جمہوریت بہترین انتقام ہے

July 09, 2018

لاہور کب پیرس بنا پتہ ہی نہیں چلا- پہلے پہل تو اسے کسی دل پھینک نو دولتیے غیر وراثتی راجہ کی بڑھک سمجھ کر نظرانداز کردیا گیا مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ اسم با مسمی اسقدر زبان زد عام ہوگیا کہ اب دل کرتا ہے کہ برسوں پہلے بھارت کی راجدھانی نئی دہلی میں آلیانس فرانسے میں جو داخلہ میں نے ادھورا چھوڑا تھا کاش وہ مکمل کیا ہوتا تو آج فارسی کے بقول داشتہ بکارآید کے مثل کچھ کام آتا-ویسے تو میں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں بھی سرینگر کی کشمیر یونیورسٹی کے خارجی زبانوں کے شعبے میں فرنچ ڈپلوما میں داخلہ بھی لیا تھا مگر غم ہائے روزگار، اس کو ادھورا ہی چھوڑنا پڑا- مگر پھر بھی مجھے زبان کی تھوڑی بہت شدھ بدھ یہیں حاصل ہوئی اور کچھ الفاظ سیکھے جن کی مدد سے کم از کم انگریزی میں مستعمل فرنچ الفاظ کا تلفظ کچھ درست ہوا- افسوس کہ کبھی باقاعدہ زبان سیکھنےکا موقع نہیں ملا حالانکہ کئی بار پیرس اور اس کے مضافات میں رہنے کا اتفاق بھی ہوا اور بعد میں جنیوا اور برسلز میں بھی کچھ وقت گزارا- شکر ہے کہ اپنی کام چلاؤ انگریزی سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی صورت نکل آئی اور یوں ہم نئی زبان سیکھنے کے تکلیف دہ عذاب سے بچے رہے- مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنے کئی دانشور نما فرانسیسی دوستوں کی نگارشات سے کچھ خاص محظوظ نہیں ہوسکے اور یہ تشنگی ہنوز جاری ہے- پنجاب کے وسط میں نیا پیرس ابھرنے سے شاید اب یہ جمود ٹوٹ جائے اور ہم فرنچ زبان کی طرف اپنی توجہ مبذول کرکے اس میں استعداد بڑھانے کی کچھ کوشش کرسکیں- ویسے بھی لاہور کے امریکن اسکول میں کسی زمانے میں فرنچ کے نہایت قابل اساتذہ میں سےایک دو سے اچھی جان پہچان ہوگئی تھی مگر اسکول بند ہوا تو وہ بھی واپس اپنے اپنے دیش چلے گئے- چند سال پہلے لاہور میں قائم آلیانس فرانسے میں تین چار بار جانا ہوا تو وہاں دو تین لاہوریوں کے بڑے چرچے سنے جن کی زبان دانی پر پیرس کے اہل زبان کو بھی بڑا عش عش کرتے دیکھا- اس وقت واقعی اپنی علمی کم مائیگی کا احساس ہوا جو بعد میں کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا کے مصداق واقعی یاد سے اسطرح محو ہوگیا کہ آج برسوں بعد اچانک اور بڑی مدت کےبعد یہ خیال آیا اور وہ بھی موسم کی مہربانی سے- اللہ بھلا کرے اس سیاست توڑ بارش کا کہ پورے لاہور شہر کو یوں سیلاب بلا خیز میں نہلایا کہ ہماری طرح کے کمزور یادداشت کے مرض میں مبتلا لوگوں کو نہ صرف گئے دنوں کی باتیں یاد آنے لگیں بلکہ ہزاروں میل دور واقع ہونے والے ماضی کے معاملات کے تانے بانے اب لاہور شہر کے ساتھ ملنے لگے- سیاستدانوں نے ویسے مفت میں پیرس بنانے کے دعوے کئے مگر مشہور ٹائی کون نے لاہور سے کئی کوس دور بیابان کو جدید طرز پر آباد کرکے اسمیں سستی گریڈ کا ایفل ٹاور کا ماڈل بناکر پیرس کا ایک نمونہ پیش کرنے کی جسارت تو کی ہے- این کار از تو آمد و مردان چنین کند۔
ویسے یہ بات ریکارڈ کیلئے ضروری ہے کہ لاہور کو پیرس بنانے کا بار بار دعویٰ کرنے والے سابق خادم اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف تاریخی حقائق سے نا بلد ہیں- مگر چونکہ رائے ونڈ کے باسی اعلیٰ سیاستدان علم و ادب اور تاریخ و ثقافت کو فضول چیز سمجھ کر اس پر اپنے ذاتی یا حکومتی وسائل خرچ کرنے کے روا دار نہیں رہے ہیں اس لئے انہیں کسی بھی طرح سے اس طرح کی غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے کٹہرے میں کھڑا کرنا زیادتی بھی ہے اور جمہوریت کے خلاف سازش بھی- اس