جنرل اختر عبدالرحمن کی افغان ڈاکٹرائین

August 17, 2018

تحریر…حکمت یا رخان
افغانستان پاکستان کا مسلمان ہمسایہ ملک ہے اور اس سے پاکستان کے مسلمانوں کے تہذیبی رشتے صدیوںپرانے ہیں؛ لیکن بدقسمتی سے ریاستی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہمیشہ ایک تناو رہا ہے، جو عالمی حالات و واقعات کے زیر اثر گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔اس کے باوجود دسمبر 1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں تو پاکستان نے ایک سچے مسلمان بھائی کی طرح اپنے افغان بھائیوں کی جدوجہد آزادی میں ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے شانہ بہ شانہ افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑی، جو دنیا کی جنگوں کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی منفرد جنگ تھی۔ عسکری اصطلاح میں اس کو پراکسی وار یعنی بالواسطہ جنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ جنگ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے لڑی، جس کی کمان اس وقت جنرل اختر عبدالرحمن کر رہے تھے ۔ یہ وہی جنرل اختر عبدالرحمن ہیں، جن کو17 اگست 1988ء میں ایک عالمی سازش کے تحت جنرل ضیاالحق کے ساتھ ہی شہید کر دیا گیا، تاکہ شکست کے بعد سوویت یونین کی افغانستان سے بحفاظت پسپائی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔
یہ جنگ جو جنرل اختر عبدالرحمن کی افغان ڈاکٹرین کے تحت لڑی اور جیتی گئی، اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ اس کے بعد پاکستان اور افغانستان میں ریاستی سطح پر کشیدگی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی افغان ڈاکٹرائین کیا تھی، آئیے دیکھتے ہیں۔ ان کی افغان ڈاکٹرائین کا پہلا نکتہ وہ تھا، جس کے تحت انہوں نے افغان قبائل اور مزاحمتی تنظیموں کے درمیان کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا اور سب کے ساتھ یکساں برتاو کیا۔ ان کی راے یہ تھی کہ خرابی تب پیدا ہوتی ہے، جب ہم فیورٹ ازم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ ڈاکٹرین تھی جس کی وجہ سے جنرل اخترعبدالرحمن تمام افغان قبائل اور جہادی تنظیموںکو نہ صرف روسی حملہ کے خلاف متحد کرنے میں کامیاب ہو گئے، بلکہ ان قبائل اور تنظیموں کو آئی ایس آئی کی کمان تلے کام کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ اس طرح انہوں نے افغان قبائل کی بکھری ہوئی قوت کو اکٹھا کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایک بہت بڑی فوجی طاقت میں تبدیل کردیا ۔
Stephen Tannerاپنی کتاب ’’ الیگزینڈر دی گریٹ سے زوال طالبان تک، عسکری اور تاریخی جائزہ ‘‘ میں لکھتے ہیں: جنرل اختر عبدالرحمن نے جنرل ضیاالحق سے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف براہ راست لڑیں گے افغان ہی، پاکستان مگر پیچھے رہ کر ان کو فوجی اسلحہ اور ٹریننگ دے گا۔ اس میں یہ احتیاط ضرورکی جائے گی کہ جنگ کا درجہ حرارت ایک خاص سطح پر رکھا جائے، تاکہ سوویت یونین پاکستان پر ہی نہ چڑھ دوڑے۔‘‘ بعینہ امریکہ کے عسکری محقق Bruce Ridel نے بھی اپنی کتاب ’’افغانستان میں امریکہ کی خفیہ جنگ‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ: یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی، جس نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو لیڈرشپ، ٹریننگ اور سٹریٹجی فراہم کی اور یہ افغان عوام اور پاکستان ہی تھا، جنہوں نے اس خطرناک اور عظیم جنگ کا تمام خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں۔‘‘
