اندر کی کہانیاں

August 11, 2018

سات اگست کی صبح نگران وزیرداخلہ اعظم خان سے رابطے کا خیال آیا۔ سوچا پتہ کیا جائے کہ وزیراعظم کے بعد بظاہر سب سے طاقتور عہدے پر براجمان شخص کیا جانتا ہے۔ فون پر رابطہ کیا اور کچھ دیر بعد ہم آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
اعظم خان سابق بیوروکریٹ ہیں جنہوں نے اپنا کیرئیرایوب خان کے دور میں شروع کیا تھا۔ الزامات سے دور نیک نامی کی نوکری کی اور ریٹائر ہوئے۔ اپنی بات کر جاتے ہیں اور اپنے دائرہ کار اور دائرہ اختیاردونوں کو بھولتے بھی نہیں۔

باتیں جاری تھیں کہ میں نے پوچھا خان صاحب بتائیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی نتائج سے متعلق فارم پینتالیس پر جو اعتراضات کیے ہیں۔ آپ کے پاس اس کی کیا حقیقت ہے ؟َ اعظم خان بولے کہ انہیں نگران وزیرداخلہ مقرر کیا گیا تھا جسکا کام سیکورٹی امور کی نگرانی ہی تھا۔ انتخابات کے روز انہوں نے اسلام آباد کے چھ پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کیا تھا جن میں سے تین کے پریذائیڈنگ افسران نے ان سے فارم پینتالیس کے رجسٹر کم ہونے کی شکایت کی تھی۔ اعظم خان بولے کہ میرا کام تو صرف سیکورٹی کاہی تھا مگر پھربھی میں نے وآپس آکر الیکشن کمیشن کے متعلقہ حکام کو فوری طور پر رابطہ کرکے اس مسئلے سے آگاہ کیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔ بولے "مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اعتراض کوئی اتنا غلط بھی نہیں بظاہر اس معاملے میں کچھ نہ کچھ غلطی ہے "۔
نگران وزیرداخلہ کی یہ باتیں میرے لئے حیران کن تھیں اس لئے بھی کہ عام طور پر اقتدار میں بیٹھے لوگ ایسے نازک امور پربات کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور اگر کہیں کچھ غلط بھی ہو تو اس پر پردہ ہی ڈالتے ہیں۔ اعظم خان ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں ، اس لئے جو بات کرتے ہیں بڑی ناپ تول کرکرتے ہیں۔ میرا اعظم خان سے کوئی پرانا واسطہ نہیں اتفاق کی بات ہے کہ جس روز وہ اس عہدے پر فائز ہوئے تھے میری اسی روز وزارت داخلہ میں ہی ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی جہاں میں نے ان کا جیو نیوز کے لئے انٹرویو کیا تھا۔
اس ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے انتخابات سے قبل میرے سامنے بیان کیے گئے تمام تحفظات اس دن سچ ثابت ہوِئے کہ جب اپوزیشن کی تمام جماعتیں الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کررہی تھیں اور شاہراہ دستورایسے نعروں سے گونج رہی تھی جو کبھی فاٹا یا بلوچستان میں ہی لگائے جاتے تھے۔ مگر کسی کو اس بات کی پروا ہی کیا۔

میں حیران تھا کہ ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے اتنی بڑی سرگرمی رکھی گئی مگر دھاندلی جیسے الزامات سے بچنے کی کوئی تدبیر بھی نہ کی گئی۔ اس ملاقا ت سے قبل مجھے کسی نے بتایا کہ ملک کی سب سے بڑی سویلین انٹیلی جنس ایجنسی آئی بی نے بھی الیکشن میں غلطیوںکی روک تھام کے بارے میںکچھ کیا نہ کوئی رپورٹ تیار کی۔ میرے لئے یہ سب حیران کن تھا کہ ایسا کون اور کیوں کررہا ہے۔
اس وقت انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ احسان غنی تھے جنہیں نگران وزیراعظم نے حال ہی میں تعینات کیا تھا۔ میری احسان غنی سے ان کے نیکٹا کے دنوں سے یاد اللہ رہی ہے اس لئے میں نے انہیں تین اگست کو فون کیا۔ اتفاق سے وہ ان کا سرکاری ملازمت کا آخری دن تھا۔ اگلے دن سرکاری چھٹی تھی اور ان کی ریٹائرمنٹ بھی۔
میری تین اگست کو ہی ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ ادھر ادھر کی باتوں کے ساتھ میں نے ان سے پوچھا کہ ،" کیا آئی بی نے انتخابات میں غلطیوں کے بارے میںکچھ رپورٹ کیا "؟ احسان غنی بولے ، " ہمارا فرض انتخابات میں سیکورٹی کو یقینی بنانا تھا ہماری ذمہ داری تھی کہ ملک میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہو نہ کسی سیاسی رہنما پر حملہ۔جو ہمارا فرض تھا ہم نے وہی نبھایا۔ احسان غنی نے مجھے کہا کہ اگر ہمیں اس کے علاوہ کوئی قانونی ہدایت ملتی تو ہم وہ بھی سرانجام دیتے۔ میں نے سلام دعا کی اور واپس آگیا۔
مجھے خیال آیا کہ کابینہ ہو یا آئی۔ بی دونوں کا اصل باس تو نگران وزیراعظم ہی ہے۔ ساری سیاسی جماعتیں ملک میں شور مچارہی ہیں یہ نگران وزیراعظم کہاں سویا پڑا ہے۔ میں نے ادھر ادھر فون گھمائے تو پتہ چلا کہ ہم تو کیا وزرا بھی عام انتخابات کے بعد سے نگران وزیراعظم کی تلاش میں ہیں جبکہ نگران وزیراعظم سرکاری دوروں میں مصروف ہیں۔
ادھر اپوزیشن جماعتیں بھی کسی سنجیدہ احتجاج پر متفق نہیں۔ مجھے کسی ذمہ دار نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بلاول بھٹو کو پیغام بھجوایا تھا کہ اپوزیشن کےارکان قومی اسمبلی کا حلف نہیں لیں گے اگر پیپلزپارٹی کے ارکان بھی قومی اسمبلی کا حلف نہ اٹھا ئیں تو اپوزیشن مل کر تحریک انصاف کی حکومت کے لئے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ بلاول نے یہ تجویز مسترد کردی۔ کرتے بھی کیوں نہ والد آصف علی زرداری اور پھوپھی فریال کو مزید مصیبت میں کیسے ڈالتے۔ وہ پہلے ہی جعلی اکائونٹس کے کیس میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ کیس میں خود بلاول کا نام بھی موجود ہے کیونکہ کیس میں زیرتفتیش ایک کمپنی کے مبینہ سربراہ وہ خود بھی ہیں۔

اس سارے معاملے کے بعد جب مولانا فضل الرحمان کی کوششوں سے اپوزیشن جماعتیں آٹھ اگست کو شاہراہ دستور پر اکٹھی ہوئیں تو حسب توقع موقع پر مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف بھی غائب تھے اورآصف علی زرداری بھی کہیں نظر نہ آئے۔
دراصل اس ساری تحریک کے اصل روح رواں مولانا فضل الرحمان ہیں جو اپوزیشن جماعتوں کو دھاندلی کے ایجنڈے پر متفق کرنا چاہتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی جیسی جماعتیں بھی ان کے ساتھ شامل ہیں مگر بڑی جماعتوں کے بڑے مسائل ہیں اور فی الحال اپوزیشن کا اتحاد بنتا نظر نہیں آرہا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)