سندھ اسمبلی: پیپلز پارٹی کو 2013 کے مقابلے میں زیادہ نشستیں کیسے ملیں؟

August 02, 2018

الیکشن کے نتائج کے خلاف تقریباً تمام سیاسی جماعتیں سراپااحتجاج ہیںملک کی دو بڑی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) سمیت ایم ایم اے ، جی ڈی اے، تحریک لبیک، ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے دھاندلی کے الزامات عائد کئے ہیں اور نتائج کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی صوبے کے گورنرنے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے گورنرسندھ محمدزبیر نے الیکشن کے نتائج کو دھاندلی قراردیتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔گرچہ سندھ میں پی پی پی کو 2013 کی نسبت زیادہ نشستوں پر کامیابی ملی تاہم پی پی پی نے بھی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفٰی ہونے کا مطالبہ کیا ہے سندھ سمیت کراچی کے نتائج کو غیرجانبدار حلقے غیرمتوقع قرار دے رہے ہیں انتخابات سے قبل کراچی سے پی ٹی آئی کو کامیابی کی امید تو تھی تاہم پی ٹی آئی سوئپ کرے گی اس کا اندازہ نہیں تھا انتخابی نتائج کے مطابق کراچی کی 21 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے پی ٹی آئی نے 14 ، پی پی پی نے تین اور ایم کیو ایم نے 4 نشستیں حاصل کیں ایم کیو ایم ماضی میں کراچی کی 20 نشستوں میں سے 17 نشستیں حاصل کرتی تھی تاہم 2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو صرف کراچی سے 13 نشستوں کا خسارہ ہوا جبکہ حیدرآباد میں بھی ایک نشست کھوبیٹھی ایم کیو ایم کے ووٹوں میں صرف حیدرآباد میں 13 لاکھ 47 ہزار ووٹوں کی کمی آئی ۔

حیدرآباد میں پی پی پی سب سےبڑی جماعت بن کر ابھری دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی رہی تاہم وہ کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی ایم کیو ایم تیسرے نمبر پرر ہی کراچی میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری متحدہ قومی موومنٹ اپنے گڑھ عزیزآباد سے جہاں ماضی میں ایم کیوایم کا مرکز تھا نشست ہارگئی تو پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو ان کے گڑھ لیاری سے پیٹی آئی کے شکور شاد نے شکست سے دوچار کیا شکور شادپی ٹی آئی میں آنے سے قبل پی پی پی کا کارکن تھا تاہم مسلسل نظرانداز کئے جانے اور لیاری کے مسائل حل نہ کئے جانے کے سبب انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی 2018 کے انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی جبکہ مہاجرقومی موومنٹ اور اے این پی بھی بری طرح ناکام رہی اور انہیں بھی کسی نشست پر کامیابی نہیں ملی تحریک لبیک کراچی کی بڑی مذہبی جماعت بن کر ابھری اور نوزائیدہ پارٹی نے کراچی سمیت حیدرآباد میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تحریک لبیک نےصرف کراچی سے سات لاکھ 30 ہزار ووٹ سمیٹے اور پی پی پی کے گڑھ لیاری سے ایک نشست حاصل کی جبکہ مجموعی طور پر تحریک لبیک نے سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر کراچی سے کامیابی سمیٹی تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود متحدہ مجلس عمل کراچی سے صرف ایک صوبائی نشست حاصل کرسکی کراچی کے قومی اسمبلی کے انتخابی معرکے میں تحریک انصاف جہاں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بنی وہیں پاک سرزمین پارٹی نے سب سے کم ووٹ لیے، تحریک لبیک قومی اسمبلی کی کوئی سیٹ توحاصل نہ کرسکی مگر ووٹکے اعتبار سے کراچی میں تیسری بڑی قوت بن کر سامنے آئی، پیپلزپارٹی کا نمبر بھی چوتھا ہے۔

عام انتخابات 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کراچی کی 21 قومی اسمبلی کی نشستوں پر مجموعی طور پر 10 لاکھ 57 ہزار 2ووٹ لے کر شہر کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے امیدواروں نے 6 لاکھ 20 ہزار 103 ووٹ حاصل کئے پہلی مرتبہ انتخابات میںحصہ لینے والی تحریک لبیک قومی اسمبلی کی کوئی نشست تو حاصل نہ کرسکی مگر اسے ملنے والے ووٹوں نے تمام جماعتوں کو حیران کردیا ہے۔ ٹی ایل پی کے امیدواروں نے 3 لاکھ 78 ہزار 375 ووٹ حاصل کئے اس کے مقابلے میں پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 3 نشستیں حاصل کیں مگر تیر کے نشان پر لڑنے والے امیدواروں کو مجموعی طور پر 3لاکھ 70 ہزار 820 ووٹ ملے جو تحریک لبیک کے ووٹ کے مقابلے میں 7 ہزار 555 کم ہیں۔

