ڈائجسٹ: کیرولینا. . .

July 08, 2018

جواد اصغر بلگرامی،کراچی

جب مَیں آگرہ کے لال قلعہ ریلوے اسٹیشن اُترا، تو صُبح کے نو بج چکے تھے اور دھوپ پورے آگرہ کو چمکا رہی تھی۔ رات لکھنٔو کے چہار باغ اسٹیشن سے چلتے ہوئے جو بے وقت خنکی تھی، وہ وہیں رہ گئی۔ مَیں نے سفری بیگ کاندھے پر ڈالا اور مُنہ دھونے ایک نلکے پر بیٹھ گیا۔سامنے ہی ایک کینٹین تھی،جہاں چائے پیتے ہوئے سوچنے لگا کہ شب بسری کہاں کی ہو۔کہ آگرہ میں دو دِن اور ایک رات گزارنی تھی۔جیب سے نوٹ بُک نکالی اور شہید ثالث نور اللہ شوستری کے مزار کا پتا ڈھونڈنے لگا کہ یہ مزار مسافروں اور زائرین کی شب بسری کے لیے اچھی جگہ تصوّر کی جاتی تھی۔ اسٹیشن سےباہر آیا، تو سامنے پُرہیبت لال قلعہ تھا،جس کے ہربُرج، مینار اور ہر دَر سے سلطنتِ مغلیہ کے اُجڑنے کا نوحہ نشر ہورہا تھا۔جانے کیوں، جب بھی مَیں آگرہ کا تذکرہ سُنتا، تو مجھے وہاں کا ہر شخص شاہ جہاں اور ممتاز محل نظر آتا۔ایسا لگتا کہ وہاں کے سب لوگ محبّت کے داعی ہیں،پر وہ تو عجب اکّھڑقسم کے لوگوں کا شہر تھا۔ان کی بولی ٹھولی سب ہی عجیب تھی۔شہر کی چہل پہل میں بھی روکھا پن تھا۔یہاں سےبس اڈے پہنچا اور ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھ گیا۔ پھیکے اور بے کشش لوگ چڑھتے اُترتے رہے۔اسٹاپ آیا ،تو مزار کی جانب چل دیا۔یہاں زائرین اور مسافروں کے قیام کے لیے کئی کمرےتھے،لیکن اِس وقت کوئی کمرا خالی نہ تھا۔سو ،وہاں سے بھی چل دیا۔ بالآخر خاصی تگ ودو کے بعد ایک ہوٹل میں کمرا مل ہی گیا۔کاؤنٹر پر ایڈوانس رقم ادا کی اور چابی لےکر کمرے میں آگیا۔ گرمی اور رات کے سفر نے مجھے تھکادیا تھا۔ کچھ دیرسستانے کے بعد نہا دھوکر باہر نکلا، تو گیارہ بج چکے تھے۔

جب مَیں نے آگرہ کا قصد کیا تھا، تو یار دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ پہلے رادھا سوامی کا مندر دیکھنا،تاکہ تاج محل دیکھنے کے بعد اس کا حُسن ماند نہ لگے۔ کمرے کو تالا لگاکر ہوٹل سے باہر آگیا اور رکشے والوں سے کان، آنکھ بچاتا، بس اسٹاپ پہنچ گیا ۔گرمی بَھرے انتظار کے بعد بَھری ہوئی بس آئی، جس میں ٹھنس اور لٹک کر بمشکل شوالے کے اسٹاپ پر اُترا۔شوالے کے دروازے کے باہر سنگ مرمر سے بنی اشیاء کا کاروبار ہوتا ہے۔آپ بس سے اُترے نہیں ،کہ دکان داروں کے کارندے ہر طرف سے آپ پر لپکے نہیں۔ بمشکل جان چُھڑا کر شوالے کی چار دیواری میں داخل ہوگیا۔ واقعی، یہ مندر انسانی ہاتھوں کی کاری گری کا اعلیٰ شاہ کار ہے۔ابھی مَیں ہاتھوں کی صنّاعی دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک نسوانی آواز کانوں سے ٹکرائی،’’آپ میری فوٹو بنادیں گے؟