رنگ بکھیرتے ’’میلے‘‘صدیوں کی ثقافت کے امین

August 01, 2018

شازیہ خان

انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ تنہا نہیں رہ سکتا، اسےتنہائی اور ویرانی کا عالم تھوڑے وقت کے لیے تو ضرور اچھا لگ سکتا ہے، لیکن ایک حد کے بعد تنہائی اور ویرانی کا احساس اکتاہٹ پیدا کردیتا ہے جو ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے اِسی تنہائی کے عذاب سے بچنے کے لیے کئی راستے ڈھونڈے۔ اس جستجومیں انسان نے مذہبی تہوار منانے اور میلے سجانے کی خوب صورت اور دل لبھانے والی روایتوں کی بنیاد ڈالی۔ آج تک سجنے والے میلے حقیقتاً صدیوں سے انسانی جستجوکا صلہ ہیں۔میلوں کی جہاں اپنی ایک الگ تاریخ ہے ،وہیں ان کا اپنا مخصوص سحر بھی ہے۔ دنیا سمیت جنوبی ایشیاء کے دیہات، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں صدیوں سے میلے تفریح فراہم کرتے چلے آرہے ہیں۔ سندھ میں درگاہوں اور آستانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اور اِن درگاہوں اور آستانوں پر سجنے والے میلوں ملاکھڑوں سے دیہات اور چھوٹے شہروں کے لوگ کافی لطف اٹھاتے ہیں۔

’قدیم لوگ میلے، محفلیں اور جلسے کرتے تھے جن میں ہر عمرکے افراد کے لیے تفریح کا سامان ہوتا تھا۔ کچھ لوگ اپنے ہنر سے پیسے کمانے کے لیے ان میلوں کا رخ کرتے تھے۔ شاعر اپنی شاعری سُنانے کے لیے آتے، کچھ تیر اندازی میںمہارت کے جوہردکھاتے، تو کچھ گھوڑوں کی دوڑ پر شرطیں لگانے آتے۔ یہ میلے ساری ساری رات چلتے،دکان دار، لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ، اپنی دکانوں کو زیادہ سے خوب صورت اور پُرکشش بنانے کے نت نئے طریقے سوچتے ،یوں وقت کے ساتھ میلوں میں زیادہ جاذبیت پیدا ہونے لگی، ان کی وسعت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا، یہی وجہ تھی کہ میلوں میں کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ تھیٹر تماشا، مقامی فن کاراور مختلف قسم کی پہلوانیاں اور ہُنر دکھلانے والے زیادہ شرکت کرنے لگے۔

گاؤں کی زندگی کا منظرنامہ زیادہ وسیع نہیں ہوتا، گاؤں والوں کا دائرہ گھر کے چھوٹے سے آنگن اور کھیت کھلیانوں تک ہی محدود ہوتا ہے۔ وہ ہر موسم اِن پگڈنڈیوں پر چل کر گزار دیتے ہیں۔ فطرت کے مناظر بہت اچھے ہوتے ہیں، فجر کے وقت اُٹھنا، تپتی دوپہروں میں کام کاج کے بعد کسی کیکر کے درخت کی ٹھنڈی گھنی چھاؤں کے نیچے سونا، فطرت سے اتنی قربت بھلا کس کو پسند نہ ہوگی؟ لیکن برس کے 365 دن اگر ایک ہی ڈگر پر چل چل کر گزر جائیں تو زندگی دل ہی دل میں بیزاری کا شکوہ کرتی ہے اور ہر چہار سو ہر رنگ پھیکا پھیکا سا لگنے لگتا ہے، اِس لیے ایسا لینڈ اسکیپ، جہاں تفریح کی پود نہیں اُگتی وہاں برس میں ایک بار کچھ دنوں کے لیے میلے کا لگنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

