نظام بدلو، مزاج بدلو

July 21, 2018

جہانِ کہنہ

کے کند خنجر

سے کٹنے والے

غریب لوگو

تم اپنی

ہڈیوں کا

عرق دے کر

نظامِ زر کو

سنوارتے ہو

لہو پسینے

سے عہدِ حاضر

کا زرد چہرہ نکھارتے ہو

سِتم ہے پھر بھی

ضعیف و مردار زندگی تم

گزارتے ہو

یہ اہلِ دانش

جو کہہ رہے ہیں

کہ ہے مقدر یہی تمہارا

نفع تو لونڈی ہے

کچھ گھروں کی

تمہارے حصے میں بس خسارا

اِنہیں بتا دو کہ انقلابِ عظیم

ابھرا تھا اس زمیں پر

وہی ستارادمک رہا ہے

ہماری تاریخ کی جبیں پر

کہ چشمِ افلاک

نے بغاوت کا

ایک ایسا بھی طور دیکھا

ضعیف و مردار خستہ ڈھانچوں نے

حکمرانی کا دور دیکھا

وہ انقلابِ عظیم پھر سے پکارتا

ہے مزاج بدلو۔۔

کہ کل بھی بدلا تھا تم نے مل کر

اُسی طرح سے یہ آج بدلو۔۔

غلام رہنے کی ریت بدلو

اداسیوں کا رواج بدلو

یہ وحشتوں کا، یہ نفرتوں کا

یہ ظلمتوں کا سماج بدلو۔۔۔

(انتخاب: ارسلان محمود)