‘‘مَیں نے مُڑ کر دیکھا،نیلی پینٹ اور سفید جرسی میں ایک خُوب صُورت یورپی لڑکی کھڑی تھی۔’’کیمرا ہے،میرے پاس۔‘‘اُس نے اپنا کیمرا دکھاتے اور میرا دیکھتے ہوئے کہا۔’’جی ضرور۔‘‘مَیں نے اُسے سَر تا پیر دیکھا، تو وہ ہنس دی۔گلابی چہرے پر مزید دھنک رنگ بکھر گئے۔ وہ بتاتی رہی اور مَیں مختلف جگہوں پر مختلف زاویوں اور انداز سے اُسےکیمرے کی آنکھ میں بند کرتا رہا۔پتا نہیں کیوں، وہ مجھے عام یورپیئنز سے قطعی مختلف لگ رہی تھی۔کوئی بات ایسی ضرور تھی، جو اُسے دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔ہم نے ساتھ گھوم پھر کر یہ جگہ دیکھی اور پھرباہر آگئے۔ سامنے ہی کولڈرنکس کی دکان تھی۔مَیں نے اخلاقاً پوچھا،تو ایک عدد گلابی مُسکراہٹ کے ساتھ اُس نے گردن ہلا دی۔مَیں نے دو لمکا کا آرڈر دیا اور دکان سے بینچ گھسیٹ کر درخت کے نیچے کرلی۔’’میرا نام کیرولینا ہے،مَیں اٹلی سے آئی ہوں۔‘‘اُس نے بات چیت کی باقاعدہ ابتدا کی۔’’میرا نام جوّاد ہے۔مَیں پاکستانی ہوں۔‘‘’’سچ تم پاکستانی ہو؟‘‘اُسے نہ جانے کیوں بے یقینی سی تھی۔’’کیوں، اس میں یقین نہ کرنے والی کون سی بات ہے؟‘‘اصل میں اتنے ہندوستانیوں سے ملنے کے بعد میرا بہت جی چاہتا تھا کہ کسی پاکستانی سے بھی ملوں۔میری ایک دوست کا شوہر پاکستانی ہے،وہ اس کی بہت تعریف کرتی ہے۔‘‘’’ہم لوگ تو ہیں ہی تعریف کے قابل ۔‘‘یہ کہتے ہوئے مَیں قدرے زور سے ہنسا۔’’مَیں یونی ورسٹی میں پڑھتی ہوں اور دنیا کی سیاحت کا بہت شوق ہے،خاص طور پر مشرق کی پُراسراریت مجھے بہت متاثر کرتی ہے،اسی لیے اس طرف آئی ہوں، پورا ہندوستان دیکھنے کے بعد،پاکستان بھی جاؤں گی۔‘‘’’کیوں نہیں،ضرور۔ مَیں تمھیں اپنا مُلک گھماؤں گا۔ اپنی تہذیب اور ثقافت دکھاؤں گا۔یہاں اکیلی آئی ہو؟‘‘ ’’نہیں،ہمارا گروپ ہے۔میرے سواتمام ساتھی بنارس گئے ہوئے ہیں۔مَیں پہلے دیکھ کر آچکی ہوں۔اب محبّت کی مثالی یادگار’’تاج محل‘‘روز دیکھنے جاتی ہوں،مگر اُس کے سحر سے نکل نہیں پارہی ہوں۔تم نے دیکھا ہے تاج محل…؟‘‘اُس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔’’ نہیں۔آج صُبح ہی تو لکھنٔو سے یہاں پہنچا ہوں۔یہاں سے اب اُدھر ہی کا پروگرام ہے۔‘‘پیسے ادا کرکے ہم سڑک پر آگئے۔’’کیوں نہ ہم ساتھ چلیں؟‘‘اُس نے پوچھا،تو مَیں انکار نہ کرسکا۔سامنے ہی بس کھڑی تھی، ہم اس میں سوار ہوگئے۔راستے بَھر ہم نے دنیا جہاں کی باتیں کیں۔ اس کی باتیں بھی اُسی کی طرح بےحد خُوب صُورت تھیں۔مجھے یوں لگ رہا تھا، جیسے ہم اڑن قالین پر بیٹھے،خوابوں کے کسی دیس کی سیر کر رہے ہوں اوراڑتے اڑتے وہاں پہنچ گئے ہوں،جہاں مشرق و مغرب گلے ملتے ہیں۔ بس ایک جھٹکے سے رُکی اور قالین نیچےآگیا۔