’ ’سندھ گزیٹیئر‘‘ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے میلے بھی انتہائی دل چسپ ہوتے تھے۔ ہاتھ کے ہُنر مندوں کی بنائی ہوئی چیزوں کو فروغ دلوانے کے لیے 1869ء میں کراچی میں سرکار کی طرف سے میلے کے طرز کی صنعتی نمائش کا انعقاد کیا گیا، جس میں عمدہ اور محنتی کاریگروں کو انعامات دئیے گئے۔وادیٔ مہران آج بھی میلوں کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ اب ان کے انعقاد میں بھی کمی آگئی ہے۔ پہلے زمانے میںیہاں ہر ضلعے میں ہر برس میلے لگتے ، جیسے ہالا میں 22 سے زائد میلے لگتے ، جن میں کچھ سال میں دو بار بھی لگائے جاتے ، اِن میلوں میں ایک لاکھ سے بھی زائد افراد شرکت کرتے ۔ اِن میں سب سے بڑا میلہ ’’اُڈیرو لال‘ ‘کا لگتاتھا ،جہاں 35 ہزار سے زائد لوگ شرکت کرتے تھے۔ روہڑی میں بھی آٹھ بڑے میلوں کا ذکر ملتا ہے،ان میں سب سے بڑا میلہ ’’خواجہ خضر‘ ‘ کا تھا، جو ایک برس میں دو بار لگتا، ایک سال میں پہلی بار لگنے والا میلہ 9 دنوں تک چلتا اور دوسری بار لگنے والا 3 دن تک چلتا تھا ، اُس میلے میں 30 ہزار سے زائد لوگ آتے۔’ ’شاہ بندر‘ ‘میں 7 سے زائد بڑے میلے لگتے،’ ’ننگر ٹھٹھہ‘‘ کی طرف 20 میلے لگتے تھے۔ بدین اورٹنڈو محمد خان کی طرف 9 بڑے میلوں کا ذکر ملتا ہے، جن میں’ ’بلڑی شاہ کریم‘ ‘ کے میلے میں 20 ہزار سے زائد معتقدین شرکت کرتے تھے۔ ان میلوں میں کاروبار ہوتا تھا، اس کے متعلق سندھ گزیٹیئر میں تحریر ہے کہ اِن میلوں میں قیمتی پتھروں، کپڑوں، ریشم، تانبے کے برتنوں اور جانوروں کی خوب خرید و فروخت ہوتی ۔ان میلوں سے اتنا کاروبار ہوتا تھا، کہ لوگ سالہا سال اپنی بچیوں کے جہیز کا بندوبست کرنے کے لیے میلوں کا انتظار کرتے تھے، تاکہ ا ن سے ہونے والی کمائی سے جہیز جمع کر سکیں۔ میلوں میں دُور دراز علاقوں اور شہروں سے خریدار آتے، خریدار کا فائدہ یہ ہوتا کہ اُس کے سامنے ایک وسیع بازار ہوتا وہ جو چاہتا وہ خریدسکتا تھا ،جب کہ بیچنے والے کے لیے بھی مخصوص مارکیٹ کی لکیر نہیں ہوتی تھی، اور وہ بڑے آرام سے معقول رقم میں اپنی چیز بیچ دیتا تھا۔یہ تھا سندھ میں لگنے والے میلوں کا سرسری جائزہ۔بدین میں لگنے والا ’’گیارہویں شریف‘ ‘کا میلہ سندھ کے مشہور میلوں میں سے ایک تھا۔

یہ میلہ 1569ء سے لگنا شروع ہوا اور اتفاق دیکھیے کہ آخری میلہ تقریباً1969ء میں ہی لگا۔ جو آخری چند میلے لگے، اُن میں بھی 50 ہزار سے زائد لوگ آیا کرتے تھے،گاؤں میں پورا سال اس میلے کا انتظار کیا جاتا تھا، پھر جیسے ہی میلے کے دن قریب آتے اُس کی آمد کی خوشی کسی خوشبو کی طرح پھیل جاتی، بلکہ دور دراز چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی میلے کی تیاری شروع ہوجاتی۔میلوں کی وجہ سےچھوٹےشہر یا گاؤںکی گلیاں ہر وقت لوگوں سے بھری رہتیں۔ یہ چہل پہل سب کوبھاتی تھی، بدین کا یہ میلہ تقریباً دس دن چلتا۔ سرکس والوں کے لاؤڈ اسپیکروں کا شور شہر کی فضاؤں میں گونجتا، تو میلے میں جیسے جان پڑجاتی،رنگ برنگی کاغذی جھالروں کی سجاوٹ ہر دکان کی زینت ہوتی،مٹھائی کی دکانوں کے درمیان تو جیسے سجاوٹ کا مقابلہ ہوتا، چڑیا گھر میں سے آئے ہوئے مختلف جانوروں کی جھلک دیکھنے کے لیے بچے بے چین رہتے۔ اُس میلے میں جہاں سرکس میں آئے ہوئے ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی دیتی وہاں لوگوں سے ہاتھی کے تیز حافظے کا ذکر بھی سننے کو ملتا، بڑے بزرگ بتاتے کہ ہاتھی سے اگر کچھ بُرا کرو تو وہ کبھی نہیں بھولتا، اس برس نہیں تو اگلے برس ،وہ اُس آدمی کو پہچان لیتا ہے اور اپنا بدلہ لے لیتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جن سے محبت ہو اُن سے ایک سلسلہ جڑ جاتا ہے، میلے بھی ایسے ہی سلسلوں کا نام ہیں ،جو سندھ دھرتی کی پہچان اور اس خطے میں جگہ جگہ لگتے ہیں۔ یہ اپنے علاقے کی ثقافت کا ایک رنگین اور قدیم عکس پیش کرتے ہیں، لیکن اب ان کے انعقاد میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ہے، نہ صرف شہروں میں بلکہ دیہات میں بھی اب ان کا انعقاد کم ہوتا ہے۔ بہر حال اب بھی ہمارے میلوں میں روایتی ،جوش و خروش، ثقافت کے رنگ جھلکتے ہیں۔ان میلوں کو اس لیے بھی ختم نہیں ہونا چاہیے، کیوںکہ یہ ہمارے ان دیکھے رشتوں، محبتوں اور پیار کے امین ہیں۔