حقیقتاً امریکہ اور یورپ کو شروع میں یقین ہی نہیںآتا تھا کہ آئی ایس آئی اور افغان کے بکھرے ہوئے قبائل ایسی خطرناک اور طویل گوریلا جنگ لڑ سکیں گے۔ لہذا ابتدائی طور پر امریکہ اور یورپ نے پاکستان کواس مد میں مالی امداد مہیا کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ صرف سعودی عرب بھائی چارے کے تحت مدد دے رہا تھا۔ ابتدائی دو سال اسی طرح گزر گئے،اس کے بعد جا کر امریکہ اور یورپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے مالی اور اسلحی امداد کی فراہمی شروع کی، بلکہ اس کے بعد تو جب جنرل اختر عبدالرحمن نے افغان مجاہدین کو سٹنگر میزائل مہیا کرنے کا مطالبہ کیا تو یہ بھی ان کو پورا کرنا پڑا۔
جنرل اختر عبدالرحمن کی افغان ڈاکٹرین کو دوسرا نکتہ وہ تھا، جس کے تحت افغان جنگ کی کامیابی کے بعد انہوں نے یہ تجویز دی کہ معاہدہ جینوا پر دستخط کرنے سے پہلے امریکہ اور سوویت یونین سے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کا مطالبہ منوایا جائے، اور یہ کہ اگر یہ مطالبہ نہ منوایا گیا تو روسی فوجوں کے انخلا کے ساتھ ہی افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گا، جس کا نتیجہ کسی دوسری عالمی طاقت کے افغانستان پر چڑھ دوڑنے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ آج امریکہ اوراس کے اعلیٰ عہدے دار تسلیم کرتے ہیںکہ سوویت یونین کی واپسی کے بعد امریکہ نے افغانستان میں مستحکم حکومت قائم کرنے کی اپنی ذمے داری پوری نہیں کی۔یہ ذمے داری اگر پوری کر دی جاتی تو بعد میں افغانستان میں وہ انتشار برپا نہیں ہونا تھا، جو ہوا۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمن، جو اب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف تھے، جنرل ضیاالحق کو اس پر بھی قائل کرچکے تھے۔اس کے بعد ہی جنرل ضیاالحق نے ایک میٹنگ میں وزیراعظم جونیجو اور ان کے وزیروں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے افغانستان میں مستحکم عبوری حکومت کا مطالبہ منوائے بغیر عجلت میں جینیوا معاہدہ پر دستخط کر دیے تو لوگ آپ کی بوٹیاں نوچ لیں گے۔ بدقسمتی سے جونیجو حکومت پر اس وقت امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے اپوزیشن کو ساتھ ملا کر جینیوا معاہدہ پر دستخط کردیے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی اسی مخالفت کے باعث محمد خان جونیجو نے اوجڑی کیمپ کے سانحہ کی ذمے داری بھی ان پر ڈالنے کی کوشش کی، حالانکہ اس وقت وہ آئی ایس آئی چیف نہیں تھے۔ یہ کوشش تو کامیاب نہ ہوئی، البتہ اس کشمکش میں 29مئی 1988ء کو جونیجو خود اپنی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج تاریخ کا ہر طالب علم سمجھ سکتا ہے کہ اگر افغان جنگ کی کامیابی کے بعد جنرل اختر عبدالرحمن کی ڈاکٹرین پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا تو افغانستان میں ایک ایسی حکومت معرض وجود میں آجانا تھی، جو نہ صرف یہ کہ پاکستان کی زبردست حامی ہوتی، بلکہ پاکستان کو اپنا محسن بھی سمجھتی اور پاکستان کو افغان بارڈر کی طرف سے کوئی خطرہ نہ رہتا ۔
افسوس تو یہ ہے کہ17 اگست 1988ء کو جنرل اختر عبدالرحمن کی شہادت کے بعد بھی پاکستان کی مختلف حکومتوں نے ان کی افغان ڈاکٹرین کے برعکس افغانستان میں فیورٹ ازم کی پالیسی اختیار کی، جس کے نتیجہ میں افغانستان میں اندرونی انتشار بھی پیدا ہوا اور افغانستان کی نئی ابھرنے والی قیادت، خواہ وہ طالبان کی تھی، یا مخالف طالبان کی، مستقل طور پر پاکستان سے بدظن، بلکہ برگشتہ ہو گئی، اور تادم تحریر یہی صورت حال ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان آج بھی اگر اس صورت حال سے نکل سکتا ہے تو جنرل اختر عبدالرحمن کی وضع کردہ افغان ڈاکٹرین پر عمل کرنے سے ہی نکل سکتا ہے اور یہی ڈاکٹرین پاکستان اور افغانستان کے درمیان پرامن، دیرپا اور خوشگوار تعلقات کی ضامن بن سکتی ہے۔