ریاست ہوگی ماں کے جیسی

August 08, 2018

سابق فوجی آمر،پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے دوران ممتاز سیاست داں اوروکیل اعتزاز احسن کی آزادنظم بہت مشہور ہوئی تھی،جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا:ریاست ہو گی ماں کے جیسی،ہر شہری سے پیار کرے گی۔پاکستان کےباسی دہائیوں سےایسی باتیں اور وعدے سنتے چلے آئےہیں۔لیکن وہ ہر بار اپنی مجبوریوں اور ناسمجھی کی وجہ سے ایسے وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔اب تحریکِ انصاف کے سربراہ اورمتوقع نئے وزیرِ اعظم،عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانےکی کوشش کریں گے۔یہ تو وقت بتائے گا کہ انہوں نے اپنا وعدہ کس حد تک پورا کیا،لیکن سماجیات و سیاسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی ملک کی تقدیر اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک اس ملک میں رہنے والے بہ حیثیت قوم سوچنا اور منظّم ہونا شروع نہیں کرتے۔لہذا اس فلسفے کی رُوسے نیا پاکستان یا فلاحی ریاست بنانے کے لیے پہلے’’قوم‘‘ کی تشکیل ضروری ہے،جوآسان کام نہیں، کیوں کہ ہم آج تک ’’قوم‘‘ نہیں بن سکے ہیں۔

قوموں کی زندگی میں بڑے اور تاریخی واقعات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،کیوں کہ ان واقعات سے قوموں کے مستقبل وابستہ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ واقعات تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں اور کبھی قوموں کی فتح یا شکست کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس سفر میں اگر ہم اپنی تاریخی روایات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں تو بھنور میں گر جاتے ہیں، اور غرقابی ہمارا مقدّر بن جاتی ہے۔زندہ قومیں امتحانات سے گزرتی رہتی ہیں،لیکن تاریخ کے صفحات میں زندہ رہنے والی قومیں امتحان سے گزرتی ہیں تو منزلیں ان کے سامنے واضح ہوتی ہیں۔تاہم ہم آج بھی منزل کے متلاشی ہیں۔

قوموں کی زندگی میں ہر گزرنے والا لمحہ قیمتی ہوتا ہے ، مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب تک ہم شعوری طور پرزیادہ تر وقت برباد ہی کر تے رہے ہیں۔لہذا پاکستانی قوم کے ماتھےپر قومی سانحات کے زخم نمایاں نظر آ رہے ہیں ۔اکہتّر برسوں سے متعدد اہم قومی دن خاموشی سے گزر جاتے ہیں، لیکن کوئی آنکھ اشک بار نہیں ہوتی۔ اقتدار کے کھلاڑیوں نے پاکستانیوں کو تقسیم در تقسیم کے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔اس موقعے پر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک مرتبہ قوموں کے عروج وزوال کے قانون اور اس کے پسِ پردہ موجود فلسفے پر نظر ذال لیں۔

عروج و زوال کا قانون اورتاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دھرتی پر سدا ایک قوم کا اقتدار نہیں رہتا۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خدا نے حکومت واقتدارہمیشہ ایک رنگ، نسل، گروہ، خاندان یا قوم کے لیے مخصوص کردیا ہو۔ہردور میں اس دھرتی پر مختلف قومیں آباد رہی ہیں جن میں قوّت و حشمت کے لحاظ سے فرق رہا ہے۔ بعض قومیں معاصرین سے قوّت و اقتدار میں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے قُرب وجوار میں رہنے والی اقوام پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں۔ان کا یہ غلبہ اس قدر بڑھتا ہے کہ موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق وہ اپنے وقت کی سُپر پاور بن جاتی ہیں۔ کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اوراقوامِ عالم ان سے جان کی امان پاکر ہی اپنے معاملات چلاتی ہیں۔ تاہم ایک وقت کے بعد اس قوم کو زوال آتا ہے۔ سُپر پاور کی جگہ کسی اورسُپرپاور کے لیے خالی ہوجاتی ہے۔ ناواقف لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک یا ایک سے زیادہ ُسُپر پاو رز کاموجودہ معاملہ صرف آج شروع ہوا ہے۔یہ بات درست نہیں ہے۔یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب انسانوں نے گروہوں کی شکل میں رہنا شروع کیا تھا اور آج تک جاری ہے۔ مصری، ایرانی، یونانی، رومی ، عرب، ترک، یورپی، روسی اور اب امریکی اور چینی، سب اسی سلسلہ عروج وزوال کی کڑیاں ہیں۔