ہمارےسامنے تاج محل کا بُلند قامت دروازہ تھا۔ اندر جانے کے لیے ٹکٹ لے کر مَیں کیرولینا کے پاس آیا تو وہ بہت عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔’’کیا ہوا؟‘‘مَیں نےپوچھا۔’’پتا نہیں کیا بات ہے،مَیں یہاں روز آتی ہوں، مگر آج تاج محل روزسے کہیں سے زیادہ خُوب صُورت لگ رہا ہے۔ بتاؤ ناں،ایسا کیوں ہے؟‘‘میں گنگ سا ہوگیا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں کہ دنیا تو مجھے بھی آج نئی نئی سی لگ رہی تھی۔ہم تاج محل کےاندر داخل ہوچکے تھے ۔کیرولینا مجھے بتانے لگی،’’یہ عمارت چار کنووں پر جیو میٹریکل حساب سے تعمیر کی گئی ہے،تاکہ کسی بھی زلزلے سے محفوظ رہ سکے۔اب بتاؤ،کیا کوئی زلزلہ محبّت یا محبّت کی کسی یادگار کو تباہ کرسکتا ہے،تین صدیوں کی خزاں اور بہار نے بھی اس پر کوئی اثر ڈالا؟‘‘مَیں نے تاج محل کے گنبد پر نظر ڈالی،وہاں سے زمین تک سکون پھیلا ہوا تھا،لیکن اس سکون میں بھی ایک آواز تھی،جو مجھے بتا رہی تھی کہ ہاں یہ سچ ہے،محبّت کبھی زلزلوں سے ختم نہیں ہوتی، چاہے تین یا ہزاروں صدیاں گزر جائیں۔

دوپہر سے اب شام ہو چلی تھی۔درختوں کے سائے لمبے ہونے لگے تھے۔ آگرے بَھر کی چڑیاں درختوں پر بیٹھی تاج محل کو سلام کر رہی تھیں،ان کی آواز نے اِک شور برپا کر رکھا تھا، لیکن ہم دونوں دنیا و مافیہا سے بے خبر،ایک دوجے کواپنی اپنی کہانیاں سُنا رہے تھے۔چند گھنٹوں کی رفاقت نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھول کے رکھ دیا تھا۔مَن بھیتر جو بھی تھا، وہ لبوں پر آگیا تھا۔ہم دونوں کا ایک ساہی حال تھا۔ہماراکوئی رشتہ ناتا نہ تھا، معاشرتی اور ثقافتی طور پربھی مختلف ،تورنگ میں بھی ایک سے نہ تھے۔وہ لالہ فام و صبیح اور میں صُورت ملیح،لیکن پھر بھی ہمارے درمیان کچھ تھا، جو ہمیں ایک دوسرے سے باندھ رہا تھا۔ہمیں نہ لوگوں کی نظروں کا احساس تھا،نہ وقت کا۔شام گہری ہونے لگی، تو ہم واپسی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔مَیں نے درختوں کی اوٹ سے اُبھرتے چاند کو دیکھا، وہ مُسکرا رہا تھا۔میرے پیچھے شاہ جہاں اور ممتاز محل ہم پر پھول برسارہے تھے۔ ہم باہر آگئے۔میری زبان خاموش تھی،مگر اندر کہیں ایک جنگ جاری تھی۔دِن بَھر کی رفاقت نے ایک خوش فہمی سی پیدا کردی تھی،مگر اس کی تہذیب و تمدّن کا خوف بھی دِل میں جاگزیں تھا۔مَیں اندر ہی اندرخود سے لڑ رہا تھا۔جانے کیوں، کیا بات تھی،مَیں کیا سوچ رہا تھا اور کیا چاہ رہا تھا؟