق کی درستی، ن لیگ پر نہ تومولانا مودودی کی چھاپ تھی اور نہ ہی آج کی ن لیگ عظیم قائد کی مسلم لیگ کے سائے کی بھی ہم پلہ۔ موازنہ گناہ کبیرہ ، توبہ کریں ۔مانا کہ نواز شریف کا موجودہ بیانیہ تاریخ کابہترین پڑاؤ ہے، یاوہ گوئی کے لئے پھر بھی کوئی گنجائش نہیں۔
شذرہ 2: عمران خان نے میانوالی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو ہاکی اسٹیڈیم میانوالی میں چند ہزار بکھرے عوام سامنے بے دلی سے تقریر سنتے پائے گئے۔مخالفین کے خلاف دشنام طرازی الزام تراشی کرنی بنتی تھی کہKP میںاپنا دفترکارکردگی اعمال سے خالی تقریر کا اور کیا مواد رہتا۔ جلسے کی بے رونقی،پوری مہم کی سمت کا تعین کر گئی۔ نہ صرف اپنا چہرہ بلکہ دائیں بائیں کھڑے میانوالی سے سارے قومی رہنماؤں کے چہرے مرجھائے نظر آئے ۔ جلسہ آنے والے دنوں میں ملک کی انتخابی مہم کا ڈھنگ رقم کر گئے ۔مجھے یقین ہے کہ ٹکٹوں کی بلیک مارکیٹنگ نے ہر حلقے میں تحریک انصاف بانی مبانیوں کو نالاں کر رکھا ہے۔عمران خان جس حلقے میں بھی جائیں گے، کارکنان کے بائیکاٹ یا احتجاج کا سامنا رہے گا۔ حامد خان جیسے نامی گرامی مستحکم رہنماکو ٹکٹ نہ دینا،مستزاد چوہدری فوادجیسے خانہ بدوش سے حامد خان پر رکیک حملے کروانا،تفنن بھی تعفن بھی۔ فواد چوہدری اپنے آپ کو پرانا رہنما،فاؤنڈر ممبر (ہاہاہاہا) بتاتے شرمائے نہیں۔ یادش بخیر نومبر 2012ء میں فواد چوہدری تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے چند سفارشیوں ساتھ عمران خان کو ملنے دبئی جا پہنچے ۔منہ بسورتے روتے دھوتے واپسی ہوئی کہ عمران خان نے بری ساکھ بنا شامل کرنے سے انکار کر دیا۔اللہ تیری شان آج بابر اعوان،فواد چوہدری،عامر لیاقت حسین وغیرہ وغیرہ تحریک انصاف کو سنبھال چکے، تحریک انصاف کا اللہ ہی حافظ ۔پیارے پاکستان ابھی کچھ نہیں، بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)