خط بابائے اُردو کے نام (مولوی عبدالحق کی 57ویں برسی کے موقع پر)

August 15, 2018

ڈاکٹرفاطمہ حسن

بابا آداب!

وہ پہلا خط تھا جو اگست ۲۰۱۴ء میں آپ کو دکھے ہوئے دل اور بہت سے اندیشوں کے ساتھ لکھا تھا اور یہاں کے حالات سے آگاہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ابتدائی ایک برس کے بعد دن سنورنے لگے اور ہم ان تمام ذمے داریوں کی انجام دہی میں سرخرو ہوئے جو انجمن ترقیِ اردو پاکستان کو مقاصد کے حصول کے لیے مستحکم اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں پائیداری عطا کرسکے۔ اب آپ کو سنانے کے لیے بہت سی خوش خبریاں ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہاں سے شروع کروں۔ چلیے بڑی خبر سب سے پہلے لکھ رہی ہوں۔

آپ کا اورنگ آباد میں دفتر، قیام اور مہمان خانہ جس عمارت میں تھا، آپ نے اسے ’اردوباغ‘ کا نام دیا تھا۔ جب آپ پاکستان آئے تو جامعہ عثمانیہ کے طرز پر اردو یونی ورسٹی اور دفتر کے لیے اردوباغ بنانے کی خواہش ساتھ لائے تھے جس کا اظہار آپ نے جمیل الدین عالی سے بار بار کیا تھا۔ آپ کے لائق جانشین نے اردو یونی ورسٹی کے قیام کے لیے اَن تھک کوششیں کیں اور کامیاب ہوئے۔ اردو باغ کے لیے انھوں نے ۱۹۸۷ء میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے پانچ ہزار تین سو اکتیس گز زمین حاصل کی تھی۔ اس وقت انجمن کے صدر نورالحسن جعفری اور مشیرِ علمی و ادبی امور ڈاکٹر اسلم فرخی تھے۔ ان کے بعد انجمن نامساعد حالات کا شکار رہی جس کا ذکر میں پہلے خط میں کرچکی ہوں، اب اللہ کے فضل و کرم اور صدر ممنون حسین کی مہربانیوں سے انجمن کی نئی عمارت اردو باغ نہ صرف تعمیر ہوچکے ہیں بلکہ دفاتر اور کتب خانہ اس میں منتقل بھی ہوگئے ہیں۔ صدر ممنون حسین اس دفتر کے افتتاح کے لیے ۲۰؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو بہ نفسِ نفیس تشریف لائے تھے۔ افتتاحی تقریب بڑے وقار کے ساتھ منعقد کی گئی۔ میئر کراچی وسیم اختر،سینیٹر تاج ،سینیٹر کشور زہرا اور شہر کی علمی و ادبی شخصیات کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔ عمارت کے اپنے حسن کے ساتھ ساتھ پیڑوں سے سجےماحول، راستے اور فٹ پاتھ کی تعمیر نے انجمن کے دفتر کو شایانِ شان بنا دیا۔ اس دفتر کے لیے خوب صورت فرنیچر جمیل الدین عالی کے صاحب زادے مرادجمیل نے جو اسلام آباد میں آرکی ٹیکٹ ہیں، خصوصی طور پر بنوا کر بھیجا۔ بابا یہ عمارت آپ کے خوابوں کی طرح شان دار ہے۔ صدر ممنون حسین اور دیگر مہمانان نے اس کی بہت تعریف کی۔ ممنون صاحب نے کہا، ’’یہ عمارت میری توقعات سے زیادہ اچھی ہے۔‘‘ اب ہماری کوشش ہے کہ آپ کی روایت پر عمل کرتے ہوئے یہاں مہمانوں کی رہائش کا انتظام بھی کریں۔ اس مہمان خانے اور سماعت گاہ کا نقشہ بنا ہوا ہے اور منظور بھی ہوچکا ہے۔

