ایک ذراصبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

November 06, 2012

کیا کیا خواب نہیں دیکھے تھے ہم نے۔ ہم ہی نے کیا‘ پوری دنیا یہ تصور کئے بیٹھی تھی کہ اکیسویں صدی ایک بہت خوبصورت صدی ہو گی۔ دنیا میں امن‘ آزادی کے اصولوں کا بول بالا ہو گا اور خوشحالی کا راج ہوگا۔ بیسویں صدی میں انسان نے بڑی جدوجہد کی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ تاریخ کی ہولناک ترین جنگیں لڑی گئی ہیں۔ اب انسان کو یقین ہو چلا تھا کہ ان جھگڑوں میں کچھ نہیں رکھا‘ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تو دنیا یہ سوچ رہی تھی کہ ہم تاریخ کی اس معراج پر ہیں جب گویا تاریخ کا اختتام ہو چکا ہے۔ آزاد معیشت اور جمہوری اقدار کا امتزاج اس قدر دلفریب اور خوشنما ہے کہ لگتا تھا کہ انسان اپنے لئے ایک بڑا پُرامن‘ آزاد اور خوشحال راستہ منتخب کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔افسوس یہ خواب صدی کے آغاز ہی میں بکھرتے دکھائی دیئے جب نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا اور دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بھنور میں جا پھنسی۔ ادھر پاکستان میں ہمارا خیال تھا کہ ہمارے خراب دن اب گزر چکے ہیں‘دنیا میں اس تبدیلی کا ثمر ہمیں بھی ملا تھا۔ اگرچہ بیسویں صدی کے اختتام پر ہماری جمہوریت کو ایک بار پھر پٹڑی سے اتارا گیا تاہم ہمیں یقین تھا کہ آنے والے خوبصورت دنوں کے اثرات ہم پر بھی پڑیں گے۔ اب فوجی آمریتوں کا زمانہ دنیا سے رخصت ہو چکا،ہم بھی آزادی کی نعمتوں سے مالا مال ہوں گے۔ ہمارے ہاں بھی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا احترام کرنا ناگزیر ہو جائے گا۔ آزاد معیشت ہمیں بھی ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے آگے لے جائے گی۔ ہمارے عوام کے دن بھی پلٹیں گے۔ ہمارے یہ خواب بھی دہشت گردی کی جنگ کے بعد بکھرتے دکھائی دیئے۔ دنیا کے کسی ملک پر اس کے منفی اثرات اگرسب سے زیادہ پڑے ہیں تو یہ عراق اور افغانستان کے بعد پاکستان ہے۔ ہمیں یہ بھی توقع تھی کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہوں گی۔ اپنے دیرینہ حریف بھارت سے ہمارے تعلقات پُرامن ہو جائیں گے۔ہمیں یقین سا ہو چلا تھا کہ دنیا میں ایٹمی اسلحے کا چلن ختم ہوتا جا رہا ہے‘ ہمارے ہاں بھی ایسا ہو گا کہ برصغیر کی دو ایٹمی طاقتیں پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت خطے کے حالات بدل دیں گی۔
حالات بالکل ہی مختلف رخ اختیار کر گئے۔ دنیا کی طرح ہماری معیشت بھی بیٹھ گئی۔ دہشت گردی نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ نے ہمارے شہروں کا امن تباہ کر دیا۔ پاکستان کے استحکام پر سوالیہ نشان پڑنے لگے۔ بیسویں صدی کے اختتام پر لگتا تھا کہ کشمیر سمیت دنیا کے سب مسئلے حل ہو جائیں گے‘ مگر یہ تو الٹ ہوا۔ مشرق ِوسطیٰ میں تو ایک چنگاری بھڑک اٹھی۔ مگر آزادی کی یہ لہر بھی ابھی تک مطلوبہ نتائج نہیں دے پارہی۔ فلسطین کا مسئلہ جو حل ہوتا دکھائی دیتا تھا‘ اب پہلے سے بھی سنگین تر ہو گیا ہے۔ اس سال کے صرف دس ماہ میں جتنے پاکستانی دہشت گردی سے لقمہ اجل بنے ‘ ان کی تعداد 65ء اور 71ء کی جنگ کے شہیدوں سے بھی زیادہ ہے۔
اس وقت پاکستان میں ہماری صنعت کا پہیہ الٹی سمت چل رہا ہے۔ آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے۔ تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے‘ سرکار نے اس شعبے سے ایسی بے اعتنائی برتی ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ صحت کے میدان میں عام آدمی ڈسپرین تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ لگتا ہے ہم نے پچاس برسوں میں جو کمایا ہے‘ وہ سب کچھ لٹانے پر تُل گئے ہیں۔ ماضی میں بھی ہماری مشکلات کم نہ تھیں‘ پھر بھی ہم نے بہت کچھ حاصل کیا تھا۔ اس قوم نے پاؤں پر کھڑے ہونا سیکھ لیا تھا۔اچانک نقشہ ہی بدل گیا۔ اس تبدیلی میں عالمی حالات کا بھی اثر ہے‘ خطے کی صورت حال بھی ہماری دشمن ہے‘ مگر سب سے بڑے دشمن ہم سب خود ہیں۔ خدا خدا کرکے دوبارہ جمہوریت ملی ہے ہم نے اس کا حلیہ ہی بھگاڑ کر رکھ دیاہے۔ کراچی‘ بلوچستان‘ شمالی علاقہ جات ہر جگہ مسائل اتنے ہولناک ہو گئے ہیں کہ زندہ رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے، ایسے میں کیا کیا جائے۔