اس طرح ماضی میں کراچی کی دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی کا نمبر ووٹ کے اعتبار سے چوتھا ہوگیا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے بھی کراچی سے قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کی مگر اس کے امیدواروں کو بھی مجموعی طور پر 3 لاکھ 10 ہزار 89 ووٹ ملے ہیں۔ اسی طرح ن لیگ کو بھی کراچی سے قومی اور سندھ اسمبلی کی کوئی نشست نہیں مل سکی اور اس کے امیدواروں کی تعداد بھی کم تھی اس کے باوجود ن لیگ کے امیدوار مجموعی طور پر 2 لاکھ 61 ہزار 175 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پاک سرزمین پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ووٹ کے لحاظ مقبولیت کا گراف کم رہا بلکہ اے این پی سیاسی لحاظ سے پہلے سے کمزور پوزیشن میں دکھائی دی، عام انتخابات میں پی ایس پی نے 99 ہزار 746 جبکہ اے این پی نے 21831 ووٹ حاصل کئے۔ سندھ اسمبلی کی 43 نشستوں پر حق رائے دہی کے نمبرز کاجائزہ لیا جائے تو فہرست میں توکوئی ردوبدل نہیں ہوا مگردونوں ایوانوں کے ووٹ کی تعداد میں تبدیلی نظرآتی ہے۔

تحریک انصاف کے سندھ اسمبلی کے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی نسبت 1لاکھ60 ہزار 779 ووٹ کی کمی سے 8 لاکھ 44 ہزار923 ووٹ حاصل کئے۔ایم کیو ایم پاکستان نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر 3 لاکھ 29 ہزار 894 ووٹ ملے جو قومی اسمبلی کی نسبت 49 ہزار 926 ووٹ کم ہیں۔ تحریک لبیک کے امیدواروں نے سندھ اسمبلی کی نشستوں پر 3لاکھ 81 ہزار 639 ووٹ حاصل کئے جو قومی اسمبلی کے حاصل ووٹ کی نسبت 3 ہزار 264 ووٹ زیادہ ہیں۔ اسی طرح ایم ایم اے نے بھی سندھ اسمبلی کی نشستوں پر قومی اسمبلی کی سیٹوں کی نسبت 5 ہزار 684 اضافے سے 3 لاکھ 15 ہزار 773 ووٹ حاصل کئے۔ ن لیگ کے ووٹوں کی تعداد قومی کے مقابلے میں سندھ اسمبلی کی نشستوں پر کم ہوگئی ، صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر شیر کے نشان کو 48 ہزار 71 ووٹ کی کمی سے 2 لاکھ13 ہزار 104 ووٹ ملے ۔ قومی اسمبلی کے بڑے کینوس کی نسبت سندھ اسمبلی کی نشستوں پر پی ایس پی نے 59 ہزار 917 اور اے این پی نے 12 ہزار 959 ووٹ زیادہ حاصل کئے ۔

پی ایس پی کے صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو 1 لاکھ 59 ہزار 663 جبکہ اے این پی کو 34 ہزار 790 ووٹ ملے ہیں۔کراچی کی قومی اسمبلی کی 21 نشستوںمیں سے 16 نشستوں پر جماعت اسلامی دو دو نشستوں پر جے یو آئی اور جے یو پی جبکہ ایک نشست پر تحریک اسلامی کے امیدوار نےحصہ لیا متحدہ مجلس عمل کی ناکامی کی بڑی وجہ جہاں ایک جانب تاخیر سے امیدواروں کے ناموں کے اعلان کو قراردیا جارہا ہے وہاں اس اتحاد کے دوبڑی جماعتوں جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اس اتحاد کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا کہاجارہاہے کہ دونوں طرف کے کارکنوں نے ایک دوسرے کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیئے جماعت اسلامی کے کارکن خصوصاًاس اتحاد سے خوش نہیں تھے اور انہوں نے بڑی تعداد میں اپنی جماعت کے بجائے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دیئے ۔ انتخابات کے نتائج کے بعد کئی امیدواروں نےدوبارہ گنتی کی درخواست دی ہے انتخابی نتائج سے تحریک انصاف اور بلوچستان میں نئی بننے والی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے علاوہ کوئی جماعت مطمئن نہیں اور ریلیوں اور مظاہروں کاسلسلہ جاری ہے۔