ایک اور خوش کن خبر یہ ہے کہ اس عمارت میں آرکائیو بھی بنا لی گئی ہے۔ آپ کے لائے ہوئے نادر مخطوطے جو ۱۹۷۳ء میں حفاظت کی غرض سے قومی عجائب گھر میں امانتاً رکھوائے گئے تھے، اب یہاں منتقل ہو رہے ہیں۔ بابا! اس برس کے دوران میں ہم نے نئی تحقیقات و تصنیفات کی اشاعت پر توجہ دی۔ گزشتہ برس ۱۴ بہت اہم کتابیں شائع ہوئیں جن میں زیادہ تر نئی تصانیف ہیں۔ آپ کا جاری کردہ رسالہ ’’قومی زبان‘‘ بھی باقاعدگی اور سلیقے سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ رسالہ اب انٹرنیٹ پر بھی پڑھا جا رہا ہے۔ سہ ماہی ’’اردو‘‘ ریسرچ جرنل کی صورت میں شائع ہو رہا ہے۔ انجمن میں تقریبات برائے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

بابا خوشی کی بات یہ ہے کہ انجمن انتظامی اور مالی طور پر اب مستحکم ادارہ ہے۔ آپ تو جانتے ہیں ادارے کو منظم انداز میں چلانے کے لیے افرادی اور مالی وسائل ضروری ہیں۔ آج اللہ کے فضل و کرم سے یہ ادارہ ان وسائل میں خودکفیل ہے۔

میں چند روز قبل ولایت سے واپس آئی ہوں۔ میں وہاں کچھ دنوں کے لیے ادبی میلے اور قافلے میں شرکت کے لیے گئی تھی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ میلے ٹھیلے اردو ادب میں کہاں سے آگئے۔ تو بابا! یہ آپ ہی کے لگائے ہوئے پودے ہیں جو تناور درخت کی صورت میں دُور دُور تک پھیل چکے ہیں اور اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اب اردو زبان برصغیر تک محدود نہیں رہی۔ اس کی بستیاں دنیا کے ہر خطے، ہر گوشے میں بس گئی ہیں۔ جہاں مذاکروں، مشاعروں کے ساتھ ادبی میلوں اور قافلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی عکاظ کے میلے میں بھی شعرا اپنا کلام سناتے تھے۔ ہمارے ادبی میلوں میں بھی مشاعروں، مذاکروں کے ساتھ موسیقی، ڈراموں اور کتابوں کی فروخت کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ان میں مختلف ممالک سے مصنّفین بھی آتے ہیں جو اپنی تصانیف پر دستخط کرتے ہیں۔ اس طرح نوجوانوں میں کتابوں کے خریدنے اور شعرا و اُدبا سے ملاقات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ کتب میلوں میں انجمن کی کتابیں بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک ادبی میلہ ولایت کے شہر بریڈ فورڈ میں ہوا۔ اس میں میری دوست شاعرہ مہ جبین غزل انصاری نے اپنی تنظیم یارک شائر ادبی فورم کے تحت مشاعرے، مذاکرے اور اس دستاویزی فلم کو دکھانے کا انتظام کیا تھا جو آپ کے جانشین جمیل الدین عالی کی حیات و خدمات پر ان کے صاحب زادے مراد جمیل نے بنائی تھی۔ ’’خواب کا سفر‘‘ کے عنوان سے یہ فلم انجمن ترقیِ اردو کی دستاویز بھی ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں آپ کو یاد کیا گیا ہے، ان تاریخی تصویروں کے ساتھ جو مختلف مواقع پر کھینچی گئی تھیں۔ اس فلم کو دکھانے کا اہتمام ایک سنیما ہال میں کیا گیا تھا۔ فلم کے اختتام کے بعد انجمن ترقیِ اردو پاکستان پر ایک مذاکرہ تھا جس میں جمیل الدین عالی کے بڑے فرزند ذوالقرنین جمیل کے علاوہ، جو انجمن کے موجودہ صدر ہیں، میں نے اور کراچی سے آئی ہوئی شاعرہ ناصرہ زبیری نے حصہ لیا۔