سُپر پاورز کے علاوہ دیگر اقوام بھی عروج وزوال کے اس عمل سے گزرتی ہیں ، مگر وہ تاریخِ عالم میں اس لیے زیادہ نمایاں حیثیت نہیں رکھتیں کہ ان قوموں کا عروج و زوال اپنے ظہور کے لیے بڑی حد تک سُپر پاورز ہی کا محتاج رہا ہے، ورنہ ہر قوم بہ ہرحال اپنی تاریخ رکھتی ہے جس میں اس کا ایک متعیّن آغاز ہوتا ہے۔ وہ ترقی کے مراحل طے کرتی ہے اور عروج کی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی مسندِ کمال پر براجمان ہوتی ہے۔پھر ایک وقت کے بعد زوال سے دوچار ہوجاتی ہے۔

قوموں کا یہ عروج وزوال تدریجی عمل کے بعد جنم لیتا ہے۔ یہ تدریجی عمل سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ واضح طورپر اس بات کا تعیّن کیا جائے کہ کسی قوم کو عروج و زوال کے عمل میں کن مراحل سے گزرنا ہوتا ہے؟نیز ان مراحل میں اس کا سامنا کس طرح کے حالات سے ہوتا ہے؟یہاں یہ واضح کرنا مناسب ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر قوم یک ساں طور پر ان تمام مراحل سے گزرے۔ایک تاریخی عمل میں اتنے زیادہ عوامل و محرّکات کام کررہے ہوتے ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ محرّکات حالات، زمانے اور لوگوں کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں ۔ اس لیے ایک تاریخی مرحلہ اپنی ظاہری ہیئت کے اعتبار سے ہر قوم میں مختلف انداز میں ظاہر ہوتا ہے۔بعض جگہ یہ بہت واضح ہوتا ہے اور بعض جگہ بہت مبہم۔ بعض اقوام میں یہ بہت طویل ہوتا ہے اور بعض میں بہت مختصر۔

اقوام کی زندگی اور انسانی معاشروں میں بعض معاملات کونمٹائے اور ہمیشہ کےلیےطے کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یہ بات سماجی امور کے معاملے میں بھی سچ ہے اور طبعی علوم ، فکری امور اور قومی وسیاسی بنیادوں کی بابت بھی درست ہے۔مسلّمات کا پایا جانا اقوام کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں اگر کہیں کوئی جھول پائے جانے کا امکان ہے تو وہ اس لیے کہ قوموں اور معاشروں میں جن باتوں پراتفاق کر لیا جاتا ہے ان میں سے کسی ایک کی بنیاد بسا اوقات کسی ٹھوس علمی ثبوت کے بغیر رکھ دی گئی ہوتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ بعض طبعی یا سماجی مسلّمات کبھی بہ یک وقت غلط بھی ثابت ہو جاتے ہیں اور قوم کی زندگی میں ایک بنی بنائی عمارت اس غلطی کی وجہ سے دھڑام سے گر جاتی ہے اور تب وہ ایک بڑے بحران میں گِھرجا تی ہے۔ مگر اس خطرے اور احتمال کے باوجود قوموں اورمعاشروں کی زندگی میں مسلّمات کے پائے جانے کی ضرورت اصولاً ختم نہیں ہو جاتی۔

عروج و زوال کے اس قانون کے بارے میںجو عا لمِ جمادات، نباتات،حیوانات اورعالمِ انسانیت میں یک ساں طور پر جاری و ساری ہے ، دوباتیں واضح رہنی چاہییں۔ اوّل یہ کہ یہ تدریجی شکل میں رونما ہوتا ہے ۔ دوم یہ کہ اسے تقویت اور ضعف دینے والے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے ۔دوسری ہر چیز کی طرح عروج و زوال کا قانون بھی اسباب کے پردے میں منصہ شہود پر جنم لیتاہے۔ ہر عروج کے پیچھے کچھ متعیّن اسباب ہوتے ہیں اور ہر زوال کی بہ ہر حال کچھ بنیادیں ہوتی ہیں۔ان اسباب و علل کا سلسلہ کسی بنا پر اگر متاثر ہوجائے تو واقعات اپنی رفتار اور ترتیب بدل لیا کرتے ہیں۔پھر موت بچپن میں بھی آجاتی ہے اور عالمِ پیری میں بھی اولاد ہوجایا کرتی ہے۔