میں بنیادی طور پرایک قنوطی شخص نہیں ہوں۔ بہت پُرامید رہتا ہوں مجھے یقین ہے کہ یہ حالات ضرور بدلیں گے۔ دنیا کے معاملات سے پہلے اپنے گھر کا جائزہ لیں۔ کیا یہ ایک بہت بڑی تبدیلی نہیں ہے کہ پاکستان میں عدلیہ ‘میڈیا اور سول سوسائٹی تین ایسی قوتیں ابھری ہیں جو ملک کو شعور کے نئے امکانات سے روشناس کر رہی ہیں۔ ان کے مقابلے پر زدال اوراسٹیٹس کو ساری قوتیں اپنی پوری طاقت صرف کر رہی ہیں‘ مگر لگتا ہے ان قوتوں کی آخری گھڑی آن پہنچی ہے۔ عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد نے اس ملک کی تاریخ کو نئی راہوں پر ڈال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میڈیا کی طاقت اس طرح ابھر کر سامنے آئی کہ کسی بھی ظلم و ناانصافی کی دیوار کا مقید راہ بننا محال دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں لاکھ اپنے مسائل میں الجھی سہی‘ مگر سول سوسائٹی کی طاقت اس قدر طوفان انگیز ہے کہ اس کے اثرات ہر جگہ محسوس کئے جاتے ہیں۔ ہمارے کھیتوں کھلیانوں سے لے کر ہماری یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں تک بیداری کی ایک لہر نظر آتی ہے۔ اس لہر کے پیچھے سیاست بھی رنگ بدلنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ گلیوں میں گھومنے والا ایک عام آدمی اور دور دراز کے گاؤں میں رہنے والا شخص بھی میڈیا کے دیئے ہوئے شعور سے سرشار ہے۔ ایسے میں کوئی اس انقلاب کو نہیں روک سکتا جو لوگوں کے دلوں پر دستک دے رہا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ تبدیلی کا یہ احساس لوگوں کے ضمیر سے ابھرا ہے اور روشنی پھیلتی ہوئی صاف محسوس ہوتی ہے۔
میں نے بہت عرصے بعد قلم اٹھایا ہے اور بہت درد کے ساتھ لکھنے بیٹھا ہوں۔ اتنے برس میں اس درد کی آگ میں جلتا رہا ہوں۔ میرا پورا ملک اس آگ میں جل رہا ہے کیونکہ بنیادی طور پر ہم حساس اور محب وطن لوگوں کی قوم ہیں۔ مجھے نہیں معلوم دنیا اس بحران سے نکل پائے گی یا نہیں‘ مگر اتنا یقین ضرور ہے کہ ہم اس بحران سے ضرورت نکل آئیں گے۔ میڈیا‘ عدلیہ‘ سول سوسائٹی جیسی تین قوتوں کا پیدا ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس نے ریاست کے فرسودہ اداروں اور معاشرے کے گلے سڑے ڈھانچے میں ایک نئی زندگی پیدا کر دی ہے یقیناآنے والے چھ ماہ ہمارے لئے مشکل ہیں۔ ہم پہلی بار جمہوری طور پر منتخب حکومت کے 5سال پورے کررہے ہیں پھر ہمیں جمہوری عمل کے دوسرے مرحلے تک جانا ہے۔ انتخابات سر پر ہیں۔ہم اس مرحلے سے سلامت گزر گئے تو سمجھئے ہم نے صدیوں کا سفر طے کر لیا ہے اور اپنے لئے مستقبل کی راہیں تراش لی ہیں۔حالات اس طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ منزل دور سہی مگر ہمارا سفر اس سمت ہے جس سمت ہونا چاہئے۔ فیض کی زبان میں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
میں کسی سیاسی جماعت کے خلاف چارج شیٹ مرتب کر رہا ہوں نہ کسی کو کٹہرے میں لانا چاہتا ہوں۔ میں صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ تاریخ کا سفر درست سمت پر اس لئے جا رہا ہے کہ ہماری قوم باشعور ہو چکی ہے اور اس کے تین ادارے میڈیا ‘ عدلیہ اور سول سوسائٹی ایک نئی قوت کے ساتھ قوم میں تبدیلی کی قوت محرکہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ تبدیلی ہمارا مقدر ہے۔ ہمارے مسائل بے شمار سہی مگر انہیں حل ہونا ہے ۔یہی تاریخ کا فیصلہ ہے۔