سندھ میں پی ٹی آئی کے ابتدائی اقدامات

August 17, 2018

میرے گزشتہ کالم کا عنوان تھا ’’عمران خان سے سندھ کی توقعات اور اندیشے‘‘ اس کالم میں‘ میں نے جہاں عمران خان سے سندھ کے عوام کی وابستہ توقعات کا ذکر کیا تھا وہیں مختصر طور پر ان کے کچھ ابتدائی اقدامات کے نتیجے میں سندھ کے عوام میں پیدا ہونے والے اندیشوں کا بھی ذکر کیا تھا حالانکہ ابھی مرکز یا کسی اور صوبے میں نہ پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے اور نہ کسی اور پارٹی کی‘ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی طرف سے خاص طور پر سندھ میں اپنی پسند کا سیٹ اپ بنانے کے سلسلے میں ان کے کچھ مرکزی رہنمائوں نے جو اقدامات کیے ہیں یا سندھ میں ان کے کچھ ’’فرنٹ مین‘‘ نے سرگرمی دکھائی ہے اس کے نتیجے میں سندھ کے عوام میں کافی حد تک اندیشے جنم لے رہے ہیں‘ سندھ کے سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں مجموعی طور پر سارے سندھ میں خاص طور پر سندھ کے شہری علاقوں میں جو صورتحال پیدا ہوئی اس سے عمران خان اور پی ٹی آئی کی دیگر قیادت کافی حد تک باخبر ہوں گے چونکہ ماضی میں عمران خان کا اس منفی قسم کی صورتحال میں کوئی کردار نہیں رہا لہٰذا سندھ کے سیاسی حلقے ان سے توقع کررہے تھے کہ مرکز میں حکومت بنانے کے بعد وہ اس صورتحال کے پس منظر کو مدنظر رکھ کر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس کے نتیجے میں ایک بار پھر یہ منفی نوعیت کی صورتحال سندھ کے شہری علاقوں کو اپنی تحویل میں لے لے جبکہ ایک مستحکم رائے یہ تھی کہ اب کچھ عرصے سے اس صورتحال کا منفی عنصر کم ہورہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کراچی میں کافی نشستوں پر کامیاب ہوکر کراچی شہر کی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے، اس کے برعکس دیگر دو سیاسی جماعتیں یعنی پی پی اور ایم کیو ایم جو اب تک کراچی کی بڑی سیاسی جماعتیں تسلیم کی جاتی تھیں وہ دونوں اس بار پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کھاگئیں حالانکہ پی پی کی طرح ایم کیو ایم نے بھی کراچی میں اپنی شکست تسلیم نہیں کی۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی نے پی پی کے خلاف تو سخت موقف ظاہر کیا جبکہ ایم کیو ایم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا حالانکہ ایم کیو ایم کے کراچی کے کئی رہنمائوں کا بھی پی ٹی آئی کے بارے میں موقف کافی حد تک مثبت نہیں تھا مگر بہرحال سیاسی ضرورتوں کے مدنظر دونوں پارٹیوں یعنی ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہوئے اور اس کے نتیجے میں ان کے درمیان ایک دوسرے کی حمایت کرنے کے لئے ایک 9نکاتی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے اس حد تک ہونے والی مفاہمت میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کا اہم کردار بتایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ کچھ سیاسی حلقے جہانگیر ترین کو عمران خان کا قابل اعتماد ’’فرنٹ مین‘‘ تصور کرتے ہیں‘ اسی دوران عمران خان کے ایک اور فرنٹ مین ’’عمران اسماعیل‘‘ بھی سامنے آگئے، انہیں سندھ کے گورنر کے لئے نامزد کیا گیا حالانکہ انہوں نے سندھ کے گورنر کا حلف بھی نہیں اٹھایا مگر وہ ایسے بیانات جو متنازع نوعیت کے ہیں جاری کرنے لگے کہ سندھ کے سیاسی حلقوں کو محسوس ہواکہ عمران اسماعیل خود کو شاید ابھی سے سندھ کے گورنر تصور کرنے لگے ہیں، ان کے حوالے سے علی الاعلان یا بین السطور ایسے بیانات بھی جاری ہوئے جن سے یہ تاثر ملا کہ پی ٹی آئی کو بھی سندھ کی یک جہتی پسند نہیں اور شاید وہ بھی سندھ کی تقسیم چاہتے ہیں، اس سلسلے میں خود جہانگیر ترین کا بھی ایک آدھ بین السطور بیان سامنے آیا بلکہ کچھ اخبارات میں خود عمران خان کے حوالے سے بھی کچھ اس قسم کے بیانات کا تذکرہ سنا جن کا مقصد کسی حد تک کراچی کو کاسموپولیٹن یونٹ کی حیثیت دینا ہے۔ سندھ کے سیاسی حلقوں میں وسیع پیمانے پر ان بیانات اور اطلاعات کا نوٹس لیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں سندھ کے عوام میں عمران خان کی سیاست کے بارے میں کافی اندیشے بڑھ گئے ہیں حالانکہ سندھ کے عوام نے ابتدائی طور پر انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد عمران خان نے جو پالیسی بیان جاری کیا تھا اس کا کافی حد تک خیر مقدم کیا تھا اور سندھ کے عوام میں عمران خان کی سیاست کے بارے میں کافی توقعات پیدا ہوگئی تھیں، بعد میں عمران خان اور بلوچستان کے قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل کے درمیان جن نکات پر مفاہمت ہوئی ان کا سندھ کے عوام نے بھی خیر مقدم کیا، سندھ کے عوام عمران خان کی طرف سے سردار اختر مینگل کی طرف سے پیش کیے گئے مطالبات تسلیم کیے جانے پر خاص طور پر اس بات کا خیر مقدم کررہے ہیں کہ عمران خان نے یقین دلایا کہ بلوچستان میں قوم پرست کارکنوں کی پراسرار عناصر کی طرف سے اغوا کرکے گم کرنے کی وارداتوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ سندھ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہی ستم ظریفی سندھ کے ساتھ بھی ہورہی ہے جہاں آئے دن قوم پرست کارکنوں کی پراسرار عناصر کی طرف سے اغوا کی وارداتیں ہورہی ہیں، سندھ کے ان سیاسی حلقوں میں امید پیدا ہوئی ہے حالانکہ پی ٹی آئی اور سردار اختر مینگل کے درمیان ہونے والی اس مفاہمت والے معاہدے میں سندھ سے گم کئے جانے والے قوم پرست کارکنوں کا ذکر نہیں ہے مگر ان کو امید ہے کہ جب مرکزی حکومت بلوچستان کی اس شکایت کو دور کرنے کے سلسلے میں اقدامات کرے گی تو سندھ میں ہونے والی ایسی وارداتوں کا بھی نوٹس لیا جائے گا اور سندھ میں بھی مرکزی حکومت ان وارداتوں کے خلاف اقدامات کرے گی۔ سندھ میں قوم پرست کارکنوں کی اس طرح کی گمشدگی کے بارے میں صورتحال کتنی خراب ہے اس کا اندازہ بدھ کو ہانگ کانگ کی ڈیٹ لائن سے کچھ سندھی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس خبر کے مطابق وہاں سے انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کونسل کی طرف سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں اگست کے مہینے کے دوران 13اور بلوچستان سے 9قوم پرست کارکنوں کو اغوا کرکے گم کردیا گیا ہے۔ سندھ کے حوالے سے اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاڑکانہ سے دسویں کلاس کا طالب علم عاقب چانڈیو کو اغوا کرکے گم کردیا گیا ہے، اس کے بعد آفتاب چانڈیو، جسقم آریسر گروپ کے مشتاق زہرانی، کاشف اور عبدالغفار ساریو کو مبینہ طور پر سادہ کپڑوں میں سیکورٹی اہلکاراٹھا کر لے گئے، اسی طرح خیرپور سے دو بھائی نصر اللہ اور آزاد جمالی بھی اغوا کرنے کے بعد گم کردیئے گئے۔ سندھ کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے ساتھ یہ زیادتی 70ء کی دہائی سے جاری ہے، ان حلقوں نے یاد دلایا ہے کہ سندھ میں سب سے پہلے اس زمانے میں مہران انجینئرنگ کالج کے ہندو پروفیسر اشوک کو اسی طرح اغوا کرکے گم کردیا گیا اور اب تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلا، اس کے بعد اسی زمانے میں ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کراچی سے سردار عطاء اللہ مینگل کے بڑے بیٹے کو اسی طرح غائب کردیا گیا وہ سردار اختر مینگل کا بڑا بھائی تھا جہاں تک پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان دستخط کیے گئے 9نکاتی میمورنڈم کا تعلق ہے تو اس پر سندھ کے صوبے کے سارے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہوگی اگر ایسا نہیں کیا جاتا اور ان دو تنظیموں کے درمیان فیصلے کرکے اگر اقدامات کیے جاتے ہیں تو ان اقدامات کے خلاف سندھ کے سیاسی حلقوں میں منفی ردعمل ہوسکتا ہے، سندھ کے عوام اس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں کہ حیدرآباد میں بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹی قائم کی جائے گی، ساتھ ہی سندھ کے عوام اصولی طور پر اس بات سے بھی اختلاف نہیں کرتے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے لئے فوری طور پر مالی پیکیج کا اعلان کیا جائے مگر اس سلسلے میں سندھ کے سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں قائم ہونے والی مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک کمیشن بنائے جو سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے حالات کا جائزہ لیکر رپورٹ پیش کرے اور اس رپورٹ کی روشنی میں سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی حالت کو بہتر کرنے کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)