احتساب اور انتخاب

July 15, 2018

ایون فیلڈریفرنس میں طویل قید اور بھاری جرمانوں کی سزا پانے والے مسلم لیگ (ن)کے قائد اورسابق وزیر اعظم میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی لندن سے وطن واپسی کے بعد گزشتہ شب لاہورایئرپورٹ پر قومی احتساب بیوروکی ٹیم کے ہاتھوں گرفتاری اور راتوں رات اڈیالہ جیل منتقلی سے سوادوسال پہلے پاناما لیکس سے شروع ہونے والی ڈرامائی کہانی کا ایک باب اختتام کو پہنچا۔ تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے نتیجے میں ان سزاؤں پر نظر ثانی اور ان کی معطلی کا قوی امکان موجود ہے کیونکہ سنائے گئے فیصلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ اپنے خلاف جاری احتساب کی کارروائی پر میاں نواز شریف کا اپنا موقف جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اپنے استقبال کے لیے لاہور ایئرپورٹ پہنچنے کی کوشش کرنے والے اپنے حامیوں اور اپنی جماعت کے کارکنوں کو روکنے کے لیے پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے غیرمعمولی اقدامات کے تناظر میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا ، ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے ’’ میری سزاکے پیچھے اندھاانتقام ہے جس کا مقصدمجھے انتخابات سے روکنا اورالیکشن فکس کرنا ہے‘پاناماکیس مجھے باہر کرنے کیلئے شروع کیاگیا‘میرامشن قوم کو 70سالہ قید سے نجات دلاناہے۔‘‘ان کا کہنا تھا ’’70 برس کوئی تھوڑی مدت نہیں ہوتی، ملک کو 70 سال میں کیا ملا، آج قوم کو رسوا کیا جارہا ہے۔لوگوں میں جوش و خروش ہے لیکن انہیں سیکڑوں کی تعداد میں گرفتار کرلیا گیا ہے اور یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ ایئرپورٹ نہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں صرف 10 دن رہ گئے ہیں ٗ کیا انتخابات سے قبل اس طرح ہوتا ہے؟ اس سے انتخابات کی کیا ساکھ رہ جائے گی، اگر انتخابات کی ساکھ ہی نہیں ہے تو کون اسے تسلیم کرے گا؟‘‘ اور بلاشبہ گزشتہ روز لاہور میں انتظامیہ نے صورت حال سے نمٹنے کے لیے درکار سوجھ بوجھ سے جس مکمل محرومی کا ثبوت دیا ،، اس سے اس کی تمام کمزوریاں اور درست فیصلوں کی صلاحیت کا فقدان کھل کر سامنے آگیا۔کنٹینر لگا کر پورے شہر کو بند کردینے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کاکنوں کو سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کرنے کے اقدامات سے پرامن احتجاج کے آئینی حق سے لوگوں کے محروم کیے جانے کا تاثر ابھرا جس بناء پر مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین کی جانب سے بھی ان اقدامات کی مذمت گئی ہے۔ جمعے کو لاہور میں جو کچھ ہوا ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اس پر سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والا یہ تبصرہ بہت متوازن اور معقول نظر آتا ہے کہ ’’ پر امن احتجاج جمہوری امن کیلئے سب کا حق ہے،نواز شریف کی نیب کورٹ کی طرف سے سزا کے بعدگرفتاری تو سمجھ میں آتی ہے مگرکارکنوں اور امیدواروں کی گرفتاریاں سمجھ سے بالاتر ہیں اور لاہورکے محاصرے کا بھی کوئی جواز نہیں۔‘‘ ایک اور پیغام میں انہوں نے لاہور ایئرپورٹ سے پشاور جانے کیلئے اپنے روکے جانے اور تحریک انصاف کے قائد کو اجازت دیے جانے کا بھی شکوہ کیا ہے جو بظاہر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ الگ الگ روا رکھے گئے سلوک کا واضح مظاہرہ ہے۔آج جب عام انتخابات میں محض نو دس روز باقی رہ گئے ہیں، ملک کی سب سے بڑی ضرورت انتخابی عمل کو مکمل طور پرغیرجانبدارانہ، منصفانہ، شفاف ، پرامن اور پوری طرح قابل اعتبار بنانا ہے۔ جمہوری ملکوں میںانتخابات پر قوموںکے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ ملک کیلئے اگلی منزل کا تعین کرتے ہیں۔انتخابی عمل درست طور پر انجام پائے تو قومی یکجہتی کا ذریعہ بنتاہے اور شکوک و شبہات کا شکار ہوجائے تو انتشار و افتراق جنم لیتا ہے۔ لہٰذانگراں حکومتوں، الیکشن کمیشن اور عدلیہ و فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کا اولین فرض یہی ہے کہ اس معاملے میں قوم کو یکسو اور مطمئن رکھا جائے۔احتساب اور انتخاب ملک کے لیے دونوں ضروری ہیں لیکن احتسابی عمل کا جانبداری کے ہر شائبہ سے پاک رہنا ضروری ہے ورنہ اسے انتخابات میں طے شدہ نتائج کے حصول کا ذریعہ قرار دیا جاسکتا اور اس کی بناء پر انتخابی عمل کی پوری مشق ناقابل اعتبار ہوسکتی ہے۔