ملک امداد سے نہیں چلتے

August 03, 2018

سرد جنگ کے دوران روس کی قیادت کرنے والے سیاسی مدبر،نکیتا خروشیف نے سیاسی وعدوں کی حقیقت طشت ازبام کرتے ہوئے کہا تھا،دنیا بھر کے سیاستدان ایک جیسے ہوتے ہیں، یہ وہاں بھی پُل بنانے کا وعدہ کر لیتے ہیں جہاں دریا ہی نہیں ہوتا۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ نیاپاکستان بھی اسی نوعیت کے وعدوں پر استوار کیا گیا ہے ۔میری صدق دل اور خلوصِ نیت سے یہ خواہش ہے کہ عمران خان کو ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا جو موقع ملا ہے ،اسے روایتی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے کیونکہ مجبور و مقہور لوگ برسہا برس سے کسی ایسے مسیحا کی راہ تک رہے ہیں جو اس ظالمانہ نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھے جہاں حیات جرم نہ ہو ،زندگی وبال نہ ہو ۔اگر یہ موقع ضائع ہو گیا تو پھر مایوسی اور ناامیدی کے اندھیرے مزید بڑھ جائیں گے ۔اس بار بھی خواب محض سراب ثابت ہوئے تو لوگ مستقبل سے بددل ہو جائیں گے ۔اس تکلیف دہ صورتحال سے بچنے کے لئےضروری ہے کہ ’’بڑے بول‘‘ سے گریز کیا جائے اورحقیقت پسندانہ اہداف کا انتخاب کیا جائے ۔یوں تو انتخابی مہم کے دوران آسمان سے تارے توڑ لانے کے وعدے کم و بیش سب نے کئےمگر تحریک انصاف کے ہیرو اور کپتان کے من پسند نوجوان مراد سعید نے تواپنے کمال ِفن سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ۔سوات کے انتخابی جلسے میں کی گئی تقریر ،جس کا کلپ سوشل میڈیا پر دستیاب ہے ،میں کپتان کے اوصاف و محاسن بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’جس دن عمران خان وزیراعظم کا حلف اٹھائے گا ،اس سے اگلے روز پاکستان کا وہ 200ارب ڈالر واپس لیکر آئے گا جو بیرون ملک پڑا ہوا ہے ۔پاکستان کا غیر ملکی قرضہ کتنا ہے؟ 100ارب ڈالر ،پہلے دن کپتان 100ارب ڈالر دنیا کے منہ پر دے مارے گا اور 100ارب ڈالر آپ پر خرچ کرے گا ۔اگلے دن جب عمران خان دفتر جائیں گے تو سب کی فائلیں منگوائیں گے اور حساب کتاب شروع ،یہ نہیں کہ منی ٹریل ،سپریم کورٹ جائو، ہائیکورٹ جائو ،یہ لمبی کہانی نہیں چاہئے ،بس یہ بتائو کہ تمہاری تنخواہ اتنی تھی تو یہ باقی پیسہ کہاں سے آیا ؟نہیں بتایا ،لٹکائو ان کو ۔‘‘اسی جوش خطابت میں مراد سعید فرماتے ہیں کہ عمران خان حکومت میں آنے کے بعد پہلے مہینے ہی ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دے گا یا پھر ان کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے گا ۔سرمایہ کاری سے متعلق تحریک انصاف کی پالیسی مترشح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کپتان نمل اور شوکت خانم کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تو کروڑوں روپے اکٹھے ہو جاتے ہیں جب لوگوں کو پتہ ہو گا کہ عمران خان وزیراعظم ہے تو خودبخود سرمایہ کاری آئے گی ۔البتہ جب انتخابی نتائج کے بعد آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میں بھی بیل آئوٹ پیکیج کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا تاکہ ملک چلانے کے لئے وہ چند ملین ڈالر ہمیں عنایت کر دے۔ مدینہ کی ریاست بنانے کے لئے بدستور کشکول لیکریہودی ساہوکاروں سے قرض کی بھیک مانگنا پڑے گی۔غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لئے کئی پاپڑ بیلنا پڑیں گے ۔
ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی مہم کے دوران ستاروں پرکمند ڈالنے کے دعوے کرنا ہرگز اچنبھے کی بات نہیں ۔یادش بخیر ،میاں شہبازشریف نے 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران 90 دن سے 6ماہ کے دوران لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن حکومت سازی کے بعد میاں نوازشریف نے معقولیت سے کام لیتے ہوئے اسے ’’جوش خطابت‘‘ قرار دیا اور کسی مدت کا اعلان کئے بغیر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار دھواں دار تقریروں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے اور سنہری خواب دکھاتے ہیں لیکن جونہی اقتدار ملتا ہے ،رونے دھونے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔کبھی عذر پیش کیا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے تو کبھی تاویل دی جاتی ہے کہ عشروں کے بگڑے ہوئے حالات مہینوں میں درست نہیں کئے جا سکتے ۔گاہے یہ جواب بھی ملتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی الہ دین کا چراغ تھوڑی ہے کہ پلک جھپکنے میں سب کام ہو جائیں ۔یہ معاملہ انتخابی وعدوں تک محدود رہتا تو الگ بات تھی کہ تحریک انصاف کے منشور میں بھی ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ بے گھروں کو چھت مہیا کرنے جیسی باتیں موجود ہیں لیکن مصاحبین ِعمران ایوان اقتدار کی دہلیز پر کھڑے ہو کر بھی اسی نوعیت کے سبز باغ دکھائے چلے جا رہے ہیں اور ان کی باتیں سن کر یوں لگتا ہے جیسے عمران خان کے پاس واقعی کوئی الٰہ دین کا چراغ یا پھر جنات کی فوج ظفر موج ہے جس سے شب بھر میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔مثال کے طور پر کپتان کے ایک ممدوح ،جو ہمارے بہت اچھے دوست بھی ہیں ، نے کپتان کی کرشماتی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب نے کرکٹ ٹیم بنانے کے لئے کپتان کو 20ارب ڈالردینے کی پیشکش کی ۔ایک دوست نے اس حوالے استفسار کیا تو کپتان نے بتایا کہ ایسی ہی ایک پیشکش اس سے قبل سلطان آف برونائی بھی کر چکے ہیں اور میں نے یہ آفرز اس لئے ٹھکرا دیں کہ میں اپنے ملک کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں ۔یہ مبالغہ آمیز واقعات بتانے کا مقصد شاید یہ ہے کہ پیسہ اکٹھا کرنا کپتان کے لئے بائیںہاتھ کا کھیل ہے ۔یہ سادہ مزاج لوگ اس حقیقت سے بے خبر معلوم ہوتے ہیں کہ خیرات یا چندے سے کوئی فلاحی ادارہ بنانا یا چلانا بہت بڑی سماجی خدمت سہی مگر اس کا موازنہ ملک چلانے سے نہیں کیا جا سکتا۔
شوکت خانم لاہور اسپتال ہو ،نمل یونیورسٹی یا پھر پشاور کا شوکت خانم اسپتال،ان فلاحی منصوبوں کی زیادہ سے زیادہ لاگت 4ارب روپے ہے جبکہ پاکستان کا سالانہ بجٹ 59کھرب 32ارب روپے ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شوکت خانم کی طرح چندے کی رقم سے اس ملک کو بھی چلایا جا سکتا ہے تو اس کی کم عقلی پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان نے اپنی فاتحانہ تقریر میں بھارت سے بہتر تعلقات کی خواہش ظاہر کی اور پھر جب بھارتی وزیراعظم مودی نے مبارکباد دینے کے لئے ٹیلیفون کیا تو انہوں نے بھی خوشگوار تعلقات کا ایک نیا باب شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔اب بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے نئے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں مودی کو مدعو کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جگت بازی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا ہے ۔یہ طعنہ زنی تو ہو گی مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت کیساتھ اچھے تعلقات کی خواہش اور کوشش کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ مودی کے یار ہیں۔ہاں البتہ عمران خان نے گزشتہ پانچ برس کے دوران جوش خطابت میں جو باتیں کہیں ان سے ایک ہی مرتبہ رجوع کر لیں تو بہتر ہوگا ورنہ جگت بازی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)