سررہ گزر

November 20, 2012

وفاقی وزیر مذہبی امور خورشید شاہ کہتے ہیں: کراچی میں ایسا آپریشن ہونا چاہئے جو صدیوں یاد رہے۔ لو چارہ گر بھی کہتا ہے اس کا چارہ ختم ہو گیا۔ کراچی میں آپریشن سے زیادہ علاج بالدواء کی ضرورت ہے، ایسا آپریشن کہ جو صدیوں یاد رہے یہ تو کراچی میں تیسری عالمی جنگ چھیڑنے کے مترادف ہے۔ کیا وزیر موصوف کو کراچی کی بس اتنی ہی فکر ہے کہ وہ اپنے لان میں گلی ڈنڈا کھیلیں اور صوبے کا منتظم بھی ہاتھ کھڑے کر دے اور صدیوں یاد رکھے جانے والے ہولناک آپریشن کی تمنا کرے تو کیا وہ کراچی کے عوام اور یہاں تک کہ اپنی محبوبہ سے بھی کہتا ہو گا
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
اگر وفاقی وزیر کر سکیں تو یہ لوکو موٹو انجن جیسے صوبیدار کو فارغ کر کے کسی مرد آہن کے ہاتھ میں لگام زمام دیں تاکہ کم از کم وہ نظم و نسق کا گھوڑا تو دوڑا سکے، کراچی کو سیل کر کے اسے آج اسلحے سے مکمل طور پر خالی کر دیا جائے تو یہ تیتر بٹیر کا جثہ اور ہمت رکھنے والے دہشت گرد گرد اڑاتے پھریں گے، اور عروس البلادء کی جبین پر پھر سے امن و آشتی کی افشاں چمکے گی۔ ہمیں خورشید شاہ کے بیان سے اس رنگیلے بادشاہ کا قصہ یاد آ گیا جو سارا دن باغ میں پری پیکر کنیزوں کے ساتھ اٹا ٹپی کھیلتا اور لطیفے سن سن کر قہقہے لگاتا تھا۔ ایک روز باغ میں ایک سانپ گھس آیا سب کنیزوں نے کہا سانپ سانپ کسی مرد کو بلاؤ، بادشاہ سلامت بھی لڑکیوں کی آواز میں آواز ملا کر کہنے لگے، سانپ سانپ کسی مرد کو بلاؤ، ایک چنچل کنیز نے کہا حضور آپ بھی مرد ہیں، تو انہوں نے کہا ہاں یاد آیا، لاؤ میری چھڑی۔

الطاف حسین نے کہا ہے اقوام متحدہ امریکہ برطانیہ اور نیٹوممالک فلسطین پر اسرائیلی مظالم بند کرائیں۔
الطاف بھائی پر ان کے نام کا اتنا اثر ہے کہ جہاں بھی درد ہو وہ درماں بنیں نہ بنیں، اس کے خلاف صدا ضرور بلند کرتے ہیں، اسرائیل، فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھا رہا ہے وہ صرف اس لئے کہ مسلمانوں اور بالخصوص عربوں کا کوٹھا ڈھے گیا ہے، ستاون اسلامی ممالک تماشائی ہیں، اور فلسطینی مسلمان تماشائے ظلم بنے ہوئے ہیں، اور گویا ظلم کی دیوی کی بابت کہہ رہے ہیں
مشاطہ رابگو کہ بر اسبابِ حسنِ یار
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسید
(سنگھار کرنے والی سے کہو کہ محبوب کے میک اپ میں کچھ آئٹم اور بڑھادے کہ تماشا ہم تک آ پہنچا ہے)
مسلم امہ کی یہ فرمائش سنتے ہی اسرائیل، فلسطینی بچوں عورتوں بوڑھوں جوانوں پر ظلم میں ایسی ورائٹی پیدا کرتا ہے، کہ مسلم امہ کی طبیعت ”خوش“ ہو جاتی ہے، الطاف حسین اگر وطن آ کر اپنے قول کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیں، تو ان میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ چوہوں کو بلوں سے نکال نکال کر ختم کر دیں گے، اور وزارت خارجہ کو اس قدر مہمیز کر دیں گے کہ پھر اسرائیل کو فلسطینیوں پر مزید ظلم کی جرأت نہ ہو گی۔ اے عام آدمی کے درد کو محسوس کرنے والے الطاف بھائی آ جا اب تو آ جا میرے دل کے خریدار اب تو آ جا!
کہ تیرے کراچی ،تیرے فلسطین پر عجب وقت آن پڑا ہے