ندی کے دوپاٹ ہمیشہ ساتھ چلتے ہیں، مگر ملتے کبھی نہیں۔پٹری خود پر چلنے والی ٹرین کو تو منزل پر پہنچادیتی ہے،مگر اس کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی۔مَیں دِن بَھر اُس کے ساتھ رہا،مگر میرا اور اس کا کیا رشتہ تھا؟وہ کیوں ایک اجنبی کے ساتھ گھومتی رہی،آخر یہ سب کیا ہے؟کیا مَیں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں؟مَیں نے تھکی تھکی،ایک لمبی،گہری سانس بَھری اور ایک جاتے رکشے کو ہاتھ دے دیا۔راستے بَھر ہم خاموش رہے۔ٹورسٹ گیسٹ ہاؤس کے گیٹ پر ہم کافی دیر خاموش رہے۔ شاید وہ بھی الفاظ نہیں ڈھونڈ پارہی تھی اور مَیں بھی۔صرف ہماری آنکھیں ہی ہماری زبان تھیں۔جب مَیں واپس ہونے لگا، تو اُس نے مجھے ایک رومال دیا،’’یہ میری نشانی ہے،اِسےاپنے پاس رکھنا۔‘‘مَیں نے رومال مُٹھی میں بَھرلیااور اُس سے اگلے دِن کی ملاقات کا وعدہ کرکے، بوجھل قدموں سے اپنے عارضی ٹھکانے کی جانب چلا آیا۔کمرے میں اکیلے ہونے کے باوجود مجھے اکیلے پن کا احساس نہ تھا کہ میرے پاس کیرولینا کی خوشبو تھی،اُس کی یادیں تھیں۔

صُبح ہوتے ہی مَیں گیسٹ ہاؤس پہنچ گیا۔وہ گیٹ پر میری ہی منتظر تھی۔مجھے دیکھتے ہی بولی،’’آؤ، تاج محل چلیں۔‘‘’’تاج محل ہی کیوں؟ہم سکندرا،مقبرہ اعتماد الدولہ، فتح پور سیکری،سب ہی دیکھ لیں،پھر جانے، کبھی آنا ہو کہ نہ ہو۔‘‘وہ راضی ہوگئی۔تمام یادگاریں دیکھنے کے بعد ہم واپس ہوٹل پہنچے، تو تین بج رہے تھے۔کاؤنٹر والے سے کمرے کی چابی لی، تو اُس نے معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ مجھے اچھا نہ لگا۔مَیں نے کیرولینا کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور خود کمرے سے اپنا بیگ اُٹھالایا اور چابی واپس کردی۔ ’’سر جی! کیوں واپس چل دیئے، کہیں ماتا پتا کو راضی کرنے تو نہیں جارہے کہ مَیں نے بالیکا تلاش کرلی ہے،اُسے میری پتنی بنادو۔‘‘’’فضول باتیں بند کرو اور رسید بناؤ۔‘‘مَیں نے غصّے سے کہا۔پھر بِل ادا کیا اور تیزی سےباہر آگیا۔شام میں تاج محل کی سیر کرتے ہوئے، ہم اُس کی عظمت کو سلام کر رہے تھے۔رات دس بجےٹرین روانہ ہونی تھی اور ہم دونوں مسلسل ساتھ رہنا چاہ رہے تھے۔ہمارے پاس جتنی باتیں تھیں،شاید وہ ہم کل ہی کر چکے تھے۔اب ہمارے پاس بات کرنے کا کوئی موضوع نہ تھا۔صرف دِل دھڑک رہے تھے۔وہ بھی خاموش تھی اور میں بھی بے آواز تھا۔ہم مڈل کلاس لوگ کسی بھی قابل نہیں ہوتے۔یہ افسانے،ناول،فلمیں اور ٹی وی ڈرامے ہمارے اندر چاہے جانے کا احساس تو پیدا کر دیتے ہیں کہ ذرا کسی نے آنکھ بَھر کر دیکھا یا کوئی ہماری طرف دیکھ کر مُسکرایا، ہم اپنا سب کچھ نچھاورکرنے پرتیار ہوگئے۔