عروج و زوال کے اس قانون سے ہم واقف ہوں یا نہیں ، اس کے پابند ضرور ہیں۔دوسری ہر شئے کی طرح وہ قوم بھی ، جس کے ہم فرد ہیں اور وہ معاشرہ جس کا ہم جزو ہیں، اسی راہ کے مسافر ہیں۔ایک قوم پر وہ سارے ادوار کم و بیش اسی طرح گزرتے ہیں جس طرح ایک انسان پر ۔جزئیات میں یقیناًفرق ہے ، مگر اصول میں یہ واقعہ قوم کی زندگی میں بھی لازما پیش آتا ہے۔عروج وزوال کے قانون کے ضمن میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی قوم کو اس قانون سے استثنی مل جائے ، مگر جو قومیں اس قانون اور اس کے پس پردہ کام کرنے والے اسباب و علل کو سمجھ لیتی ہیں ، وہ عروج کی منزلیں جلد اور زیادہ توانائی کے ساتھ طے کرتی ہیں۔ ان کے اقبال کا زمانہ طویل اورزوال کا دور ممکنہ حد تک دور ہوجاتا ہے۔

یہ قانون تدریجی طور پر قوموں میں اثر دکھاتا ہے ۔ کسی قوم کے عروج و زوال کا واقعہ ایک دن میں رونما نہیں ہوتا ، بلکہ اس دوران قوم مختلف مراحل سے گزرتی ہے ۔یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ وہ اس کے حالات کا مشاہدہ کرکے یہ بتائیں کہ قوم اس وقت کس مرحلےمیں ہے۔ یہ کام راہ نماؤں کا ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو جانیں اور اسی اعتبار سے قوم کے اہداف و مقاصد اور لائحہ عمل کا تعیّن کریں۔ مثال کے طور پر ایک بچے سے اس کے والدین یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ نکاح کرے اور ان کے آنگن میں مزید بچوں کی خوشیاں بکھیرے۔ اسی طرح کوئی شخص اپنا کاروبار اپنے ناسمجھ لڑکے کے حوالے نہیں کرتا،کیوں کہ اس طرح نقصان کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔تاہم قوم کے معاملے میں عاقبت نااندیش راہ نما ٹھیک اسی طرزِعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ قوم کے مرحلۂ حیات سے عدم واقفیت کی بنا پر اس کے سامنے ایسے مقاصد رکھ دیتے ہیں جو اس کی استعداد سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔اسی طرح قوموں کے عروج و زوال کی حقیقی بنیادوںسے ناواقف رہنماقوم کو لاحق امراض کی صحیح تشخیص کرپاتے ہیں اور نہ مناسب علاج۔ وہ بھرپور غذا دے پاتے ہیں اور نہ وقت پر دوا۔ اس کے بعد قوم کم زور ہوجاتی ہے ۔ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں ، مگر کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا۔مختصرا یہ کہ کسی قوم کو ترقّی کی راہ پر ڈالنے کے لیے اس کے حالات سے درست آگہی جتنی ضروری ہے ، اتنا ہی قوموں کے عروج وزوال کے بارے میں خدائی قانون کا گہرا شعور بھی لازمی ہے۔

قوموں کی زندگی کا پہلا مرحلہ تشکیل کا ہوتا ہے جس سے قبل وہ گم نامی کا شکار ہوتی ہیں۔انسانوں کی طرح قوم عدم سے وجود میں نہیں آتی۔ جدید قوم کے عناصرِ ترکیبی بہ ہرحال پہلے سے موجود ہوتے ہیں جو مختلف عوامل کے زیرِ اثر ایک قوم کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔قوموں کی تشکیل کا نقطۂ آغاز بالعموم جنگ و فتح اور پناہ و ہجرت کا کوئی واقعہ یا کوئی مذہبی و سیاسی عمل ہوتاہے۔اس کے بعد تاریخ کا دھارا اپنا کام کرنا شروع کردیتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کوئی تاریخ دان تو نہیں تھے ، مگر ان کا یہ جملہ کہ پاکستان اسی روز بن گیا تھا جس روز بر صغیر کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، تاریخ کے اس قانون سے ان کی واقفیت کی دلیل ہے۔

