امریکی نخرے میں گرم مسالا

November 17, 2012

13نومبر کی صبح کیسی خوشگوار تھی۔ اخبار کے صفحہٴ اوّل پر نظر پڑتے ہی دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ چھ کالمی شہ سرخی میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ میں آزادی کی لہر چل نکلی ہے۔ ایک نہ دو، اکٹھی بیس ریاستوں نے امریکہ سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا۔ وجہ؟ ارے بھائی، غضب خدا کا، ایک سیاہ فام ڈیموکریٹ کے مزید چار سال کے لیے صدر منتخب ہونے پر غیرت مند امریکی حلقوں کا پیمانہٴ صبر لبریز ہو گیا۔ آزادی کی طالب ریاستوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ 27دسمبر کی خوش کن تاریخ بھی دی ہے جب سرکاری ویب سائٹ پر کئے گئے مطالبے کے حق میں25 ہزار دستخط جمع ہونے کی صورت میں اوباما انتظامیہ کو باقاعدہ ردعمل دینا ہو گا۔ شتابی سے دوسرا اخبار اٹھایا۔ تصدیق ہو گئی۔ یہاں بھی شہ سرخی میں امریکہ کا بولو رام ہونے کی اطلاع دی گئی تھی۔ تیسرے قومی اخبار پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ صفحہ اول پر یہی خبر جگمگا رہی تھی۔ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر۔ ایک پھانس البتہ کھٹک رہی تھی۔ انگریزی کے دو اخبار دیکھے مگر یہ اہم خبر وہاں موجود نہیں تھی۔ خیر سمجھ میں آنے والی بات ہے، انگریزی زبان کے مغرب زدہ صحافی پاکستانی آرزوؤں پر رحمت کی یہ برکھا کیوں برسائیں۔ مگر رات عالمی نشریاتی اداروں سے خبریں سن کر سوئے تھے ۔ یہ خبر وہاں بھی سنائی نہیں دی۔سی آئی اے نے یہودی ذرائع ابلاغ کی مدد سے خبر دبا دی ہو گی۔ لمبے ہاتھ ہیں سی آئی اے کے۔ مگر اب ان کے بھی دن پورے ہو گئے۔ 27دسمبر میں دن ہی کتنے باقی ہیں۔
یہ خبر پڑھے ایک ہفتہ ہونے کو آیا۔ اس اہم موضوع کی دوبارہ سن گن نہیں ملی۔ بات یہ ہے کہ امریکی آئین میں شہریوں کو علیحدگی اور بغاوت کا حق دیا گیا ہے اور یہ حق دو سو چالیس برس پہلے دیا گیا تھا۔ امریکی ریاست کے موجودہ ارتقائی مرحلے کے تناظر میں اس آئینی حق کی تشریح پر ماہرین قانون میں حسب توقع اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاہم امریکی آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے اور وائٹ ہاؤ س کے نام کوئی نہ کوئی د ل جلا آئے روز اس مضمون کے نامے بھیجتا رہتا ہے۔ امریکہ کے مردے امریکہ میں گڑیں گے ۔ ہمیں تو یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم چنڈو خانے کی گپ اور خبر میں فرق بھول گئے ہیں کیا اسے صفحہ اول پر شہ سرخی بنانا چاہئے تھا۔ فقیر سید وحیدالدین کی تصنیف ”روزگارفقیر“ تو آپ کی نظر سے گزری ہو گی۔ علامہ اقبال کی صحبت میں گزرے مہ و سال کی دلچسپ پیرائے میں باز آفرینی ہے۔ اس کتاب میں ایک صاحب کا ذکر ملتا ہے جو کچھ برس چینی تبت وغیرہ میں ملازمت کر کے واپس آئے تھے۔ ان دنوں چینی مسلمانوں کی بغاوت کا چرچا تھا۔ حضرت علامہ کو اس تحریک کی تفصیلات کا اشتیاق تھا۔ وہ اس میں مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کا سراغ چاہتے تھے۔ ان کے مہمان نے عرض کیا کہ یہ بظاہر ایک ہوائی معاملہ ہے اس کا کوئی اُور چھور نہیں مگر اقبال مزید جاننا چاہتے تھے۔ بعض اوقات دلیل پر اخلاص کا غالب آجانا قرین قیاس لیکن کیا ہمارا اجتماعی شعور آج بھی دیو مالائی کرشموں میں گرفتار ہے۔ قوموں کا عروج و زوال ایک سائنس ہے۔ جس کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ دوسروں کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی بد دعا ایک منفعل اور شکست خوردہ ذہن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ ایک بے معنی عمل ہے۔ ہمیں دور بین لگا کر دوسروں کا آنگن تاڑنے کی بجائے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہئے۔
