جگر اور اُس کی بیماریاں...

August 05, 2018

ڈاکٹر فیّاض احمد

انسانی جسم کئی اعضاء سے مل کر تشکیل پاتا ہے اورہرعضو ہی اپنے افعال کے اعتبار سے خاص اہمیت کاحامل ہے۔ان ہی میں ایک اہم اور نازک عضو جگر ہے،جو پسلیوں کے نیچے دائیں جانب بالائی حصّے میں واقع ہے۔ اس کے دو حصّے ہیں، جنھیں طبّی اصطلاح میں لوبیولز(Lobules)کہتے ہیں۔ ہر لوبیول آٹھ سیگمنٹس پر مشتمل ہوتا ہے، جو لاکھوں چھوٹے چھوٹے لوبیولز سے مل کر بنتا ہے اور ہر لوبیولز چھےپورٹل وینز(portal veins ) اور چھے آرٹیریز پر مشتمل ہے۔ جگرکےذمّے کئی کام ہیں۔مثلاًمختلف قسم کے لحمیات اور خون جمانے والے مادّے بنانا،اہم اجزاء ذخیرہ کرنا ،بائل کے ذریعے ہاضمے میں مدد دینا اورآنتوں کے ذریعے فاسد مادّوں کااخراج وغیرہ۔نیز، جگر انسولین کی تیاری میںبھی اہم کردار ادا کرتا ہے،جو بچّوں کی نشوونما میں مدد فراہم کرتی ہے۔

بلاشبہ جگر جسم میں بہت اہم افعال انجام دیتا ہے،اسی لیے اس کاخیال رکھنا بھی بےحدضروری ہےکہ اگر اس کے افعال میں توازن برقرار نہ رہے، توجگر کو کوئی نہ کوئی عارضہ لاحق ہوجاتا ہے، جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ جگرکے افعال میں توازن کے بگاڑ کی کئی وجوہ ہیںمثلاً ادویہ کا زائد استعمال،وائرس یا بیکڑیا کا حملہ،جگر کا سکڑ جانا، جگر کا سرطان، غیر متوازن طرزِ زندگی، قوّتِ مدافعت کی کم زوری اور الکوحل کا استعمال وغیرہ۔جب کہ موروثی اثرات بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پینتیس ملین افراد جگر کے امراض کی وجہ سے انتقال کرجاتے ہیں۔اسی لیےدنیا بَھر میں جگر کی بیماری، بڑی بیماریوں میں پانچویں نمبر پر شمار کی جاتی ہے۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے ،تویہاں بھی جگر کے کئی عوارض، خاص طور پر جگر کا سکڑنا اور ہیپاٹائٹس بی اور سی عام ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہیپاٹائٹس سی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر دوسرا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق جگر کی ایک سو سے زائد بیماریاں ہیں، جنھیںدو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ایک گروپ میں جگر کی کرونک ڈیزیز( دائمی امراض) ،جب کہ دوسرے گروپ میں ایکیوٹ ڈیزیز(حادثاتی/جلد شدّت اختیار کرنے والی بیماریاں) شامل ہیں۔

جگر کی ایک عام بیماری یرقان ہے،جسے پیلیا بھی کہا جاتا ہے۔اس کی واضح علامت آنکھوں کا ہلکا زردی مائل ہوجانا ہے،جب کہ پیشاب، پاخانہ اور جسم بھی پیلا ہوسکتا ہے۔اصل میںہمارے خون میں پائے جانے والے سُرخ ذرّات قدرتی طور پر پھٹ کر ختم ہوجاتے ہیں اور ان سے نکلنے والا مواد،جو طبّی اصطلاح میں ’’BILIRUBIN‘‘ کہلاتا ہے،جگر اِسے صاف کرکے پتّے کے ذریعے خارج کردیتاہے۔لیکن اگر کسی وجہ سے یہ مواد خارج نہ ہوسکے یا زائد مقدار میں بننے لگے،تو یرقان لاحق ہوجاتا ہے۔

نومولودمیں جبBILIRUBIN کی مقدار پانچ ملی گرام سے بڑھ جائے،تو یرقان کی علامات ظاہر ہونے کے ساتھ بعض کیسز میں دماغ بھی ناکارہ ہو جاتا ہے۔تلّی کا بڑھ جانا بھی جگر ہی کا ایک عارضہ ہے۔اس عارضےمیں تلّی تک خون کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہونے کے سبب پلیٹ لیٹس کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جگر کی بیماری میں تھکاوٹ بھی شامل ہے ،جس کی عام علامات میں بے چینی، ٹانگوںکی سُوجن، بُلند فشارِ خون، انفیکشن، جسم پر سُرخ یا نیلے دھبّے نموادر ہونا اور بھوک کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔

شعبۂ طب میں جگر کے عوارض ،ان کی گروپ بندی اور جسم پران کےاثرات جانچنےکے لیے کئی مستند ٹیسٹ متعارف کروائے گئے ہیں۔ جیسے لیور فنکشن ٹیسٹ(Liver function tests) کے ذریعے جگر کے افعال کے بارے میں تفصیلاً جانا جا سکتا ہے۔ اسی طرح پروٹین کے بارے میں جاننےکے لیے پروٹین پروفائل ٹیسٹ اور خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد معلوم کرنے کے لیے مکمل بلڈ کائونٹ ٹیسٹ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔اگر جگر کے عوارض کے علاج معالجے کی بات کی جائے، توماضی کی نسبت اب کئی مؤثرطریقۂ علاج مستعمل ہیں۔

علاوہ ازیں، تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جگر کے مرض پر قابو پانے کے لیےدوا کے ساتھ بعض پھلوں کا استعمال بھی بے حدمفید ثابت ہوتا ہے۔ جیسے جگر میں موجود ٹاکسن کی زائد مقدار کنٹرول کرنے کے لیے روزانہ انگور، سیب، اسٹرابیری، کیلے اور انارپر مشتمل فروٹ چاٹ استعمال کی جائے،یا چقندر، کیلے، سیب، انار اور نارنگی کے مکس جوس کا ایک گلاس روزانہ پیا جائے، تو جگر کی صفائی بھی ہوتی ہے اورقوتِ مدافعت میں اضافےکے ساتھ کئی عوارض سےبھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

(مضمون نگار،بارکر فارمیسی، لندن میں خدمات انجام دے رہے ہیں)