الیکشن کی گہماگہمی

July 23, 2018

خصوصی مراسلہ…سیدہ تحسین عابدی
ملک کی نازک صورتحال میں الیکشن اور سیاست سوال بنتے جا رہے ہیں۔ ن لیگ کے رہنمائوں کی گرفتاری، سیاسی ماحول کی ابتر صورتحال سے الیکشن میں گرما گرمی انتخابات کے بجائے خوف و ہراس میں تبدیل ہو رہی ہے۔ پاکستان اس وقت بدترین سیاسی ماحول اور ملک میں الیکشن سے پہلے سیاستدانوں کی غیر معیاری گفتگو، کیچڑ اچھالنے اور ملک کو بالائے طاق رکھ کر غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے اور شرمندہ ہوئے بغیر اپنے بیانات پر قائم رہنے کے گھنائونے طرزعمل سے گزر رہا ہے۔ ملک میں الیکشن کا ماحول الیکشن کمیشن کی سخت پابندیوں کی وجہ سے سخت متّاثر ہے لیکن کہیں کہیں وی آئی پی کلچر نظر آ رہا ہے۔ پی ٹی آئی، پی پی پی، ایم ایم اے اور ن لیگ کے اشتہاروں کی بھر مار نے عوام کو بیزار کر دیا ہے لیکن الیکشن کمیشن ان بے پناہ اخراجات پر خاموش ہے۔ ایک طرف احتساب در احتساب چل رہا ہے۔ عدالتیں بھی فل فارم میں ہیں۔ نیب اور سیاستدان بھی دست و گریباں ہیں۔ مائنس مائنس کی سیاست ہو رہی ہے۔ عجب سیاست کا دوردورا ہے۔ شہباز شریف ن لیگ کو بچاتے بچاتے خود بھی احتساب کے شکنجے میں بیٹے سمیت پھنستے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بھائی اور بھتیجی کی گرفتاری پر لاہور کو گرم تو ضرور کیا لیکن گرفتاری سے نہیں بچا سکے۔ ن لیگ زیر عتاب ہے۔ ملک دشمن عناصر متحرک نظر آ رہے ہیں۔ خونی بم دھماکوں اور شہادتوں کے افسوسناک واقعات نے ماحول سوگوار کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اب احتساب کے شکنجے میں کستی نظر آ رہی ہے۔ پارلیمانی سیاست آخری دنوںمیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی طرف مائل نظر آ رہی ہے۔ ایک سیاسی رہنما کی طرف سے بھارت کی حمایت والے بیان میں ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر بھارت کو پاکستان کے خلاف نیا ایندھن دیا ہے۔ انہوں نے کلبھوشن یادیو کا کردار بے نقاب کرنے کے بجائے بھارت یاترا کر کےمخالفین کے بھارت سےان کی محبت اور کاروبار پر انکشافات کے مثبت ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ اقتدار کیلئے ملک کو دائو پر لگانے کا یہ عمل افسوسناک اور سیاسی تاریخ میں کلنک کے مترادف ہے۔ ادھر سندھ میں بھی نیب نے اب بھرپور تیاری کر کے بدعنوانوں کو پکڑنے کی بساط بچھا دی ہے۔ پی ٹی آئی نے وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے ہیں اور پہلے سو (100) دن کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ایم ایم اے ملک بھر میں نئی منصوبہ بندی کر کے نشستیں جیتنے کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔ کچھ اور حقیقتیں آشکار ہو رہی ہیں۔ ن لیگ، پی پی پی، پی ٹی آئی سب کے افراد وفاداریاں بدل رہے ہیں۔ ن لیگ کے قائد کی جارحانہ سیاست انہیں بند گلی میں لے آئی اور اس کا انجام ان کی گرفتاری تک پہنچ گیا۔ سیاست کے اس وقت جو انداز ہیں وہ ملک میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے والے ہیں۔ پی ٹی آئی، ایم ایم اے، ن لیگ، پی پی پی سب کی سیاست ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہے۔ پنجاب میں ن لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی میں معرکہ ہے ۔ ق لیگ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ کے پی کے میں دو بڑے واقعات کے باوجود اے این پی مضبوط ہے۔ سندھ میں شہری علاقوں میں ایم کیوایم کا پلڑہ بھاری لگ رہا ہےہے جبکہ پی ایس پی عوام میں کوئی تاثّر قائم نہیں کر سکی لیکن کراچی سے شہباز شریف، عمران خان، مصطفیٰ کمال، آفاق احمد، سلیم حیدر ایم کیوایم کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان عمل میں ہیں ، پی ٹی آئی اور پی پی پی مدّمقابل ہیں ۔ اس الیکشن میں عوامی شعور بھی قابل دید ہے جس سے ایک اچھے اور مثبت الیکٹرول کالج کی امیدیں ہو چلی ہیں جو ملک کیلئے خوش آئند ہے۔