بائی پولر ڈس آرڈر کو جاننے کی ضرورت ہے

July 19, 2018

دنیا میں بڑی بڑی مشہورشخصیات ایسی ہیں جو بائی پولرڈس آرڈر(دو قطبی عارضہ) کا شکار ہونے کے باوجود اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بخوبی استعمال کرتی رہی ہیں اوران کایہ رویہ ہمارے لئے قابل تقلید ہے۔ ان شخصیات میں ابراہم لنکن، نیوٹن، فلورنس نائٹینگل، باکسر مائیک ٹائی سن، اداکار میل گبسن، مارلن منرواور کیتھرین زیٹا جو نز شامل ہیں۔

انٹرنیشنل سوسائٹی آف بائی پولر ڈس آرڈرکے مطابق دنیا کی آبادی کا24فی صد حصہ اس ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔ ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی امراض کو ایک معاشرتی دھبے کے طور پر لیاجاتا ہے، اس وجہ سے ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت ایسی بیماریوں کو چھپاتی ہے، جوایک بہت بڑا معاشرتی المیہ ہے۔لہٰذا ایسے افراد کو ناکارہ مت سمجھیں اور ان کو زندگی سے الگ مت کریں۔ان کے ساتھ تعاون کریں،صبر اور حوصلے کا دامن مت چھوڑیں۔

بائی پولرڈس آرڈر کیا ہے؟

بائی پولر ڈس آرڈرایک قسم کی موڈ کی خرابی ہے۔ اس بیماری میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوش ہوجاتا ہے اور کبھی اس میں بے انتہا اداسی آ جاتی ہے۔اس مرض کے دو حصے ہیں۔ پہلے دورمیں بہت زیادہ خوشی، ہیجان انگیزی اور بے انتہاتوانائی ہوتی ہے ۔ اسے ہائیپومانیا (hypomania) یا مینک ایپی سوڈ(manic episode) کہتے ہیں۔ اس میں لوگ عموماً نتیجے کی پروا کئے بغیر فیصلے کرتے ہیں۔اس کے برعکس دوسرے دورڈپریسیو ایپی سوڈ(depressive episode) میں مریض شدید تھکن، بے بسی، نڈھال رہنے اور خودترسی کی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔

دونوں دوروں کے درمیانی وقفے میں مریض عموماً نارمل رہتا ہے۔کچھ ایسی کیفیات بھی ہوتی ہیں جن میں دونوں دوروں کی ملی جلی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ یہ علامات کچھ ہفتے بھی رہ سکتی ہیں،کچھ ماہ بھی اور بعض اوقات کئی سال بھی چلتی ہیں۔اس مرض کی وجوہات میں وراثتی اور ماحولیاتی، دونوں عوامل کا اثر ہوسکتا ہے۔ اس کی تشخیص ایک پیچیدہ عمل ہے کیونکہ اس کی بہت سی علامات دوسری ذہنی بیماریوں کی علامات سے ملتی جلتی ہیں۔

علامات

اسباب

بائی پولر ڈس آرڈر کا سامنا زندگی کے کسی بھی حصے میںکرنا پڑ سکتا ہے۔ مردوں اور عورتوں میں اس بیماری کی شرح برابرہوتی ہے۔ بائی پولر ڈس آرڈر ہمارے دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ بیماری مشکل حالات ،کسی جسمانی بیماری یا ذہنی دباؤ کی وجہ سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ایسے افراد کے لوگوں سے تعلقات کچھ زیادہ پائیدار نہیں ہوتے اور ان میں بالعموم پیشہ ورانہ صلاحیتیں بھی کم ہوتی ہیں۔ ان میں پچھتاوے (guilt)کا عنصر بھی بہت ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کم مائیگی کا احساس بھی گھیرے رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کا زندگی کے بارے میں تصورمنفی ہوتا ہے، لہٰذا ان میں خود کو نقصان پہنچانے کے رجحان کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔

علاج

اگر آپ نشہ آور اشیاء کا ستعمال کرتے ہیں تو اُن کو فوراََ چھوڑ دیں کیونکہ یہ آپ کے مزاج میں تبدیلی لانے کی وجہ بنتی ہیں۔ اپنے اردگرد لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنائیں کیونکہ یہ لوگ آپ کے مزاج کو بہتر رکھنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کریں جیسا کہ وقت پر کھانا ،پینا، سونا اورجسمانی سرگرمی میں حصہ لینا،یہ آپ کے مزاج کو بیلنس کرتا ہے۔ ورزش کرنے، پیدل چلنے اور دوڑنے سے بھی ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔ اگر بائی پولر ڈس آرڈر کی وجہ سے آپ کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہو تو جلد سے جلد ڈاکٹر سے رُجوع کریں کیونکہ اس کا علاج ادویات سے بھی کیا جاتا ہے۔

مناسب علاج، طرز زندگی میں مثبت تبدیلیوں، ورزش اور باقاعدہ تھراپی کے ذریعے اس بیماری کا کافی حدتک علاج کرکےمتاثرہ شخص کو نارمل کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے والدین اپنی بچیوں کا علاج کروانے کی بجائے ان کی شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اس بیماری کا سب سے آسان حل ہے،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ والدین کو سمجھنا چاہئے کہ ان کا یہ فیصلہ بعد میںبچیوں کے لیے شدیدمسائل کاسبب بن سکتا ہے ۔ دوران حمل یہ حالت شدید اور وضع حمل کے بعد شدید ترین صورت اختیار کر جاتی ہے۔ دوران حمل اور اس کے بعد ماہرامور زچہ بچہ اور ماہر نفسیات کے مشوروں سے مریضہ کی ذمہ داریاں بانٹ کر اس مرض کی شدت کو کافی حد تک نارمل کیاجاسکتا ہے۔اس لئے کوشش کریں کہ وضع حمل سے قبل اس بیماری کا علاج ہوجائے ۔

ماہرین کا کہناہے کہ ہم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہم منفی خیالات کیوں رکھتے ہیں، ہمارے اندر ٹھہراؤ کیوں نہیں ہے اور ہم مطمئن اور پرسکون کیوں نہیں ہیں؟ہم اس کی تہہ میں جانے کی کوشش نہیں کرتے۔اگر رویے میں منفی تبدیلیاں نمایاں ہونے لگیں،بے زاری اور چڑچڑاپن شخصیت کا مستقل حصہ بننے لگے تو اسے عام بات نہ سمجھیں اوراگر ضرورت محسوس ہو تونفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جانے سے بھی مت جھجکیں۔عموماً ایسے مریضوں کے موڈ کو ٹھیک کرنے کیلئے ادویات دی جاتی ہیں۔مریض کی جلد صحتیابی میں قریبی عزیزوں اوررشتہ داروں کا رویہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے ۔