وزیراعظم پرویز اشرف نے اپنی داڑھ نکلوا دی، اب وہ اپنی عقل داڑھ سے متصل ایک بڑی داڑھ سے محروم ہو گئے ہیں۔
وزیراعظم کے سینے سے چاہے دل نکل جائے پرواہ نہیں، کہ وہ وزارت عظمیٰ سے تو نہ نکلے، رہ رہ کے گیلانی کا نکلنا یاد آتا ہے، اور یہ بھی یاد آنے لگا کہ
نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
گویا وزیراعظم کی عقل داڑھ بھی ہے، جو بچ گئی اور غیرمعقول داڑھ نکل گئی، اب تو وہ پہلے سے بڑھ کر پرویزانہ و مشرفانہ فیصلے کر سکیں گے، کہ ان کے نام پرویز اشرف میں پرویز مشرف چند حرفوں کی تبدیلی کے ساتھ پورے کا پورا موجود ہے، لیکن ایک بات ماننے کی ہے، کہ عقل داڑھ سلامت ہونے کے باعث وہ ہنوز وزیراعظم ہیں اس لئے ان کے پیشرو کی داڑھیں چیک کرنا پڑیں گی۔ ان کے ممدوع چمکدار دانت دکھاتے ہیں، اسی لئے وزیراعظم کی داڑھ نکل گئی، داڑھ کا درد، دردوں کا بادشاہ ہے شاید اب پرویز اشرف کو کراچی کا درد بھی محسوس ہونے لگے جس کی داڑھ نہیں جان نکل رہی ہے، داڑھ کا نکلنا تو بڑی معمولی بات ہے، وزیراعظم زرداری سیٹ اپ کا وہ نہایت عمدہ ڈیکوریشن پیس ہیں، اس لئے ماہر دندان سازوں کو ان کی داڑھ کا نعم البدل لانے کا چارہ کرنا چاہئے، تاکہ ان کے منہ میں کہیں بھی نشیب نظر نہ آئے، مگر ایسی بھی چنداں فکر کی بات نہیں کہ آج کے مہوش دانتوں داڑھوں کو نہیں دیکھتیں وہ کرسی کے حجم کو دیکھتی ہیں، اس لئے ان کی مارکیٹ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

امریکی سفیر نے کہا ہے: پاکستان کی سیاست میں کسی کردار پر یقین نہیں رکھتے،
کسی نے پوچھا بھی نہیں اور امریکی سفیر نے صفائی بھی دیدی، کیا سفیر کی داڑھی ہے، اور اگر ہے تو اس میں تنکا ڈھونڈنا پڑے گا۔ بہر صورت وہ اطمینان رکھیں یہاں سیاستدان چاہتے ہیں کہ آپ پاکستان کی سیاسی کڑاہی میں اپنا مبارک کھڑچا پھیریں، اور اگر امریکی سفیر کے بیان کو خالص سچ مان بھی لیا جائے تو اس میں حرج نہیں، کیونکہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
ہمیں اپنے حقے کے لئے امریکہ سے آگ مانگنے کی ضرورت نہیں، ہم خود ہی ایک بھڑکتا بھانبھڑ ہیں، مگر وہ والا نہیں جس کے بارے کہا جاتا ہے ”سچ آکھیاں بھانبھڑ مچدا اے“ کیونکہ
سچ چھوڑ کے ہم جھوٹ کے سانچے میں ڈھل گئے
اب کیا خبر امریکیو ہم آج گئے کہ کل گئے
ہم خود اتنے ستم ایجاد ہیں، کہ امریکہ کو الزام دیتے تھکتے نہیں، کتنی ناکامی ہے کہ قربانیاں دے دے کے بھی ہم امریکہ کو یار غار نہ بنا سکے، امریکہ نے کتنے ہی ڈالر دیئے مگر ہماری تو ایک گلی بھی پختہ نہ ہو سکی، اب اس کے سوا کیا کہیں کہ
الزام اس کو دیتے تھے
قصور اپنا نکل آیا
ہم اپنی سیاست کو خود خراب کریں گے پھر سے جمہوریت کے روپ میں آمریت لائیں گے اور بغلیں بجائیں گے اس لئے یقین ہے کہ امریکی سفیر سچ ہی کہتے ہوں گے کہ وہ ہماری سیاست میں دخل نہیں دیں گے۔