قوموں کے دور تشکیل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ان کا ایک اجتماعی مزاج تشکیل پاتا ہے ۔تشکیل کے اس مرحلے میں کام کرنے والے عوامل ان گنت اور بالعموم بہت پے چیدہ ہوتے ہیں۔یہ عوامل طویل عرصے تک عمل کرتے ہیں اور ان ہی کے زیرِ اثر کسی قوم کامذکورہ بالا خاص مزاج تشکیل پاتا ہے جسے ہم اس کی قومی نفسیات کہہ سکتے ہیں۔یہی وہ قومی نفسیات ہوتی ہے جو اگلے تمام مراحل میں اس قوم کے رویّے کا تعین کرتی ہے۔کسی قوم کا دورِ تشکیل صدیوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ تاہم جب کوئی قوم اس مرحلے سے گزر جاتی ہے تو وہ اپنی انفرادی شناخت بنالیتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب قوم کے مختلف گروہ اپنی الگ الگ خصوصیات کو بہ تدریج قومی حوالے میں ضم کردیتے ہیں۔ یہ قومی حوالہ اس قوم کا اجتماعی قومی مزاج ہوتا ہے جس کے زیرِ اثر قوم کے افراد میں وہ جدید خصوصیات پیدا ہونے لگتی ہیں جو انہیںدیگر اقوام سے ممتازکرتی ہیں۔ وہ عصبیت جسے ابنِ خلدون غیر معمولی اہمیت دیتا ہے، اب واضح طور پر قومی جذبات میں نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔اس مرحلے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے اندر سے ایسے زندہ افراد پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو اپنی قوم کو سر بلندی اور عظمت کے مقام پر پہنچا ناچاہتے ہیں۔ وہ اسے اقوامِ عالم میں ممتاز دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری اقوام کے مقابلے میں اس کی برتری کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اس دور میں مختلف شعبہ ہاے حیات میں قوم کے افراد نمایاں کارنامے انجام دینے لگتے ہیں۔

اس مرحلے پر قوم واضح طور پر اپنے لیے ایک راہ عمل کا تعیّن کرتی ہے اور اپنی راہ خود تلاش کرتی ہے۔ دورِ تشکیل میں چوں کہ قوم حالات کے رحم و کرم پر ہوتی ہے ، اس لیے اچھی یا بُری ، دونوں خصوصیات اور رویّے قوم میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن تعمیر کا مرحلہ آنے پر ایسے مصلحین اٹھتے ہیں جو قوم کی راہ نمائی کرکے اسے یہ بتاتے ہیں کہ کون سی خوبیاں ایسی ہیں جو اسےاپنے اندر برقرار رکھنی چاہییں اور وہ کون سی خصوصیات ہیں جن سے اسے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیے۔ اس طرح وہ اس کے قومی مزاج کی تشکیلِ نو کرتے ہیں۔

ایسا نہیں ہوتا کہ اس دوران تاریخ اور فطرت اپنا عمل چھوڑدیتی ہیں۔مسائل اب بھی سر اٹھاتے ہیں، حادثات اب بھی جنم لیتے ہیں ۔ ہر آن قوم کو نت نئے چیلنجز درپیش رہتے ہیں ، مگر اب قوم میں وہ میکنزم جنم لے لیتا ہے جو ہر مشکل موقعے پر قوم کے ردّ ِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔یہاں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ لازما قوم ان تمام چیلنجز سے کام یابی سے عہدہ برا ہوجاتی ہے جو اس کے قومی وجود کو درپیش ہوتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ اب قوم میں حالات کا جواب دینے کی اور اپنے تحفّظ اور بقا کی جنگ لڑنے کی صلاحیّت پیدا ہوجاتی ہے۔اس دور میں کسی قوم کو دھچکے بھی لگتے ہیں، ترقّیِ معکوس کی سی کیفیت بھی بعض اوقات پیش آجاتی ہے۔ لیکن اگر قوم میں جان ہو اورحالات کا جبر اس کی استعداد سے باہر نہیں ہو تو آخر کار وہ بحران کی کیفیت سے باہر نکل آتی ہے۔بحران کی یہ کیفیت اندرونی حالات کے تحت بھی پیش آتی ہے اور کسی خارجی چیلنج کی بناپر بھی ۔یہ مرحلہ تشکیل کے دور کی طرح طویل تو نہیں ہوتا ، مگر بے حد ہنگامہ خیز ہوتا ہے جس میں قومی زندگی مسلسل تلاطم سے دوچار رہتی ہے۔ دراصل یہی ہنگامہ خیزی اور حالات کا دباؤ ہوتا ہے جو اس قوم میں وہ امکانات پیدا کردیتا ہے جو مستقبل میں اس کے عروج کا سبب بنتے ہیں۔ اگر قوم اس دباؤ کا سامنا کام یابی سے کرلیتی ہے تو اس کے بعد اس کے لیے ترقّی و استحکام کی راہیں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرپاتی تو صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہے یا پھر طویل عرصے کے لیے کاروبارِ عالم سے بے نیاز ہوکر معذور کی طرح دوسروں کی دی ہوئی زندگی کی بھیک پر جیتی ہے۔مختصر یہ کہ اس دور میں قوم میں زندہ افراد پیدا ہوتے ہیں جو ایک جانب قوم کی ذہنی اور عملی تعمیر کرتے ہیں اور دوسری جانب ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے ہیں جو قومی وجود کی بقا کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