لئے حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے صرف لاہور کے رہنے والے سوم آنند جو آزادی کے بعد نقل مکانی کرکے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی منتقل ہوگئے کی معروف کتاب ’باتیں لاہور کی‘ جو نئی دہلی کے مکتبہ جامعہ سے دو بار شائع ہوئی ہے سے ایک اقتباس پر ہی اکتفا کرنا مناسب ہوگا- آپ برٹش انڈیا کی تقسیم سے قبل کے لاہور کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں: ’’میں نے لاہور کی زندگی کے دو دور دیکھے ہیں- ایک وہ جب وہ ہندوؤں، سکھوں، مسلمانوں، عیسائیوں، ان سب کا شہر تھا اور لوگ اسے ہندوستان کا پیرس کہتے تھے .... تقسیم کے بعد چونکہ والد صاحب لاہور میں ہی رہ گئے تھے- اس لئے سولہ سترہ برس تک مجھے وہاں جانے کا موقع ملتا رہا- اس طرح میں نے اس لاہور کو بھی دیکھا جو مغربی پنجاب کی راجدھانی ہے اور پاکستان کا دل ہے‘‘ آنند صاحب کے دعوے کے مطابق تقسیم سے پہلے لاہور کو ہندوستان کا پیرس کہا جاتا تھا جو جدید اور جمہوری عہد شریفاں میں بعینہ پیرس بن گیا- شاعری اور سیاست میں اس قسم کے دیو مالائی تصورات کا پرچار پیشہ وارانہ ضرورت کے تحت نہ صرف جائز قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ عوامی احساسات کو ابھارنے کیلئے اسے ضروری بھی قرار دیا جانا چاہئے- حالیہ طوفانی بارشوں میں لاہور کا جو بھی حال ہوا ہو حق تو یہ ہے کہ اس حالت کے کئی مناظر واقعی منفرد تھے- نون لیگ کے ازلی دشمنوں نے سابقہ خادم اعلی کی انسیت میں اسے پیرس سے تعبیر کیا جس سے ان کا مقصود مذاق اڑانے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا- کئی اور حضرات نے اسے بدلتے منظر نامے میں اٹلی کے شہر وینس سے تشبیہ دی- سرینگر میں رہ کے لاہور میں مقیم اپنے گھر والوں اور دوستوں کے توسط سے جو تصویریں اور ویڈیوز مجھے دستیاب ہوئی انہیں دیکھ کےمجھے کیفیت پیرس اور وینس کے بجائے کسی نئے سمندر کی سی محسوس ہوئی جسے میں نے بے اختیاری کے عالم میں خلیج لاہور کہنا زیادہ مناسب سمجھا- یہ زندہ دلان لاہور کا ہی کمال ہے کہ وہ پانی کے اس بے ہنگم اور بلا خیز سمندر میں بھی اپنے اسکوٹروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار نظر آئے اور کچھ مست ملنگوں نے تو اپنی سیلاب زدگی کی فکر سے آزاد ہوکر کےاپنے گھروں سے باہر گلی کوچوں میں کرسیاں اور ٹیبل سجا کے کھڑے پانی میں چائے کی چسکیاں لینے کے نئے اور انوکھے ریکارڈ قائم کئے- مجھے جب اپنے چند دوستوں کی طرف سے کچھ ایسی تصویریں میسر ہوئیں تو یکایک اپنے والد مرحوم کے قریبی دوست شوریدہ کشمیری مرحوم کا یہ شعر یاد آیا:
جام آب حرام پی نہ سکے
چائے سے انتقام لیتے ہیں
اس صورتحال پر کئی لوگوں نے طرح طرح کے تبصرے کئے- کچھ لوگوں نے بے انتہا بارش میں ایسی سیچویشن کو نارمل قرار دیا جبکہ کئی نے اسے سڑکوں کے تعمیراتی ٹھیکوں میں کرپشن سے جوڑا- ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر نے لاہور پریس کلب سے متصل بچوں کے واٹر پول میں بیٹھ کر جو رپورٹنگ کی وہ قابل دید بھی تھی اور قابل داد بھی،ان کے یہ الفاظ اب بھی میرے دماغ میں گردش کر رہے ہیں: ’’واسا بالکل پانی نکالنے میں ناکام ہوگیا ہے- گلی محلوں میں لوگوں کے پول تو بن چکے ہیں- لوگ یقینا واٹر پول لے کے اس میں انجوائے کریں کیونکہ ان کا پانی جلدی تو ختم ہونے والا نہیں ہے کیونکہ واسا کی مشینیں ناکام ہوچکی ہیں‘‘- اس صورتحال میں مجھے زرداری صاحب کا مشہور مقولہ بڑی شدت سے یاد آیا: ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘-
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)