نہ اس کو دیکھتے ہیں،نہ اس کے مَن میں جھانکتے ہیں۔بس، سپنے بُن لیتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو رُلاتے رہتے ہیں، مگر اظہار کا طریقہ نہیں جانتے۔حقیقت پسندی سے کام نہیں لیتے۔آخری مرتبہ ہم شاہ جہاں اور ممتاز محل کو سلام کرکے نکلے، تو مَیں نے مُڑ کر دیکھا، تاج محل چاندنی میں نہانے کے باوجود اُداس لگ رہا تھا۔بوڑھا شاہ جہاں اور اس کی ضعیفہ ممتاز محل دُور تک مجھے دلاسادیتے رہے۔ اُس کے دِل کا حال تو پتا نہیں، مگر میرے اندر اِک زلزلہ سا آیا ہوا تھا۔ وہ کوئی بات بھی کررہی تھی،مگر میرے کانوں میں تو جدائی کا سیسہ پڑ چکا تھا۔مَیں کچھ نہیں سُن رہا تھا۔ ان دو دِنوں نے تو جیسے مجھے کششِ ثقل سے آزاد کردیاتھا۔ مَیں کہیں رُک ہی نہیں پارہا تھا، پر اب جو جدائی کی کشش نے جکڑا، تو دو قدم چلنا محال ہورہا تھا۔مَیں بمشکل ہی قدم گھسیٹ رہا تھا۔

اسٹیشن پر بہت رش تھا۔یوں لگ رہا تھا سب لوگ میرا تماشا دیکھنے آگئے ہیں، مگر وہاں کوئی بھی مجھے دلاسا دینے والا نہ تھا۔ٹرین آنے میں کچھ دیر تھی۔مَیں نے اُس سے پوچھا،’’مجھے یاد رکھو گی؟‘‘اُس کی آواز لرزنے لگی،’’تاج محل کے ساتھ میرے ذہن میں صرف تین نام آئیں گے۔ شاہ جہاں،ممتاز محل اور تمہارا نام۔‘‘’’مگرمجھے تو صرف تمہارا نام یاد رہے گا۔‘‘مَیں نے اپنے دِل کی کتاب کھول دی۔ دُور سے ریل نے وسل دی، تو اسٹیشن پر کھلبلی مچ گئی۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میرے دل کے اسٹیشن کو خالی کرنے کے لیے یہ ریل بہت جلد آگئی ہے۔مَیں نے بیگ کاندھے پر ڈال لیا۔پلیٹ فارم پر کچھ دیر پہلے جو رش تھا،وہ سب گاڑی میں منتقل ہوچکا تھا۔اب بس کچھ ہاتھ ہلانے والے رہ گئے تھے اور گاڑی جانے کے انتظار میں تھے، تاکہ جلد از جلد اس جاں کنی کے عذاب سے بچیں کہ کسی کو رخصت کرنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔’’جاؤ ،ایسا نہ ہو کہ گاڑی نکل جائے۔‘‘اسٹیشن کی چھت میں بنے گھونسلوں میں بیٹھی چڑیوں نے اچانک شور مچانا شروع کردیا تھا۔مَیں بھاگ کر ٹرین میں لٹک گیا۔پیچھے مڑ کر دیکھا، تو وہ پلیٹ فارم پر دوڑتی چلی آرہی تھی۔قُلیوں،آدمیوں اور پلیٹ فارم پر بکھرے سامان سے بچتی،وہ مسلسل دوڑ رہی تھی۔مَیں نے چیخ کر کہا،’’رُک جاؤ،رُک جاؤ۔‘‘مگر میری آواز ریل کے شور میں دب گئی۔ٹیوب لائٹس کی روشنی میں وہ بہت دُور ہوچکی تھی۔مَیں بس اس کے ہلتے ہاتھ کو تلاش کرتا رہ گیا۔یمنا برج سے’’ تاج محل‘‘ اُداس چاندنی میں نہایا نظر آرہا تھا اور بادشاہ اور ملکہ بھیگی پلکوں کے ساتھ مجھے ہاتھ ہلا رہے تھے۔