جو قومیں دورِ تعمیر میں پیش آنے والے چیلنجز کا سامنا کام یابی سے کرتی ہیں ، اس کا ثمر ان کی نسلیں دورِ ترقی و استحکام میں چکھتی ہیں۔تعمیرکےپُرپیچ اور ناہم وار را ستو ں سے گزرنے کے بعد استحکام کا وہ ہم وار دور آتا ہے جس میں زندگی کی گاڑی انتہائی تیزی سے آگے کی سمت دوڑتی ہے۔ قوم پچھلے مرحلے کی کام یابیوں کے نشے سے چُور ہوتی ہے۔ اس کے زخم اسی طرح بھرتے ہیں جس طرح کسی نوجوان کے زخم تیزی سے مندمل ہوتے ہیں۔ اپنے اوپر اس کا اعتماد غیر معمولی ہوجاتا ہے۔ اب اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے بازووں میں کتنا زور ہے ۔ اس دور میں قوم کا ہر فرد بایقین ہوتاہے اور پوری قوم مل جُل کر قومی تعمیر کے کام میں حصہ لیتی ہے۔ اوّل تو راہ کی مشکلات، خصوصا اندرونی مشکلات، پیش نہیں آتیں اور اگر آتی بھی ہیں تو قوم اجتماعی جذبے سے ان کا سامنا کرتی ہے۔ اس دور میں زندگی کا نظام مستحکم ہوتا ہے،ادارے فروغ پاتے ہیں، اقتصادی ترقّی ہوتی ہے، امن وامان کی صورتِ حال بہت اچھی ہوتی ہے اوردنیا کے سامنے ایک طاقت ور قوم کا نقشہ سامنے آنے لگتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں واقع چینی قوم اس وقت ٹھیک اسی مرحلے سے گزر رہی ہے۔

اس مرحلے پر قوم کے سامنے دو طرح کے حالات آتے ہیں۔ایک یہ کہ ترقّی و استحکام کا یہ سلسلہ طویل عرصے تک یوں ہی جاری رہتا ہے اور قوم اس کی عادی ہوجاتی ہے۔ آنے والی نسلیں اس سکون کے زیرِ اثر اس توانائی سے محروم ہونا شروع ہوجاتی ہیں جس کے سہارے ان کے آباء نے یہ استحکام حاصل کیا تھا۔قوم کو کوئی داخلی یا خارجی چیلنج درپیش نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں وہ بلند نظر قائدین پیدا ہوتے ہیں جو اس کے لیے اعلیٰ مقاصد کا تعیّن کریں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس قوم نے اپنا عروج دیکھ لیا اور اب اس کے قویٰ کو زنگ لگنے لگا ہے۔جس کے بعد انحطاط کے اس دور کا آغاز ہوجا تاہے ۔دوسرا امکان یہ ہوتا ہے کہ عین اس دور میں جب قوم اپنے شباب پر ہواسے ایسے حالات پیش آئیں جو اسے اپنی توانائیوں کے استعمال کا بہترین موقع فراہم کردیں۔ جس کے بعد وہ قوم عروج کی اس منزل کی طرف بڑھتی ہے جسے ہم آج کی زبان میں سُپرپاور کا منصب کہتے ہیں۔

عروج کا آغاز بھی چیلنج سے ہوتا ہے۔ یہ داخلی بھی ہوتا ہے۔ جب کسی زبردست ہلچل کے بعد قوم کی قیادت ایک نیا اور تازہ دم گروہ سنبھالتا ہے اور قوم کے سامنے ایسے مقاصد رکھتا ہے جو اس کی ابلتی ہوئی توانائیوں کو نیا میدان عمل دے دیتے ہیں۔ یا بعض اوقات قوم کو اپنے دورِ استحکام میں خارجی طور پر کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے یا پھر کوئی عظیم مقصد اس کے سامنے آجاتا ہے ۔نتیجے کے طور پر ایک دفعہ پھر وہ بلا خوف و خطر آگ میں کودنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے اوربالعموم سُرخ رُو ہوتی ہے۔