پاکستان سے لندن روانگی کے وقت ایک گہرا صدمہ بھی میرے ساتھ تھا۔ جی بابا! صدمہ مشتاق احمد یوسفی کے بچھڑ جانے کا۔ میں ۱۸؍ جون کو جو عید کا تیسرا دن تھا، ان سے ملنے گئی تھی۔ وہ طویل عرصے سے صاحبِ فراش تھے اور اب تو ان میں بستر سے اٹھنے کی سکت بھی نہ رہی تھی۔ میرے ساتھ ان کے ایک مداح اور ادب دوست ڈاکٹر خورشید عبداللہ بھی تھے۔ یہ وہی خورشید عبداللہ ہیں جو جناب لطف اللہ خاں کے آواز خزانہ سے قیمتی آوازیں یوٹیوب کے ذریعے شائقینِ ادب تک پہنچا رہے ہیں۔ انھوں نے سرسیّد احمد خاں پر آپ کی بہترین گفتگو جو ریڈیو پاکستان نے نشر کی تھی، اسی خزانے سے برآمد کرکے ہمیں مہیا کی ہے۔ ہم جب یوسفی صاحب کے پاس گئے تو وہ غنودگی کی کیفیت میں تھے۔ ان کے صاحب زادے سروش یوسفی اور نرس جو قریب موجود تھے، انھوں نے حسبِ سابق شکایت کی کہ صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ میں نے انھیں غنودگی سے نکالنے کے لیے کہا، ’’میں آئی ہوں اور آپ پہچان نہیں رہے۔‘‘ بہت دھیمی آواز میں کہنے لگے، ’’شوکت بھائی نہیں آئے؟‘‘ میں نے جاگتے دیکھ کر شربت نما غذا کا پیالہ اٹھایا اور نرس کی مدد سے بٹھا کر دو چمچے بہ مشکل انھیں پلائے۔ خورشید عبداللہ نے جو میڈیکل ڈاکٹر ہیں، ان کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا۔ سروش بھائی سے کچھ رپورٹ لے کر پڑھی اور ایک غذائی ماہر سے مشورے کے لیے کہا۔ یوسفی صاحب پھر غنودگی میں چلے گئے تو میں دبے پائوں کمرے سے نکل کر چلی آئی۔ اگلے دن پتا چلا وہ آئی سی یو میں ہیں۔ اپنی لندن روانگی سے قبل جب میں نے ایئرپورٹ سے فون کرکے سروش بھائی سے ان کی خیریت معلوم کی تو اُنھوں نے بتایا کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہیں۔

ایک دن پہلے کی الوداعی ملاقات میری آخری ملاقات تھی۔ اس مرتبہ انھوں نے ہر ملاقات کی طرح یہ نہیں کہا تھا کہ ’’ہماری خبر لیتی رہا کیجے۔‘‘ اس جملے کی گونج میرے کان میں رہتی تھی۔ اس لیے جیسے ہی موقع ملتا، میں اُن کے پاس چلی جاتی؛ خصوصاً سفر پر جانے سے پہلے ضرور ملتی۔ ان جیسی شفیق اور وضع دار ہستیاں اب تو تقریباً سبھی سدھار گئیں۔

خیر بابا! اردو ادب اور ثقافت جو ہماری پہچان ہے، اس سے وابستہ ناموں اور ان کی تحریروں کا سرمایہ انجمن میں محفوظ ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ادب و ثقافت کے اس سرمائے کو نئی نسل تک منتقل کرسکیں۔ سو یہ کام جاری ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد انجمن سے استفادہ کر رہی ہے اور اس کے مقاصد کو آگے بھی بڑھا رہی ہے۔ ان ہی میں سے ایک علی جبران بھی ہیں جو آرکائیو کے قیام اور کتب خانے کو برقیانے کے لیے دستِ راست ثابت ہو رہے ہیں۔ لندن میں قیام کے دوران اس حوالے سے میں نے چند ملاقاتیں بھی کیں۔ مجھے اُمید ہے کہ اگلے برس اس شعبے میں اچھی پیش رفت ہوجائے گی۔ ایک اور سمت میں انجمن سماعت گاہ اور ہوسٹل کے قیام کی طرف گامزن ہے۔ وسائل کی کمی راہ میں حائل ہے مگر سفر ہے شرط...

احترام کے ساتھ

فاطمہ حسن