تیس کروڑ کی آبادی کا ملک امریکا دنیا بھر کی قومی معیشتوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ سب سے بڑی منڈی یورپین یونین کی ہے جس میں براعظم یورپ کے 27ممالک شامل ہیں۔ اس کے باوجود یورپین یونین کا جی ڈی پی امریکا سے محض دو کھرب ڈالر زیادہ ہے۔ امریکا کی پچاس ریاستوں میں سے صرف ایک یعنی کیلیفورنیا کی معیشت دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ امریکا دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک ہے اور برآمدات میں چوتھے نمبر پر ہے۔ امریکا کی اصل قوت وہاں کی افرادی قوت کا علمی اور پیداواری معیار ہے۔ دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں سے 76تعلیمی ادارے امریکا میں ہیں۔ امریکا کی معاشی بالادستی انیسویں صدی کے آخر سے قائم چلی آتی ہے۔ یقیناً ترقی کی دوڑ میں کسی قوم نے ہمیشہ کے لیے برتری کا پٹہ نہیں لکھوایا۔ صلاحیت کے اعتبار سے سب انسان برابر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک خیال تھا کہ جاپان معاشی دوڑ میں آگے نکل جائے گا۔ اب کہا جاتا ہے کہ یورپی یونین یا چین کے آگے بڑھنے کا امکان زیادہ ہے۔ برازیل اور بھارت کا بھی اس ضمن میں نام لیا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے جو ملک اپنے شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے کی کوشش کرے گا، اسے کامیابی ملے گی۔ انسانی ترقی کا عالمی اشاریہ ڈاکٹر محبوب الحق کی دین ہے۔ 1990ء میں پہلی اشاعت کے بعد سے اس فہرست میں ہمیشہ اسکنڈے نیویا کے ممالک امریکا سے بہتر درجہ پاتے آئے ہیں۔ وجہ صاف ہے۔ اسکنڈے نیویا کے ممالک شہری آزادیوں، انسانی حقوق اور معاشرتی فلاح میں امریکا سے بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اتفاق سے یہی ممالک امن دوستی میں بھی آگے ہیں۔ گویا امن اور انسانی ترقی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس پر بھی توجہ فرمائیے کہ دنیا کی تیس بڑی معیشتوں میں سے 27 ممالک میں مستحکم جمہوری نظام موجود ہے۔ ایک اور نکتہ قابل غور ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں بھی ترکی اور بنگلادیش ہم سے آگے ہیں۔ یہ اچھی رہی۔ ہم گلے میں پڑا ڈھول بجاتے رہیں اور دنیا ہم سے آگے نکل جائے۔ اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے۔ یہاں انیس کروڑ با صلاحیت انسان بستے ہیں۔ گلزار بنانے کو وسیع صحرا ہیں۔ سر کرنے کو فلک بوس چوٹیاں ہیں۔ زرخیز کھیت ہیں۔ معدنی وسائل ہیں۔ ہم کسی کے ساحلوں پر آنے والے طوفان سے اپنی امیدیں کیوں باندھیں۔ تعمیر کے لیے تو ہمارا اپنا وطن کافی ہے۔
پس نوشت: ڈاکٹر ابرار احمد، فیصل حنیف اور دوسرے ادب شناس دوستوں نے نشاندہی کی ہے کہ گزشتہ کالم میں ”پانی سے ملاقات“ والا شعر احمد مشتاق کا نہیں بلکہ ثروت حسین کا ہے۔ معذرت کا خواستگار ہوں۔ اپنی غلطی کی توجیہ مقصود نہیں لیکن اس مضمون میں نقش اوّل احمد مشتاق کا تھا۔ ”یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے“۔ التباس ہوا ۔ آئندہ احتیاط کروں گا۔