اس کے بعد وہ قوم ایک نئی توانائی کے ساتھ دنیا کی زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے۔پھر اس کا اقتدار صرف اپنے ملک تک محدود نہیں رہتا ، بلکہ اردگرد کے تمام علاقے میں پھیل جاتا ہے۔دوسری اقوام اس کے آگے سرِ اطاعت خم کرنے پر خود کو مجبور پاتی ہیں۔اس کا اقتدار فوجی اورسیاسی ہی نہیں ، بلکہ اقتصادی اور تہذیبی بھی ہوتا ہے۔ اقوامِ عالم اب اس سے علم و ہنر سیکھتی ہیں۔ ان کی زبان اس کا اثر قبول کرتی ہے۔ ان کا طرزِ زندگی اس سے متاثر ہوتا ہے۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہوتا جہاں وہ دوسری اقوام کو متاثر نہ کرے۔ وہ اس سے نفرت تو کرتی ہیں ، مگر اس کے اثرات سے خود کو بچا نہیں سکتیں۔

دورِ عروج کی ہر شئےبہت اچھی ہوتی ہے ،سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ زوال لازمی لگا ہوتا ہے۔عروج کی یہ عجیب و غریب تاثیر ہے کہ وہ غیر محسوس طریقے سے بہت جلد انحطاط میں بدل جاتا ہے۔اس دور کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں بلند نظر افراد پیدا ہونا ختم نہیں تو کم ضرور ہوجاتے ہیں۔ اور جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ان کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔تاہم دورِ انحطاط کی کوئی ظاہری علامت نہیں ہوتی ،بلکہ عیش و عشر ت ، فارغ البالی، آسانی و راحت میں یہ دور باقی تمام ادوار سے بڑھا ہواہوتا ہے۔ اجتماعی طور پر سکون کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ظاہر بین نگاہیں توحالات دیکھ کریہ اندازہ بھی نہیں کرسکتیں کہ انحطاط شروع ہو چکا ہے۔

مسلمانان برصغیر کے پیش نظر تو ایک ہزار برس کے عروج و زوال کی پوری تاریخ ہے۔ کام یابیوں، ناکا میو ں ، کوتاہیوں اور غلطیوں کی طویل فہرست ہے۔تاریخی پس منظر کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر برصغیر کی تقسیم اور نئی مملکت کے قیام میں دیگر عوامل بھی شامل تھے۔ مسلمانوں کو اپنی دینی اقدار کے تحفظ اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے نئے وطن کی ضرورت تھی۔ لیکن بیسویں صدی میں قومی ریاست کے قیام کا صرف یہی ایک سبب نہیں تھا، بلکہ دیگر اقتصادی،سماجی، تہذیبی، جغرافیائی اور سیاسی محرّکات نے بھی تحریکِ پاکستان کو مہمیز لگانے میں بنیادی کردار ادا کیاتھا۔

آزادی کے بعد نئی ریاست کو بڑے بڑے مسائل درپیش تھے۔ سب سے اہم مسئلہ آئین سازی اور مستقبل کی قومی پالیسی کی تشکیل کا تھا۔ابتدائی افراد کو چھوڑ کر بعد میں آنے والےہمارےزیادہ تر حکم رانوں،سیاست دا نو ں اور پالیسی سازوں نے باوقار قوم اور ترقّی یافتہ وطن کے لیے کوئی خاکہ تیارہی نہیں کیاجو معروضی اور زمینی حقائق کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ دنیا کے نقشے پر ابھرتی ہوئی جدید قومی ریاستوں کے ماڈل ہمارے سامنے تھے لیکن ہماری قیادت فکری انتشار کا شکار تھی۔

قومیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں۔ اگر مسلم اُمّہ نے شکستِ بغداد سے کوئی درس لیا ہوتا تو سانحہ غرناطہ کی سیاہی ہمارا مقدر نہ ٹھہرتی۔ اور اگر پاکستانی قوم اس سیاہی سے خود د ا ر ی و خود آگاہی کے چراغ جلا لیتی تو سقوطِ ڈھاکا کا تاریک باب ہماری تاریخ میں رقم نہ ہوتا۔ اقبال نے ہسپانیہ کو خونِ مسلم کا امین تو قرار دیا، لیکن اس خون کی ارزانی میں کون کون شریکِ جرم تھا، اس کا تجزیہ کون کرے گا؟یہ بات آج تک کوئی بھی بتانے کو تیار نہیں ہے۔