ہمارا قد آور عزم

November 22, 2012

زندہ بستیاں اور آگے بڑھنے کی تڑپ رکھنے والے انسان مسائل سے دوچار بھی ہوتے ہیں اور اُن پر خطرات یلغار بھی کرتے ہیںمگر قیادت کی بلند نگاہی اور حوصلہ مندی مشکلات کو عظیم امکانات میں تبدیل کرتی رہتی ہے۔ آج عالمِ اسلام کو جو مہیب چیلنج درپیش ہیں اُن کا سب سے بڑا سبب ہر سطح پر بیدار پُر مغز اور دور اندیش قیادت کا فقدان ہے اور آپس کے اختلافات اور وسائل کے اندھے استعمال نے دنیا کی پانچویں بڑی طاقت میں شدید اضمحلال پیدا کر دیا ہے۔ مسلمان آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑی طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں اور الله تعالیٰ نے اُنہیں بیش بہا قدرتی وسائل سے نوازا ہے مگر اُن کی ناطاقتی کا یہ عالم ہے کہ سات روز سے اسرائیل غزہ پر باردو کی بارش کر رہا ہے جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلسطینی شہید پچاس کے لگ بھگ شیر خوار بچے دو درجن سے زائد خواتین اور پندرہ کے قریب ضعیف لوگ لقمہٴ اجل بن چکے ہیں جبکہ عالمی ضمیر کوئی کسک محسوس نہیں کر رہا ہے اور مسلم طاقتیں کوئی عملی قدم اُٹھانے کی سکت سے محروم ہیں۔ دنیا بھر میں دینی تحریکیں تو سراپا احتجاج نظر آتی ہیں لیکن حکمران ہر جگہ اپنے اپنے مسائل میں دھنسے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کی بے ہمتی اور ناطاقتی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مغربی طاقتیں گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کی راہ کشادہ کر رہی ہیں اور شرق اوسط کا نقشہ تبدیل کرنے کے لیے ریشہ دوانیوں کو ہوا دے رہی ہیں۔
غزہ جو خلیفہٴ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق کے زمانے میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنا تھا مصر اور اسرائیل کے درمیان بحیرہ روم کی تنگ پٹی پر واقع ہے جس کی کل آبادی چار لاکھ اسی ہزار ہے جو دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصے میں عیسائیوں اور دوسرے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ستمبر 1993ء میں پی ایل او اور اسرائیل کے مابین ہونے والے اوسلو معاہدے کے تحت یہ شہر فلسطین میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اِسے مغربی دنیا میں اُس وقت غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی جب 2008ء کے انتخابات میں تحریکِ آزادیٴ فلسطین حماس نے انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی جس نے اسرائیل کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ مسلمانوں کو اِس ”جرم“ کی سزا دینے کے لیے اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر لیا جس کے باعث مسلم آبادی کے لیے غذا اور دواوٴں کا حصول بہت مشکل بنا دیا گیا تھا۔ اِس محاصرے کو توڑنے کے لیے ترکی نے اپنا بحری بیڑا بھیجا تھا جس میں چند جرأت مند صحافی بھی سوار تھے۔ اُنہوں نے اس بحری جہاز پر اسرائیل کے حملے کی خوفناکی اپنی آنکھوں سے دیکھی اور یہ پوری داستانِ الم اُن کے ذریعے پورے کرہٴ ارض میں پھیل گئی۔ ترکی جو ایک زمانے میں اسرائیل کے ساتھ گہرے سفارتی روابط رکھتا تھا وہ اب اسرائیلی جارحیت کے خلاف کامل یکسوئی سے ڈٹا ہوا ہے اور عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے میں پیش پیش ہے۔
مسئلہ فلسطین میں برصغیر ہند کی مسلم قیادت نے غیر معمولی دلچسپی لی تھی۔ حکیم الاُمت علامہ اقبال نے گول میز کانفرنس کے دوران فلسطینی راہنماوٴں کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے ہر اہم اجلاس میں اہلِ فلسطین سے مکمل وابستگی کا اظہار کیا تھا۔ 1940ء کی قراردادِ لاہور میں بھی آزادیٴ فلسطین کے حق میں قرارداد منظور کی گئی تھی اور 1947ء کے سالانہ اجلاس میں قائداعظم نے اسرائیل کی ریاست کو ناجائز بچے کے ساتھ تشبیہ دی تھی۔ پاکستان اپنی تشکیل کے بعد اسرائیل کے ناپاک ارادوں کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا رہا اور وزیراعظم بھٹو نے 1974ء کی جنگ ِ رمضان میں عرب فوجوں کی قوت میں اضافے کے لیے پاکستانی جنگی طیارے بھیجے تھے جس میں اسرائیل شکست کے دہانے تک پہنچ گیا تھا اور اس کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا زعم خاک میں مل گیا تھا۔ تب امریکہ نے مصری فوجوں کے خلاف ایٹمی طاقت ستعمال کرنے کی دھمکی دی تھی۔ فیض احمد فیض# نے فلسطین کے حوالے سے کیا لازوال شعر تخلیق کیے تھے
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطین کا عَلم
تیرے اَعدا نے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد
آج فلسطین کی طرح پاکستان میں بھی آہوں اور سسکیوں کے زخم کھلے ہیں۔ کراچی لہو لہو ہے اور بلوچستان کو خون کا غسل دیا جا رہا ہے۔ محترم قاضی حسین احمد جو اخوت و محبت کے پیکر اور عزم و یقین کے پیامبر ہیں اُن پر بھی پاکستان کے طالبان حملہ آور ہوئے ہیں اور اُن کی جان لینے کے لیے ایک برقع پوش خاتون کا انتخاب کیا گیا جس نے قاضی صاحب کی گاڑی کے قریب اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا لیا مگر الله تعالیٰ نے اپنے اِس نیک بندے کی حفاظت کی جس کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کی کوئی بہت بڑی خدمت لینا منظور ہے۔ دہشت گردی کا عفریت بہت خوفناک ہو گیا ہے جس پر قابو پانے کے لیے تمام دینی اور سیاسی جماعتوں میں یک جہتی کا فروغ ازبس ضروری ہے جن کا بلند قامت عزم حالات کی تصویر میں زندگی کے رنگ بھر سکتا ہے۔
اِس نازک اور کٹھن کام کی انجام دہی کے لیے دانشوروں سیاسی قیادتوں دینی راہنماوٴں اور میڈیا کے نمائندوں کو اجتماعی دانش اور کاوش سے کام لینا اور بلند ہمتی کا ثبوت دینا ہو گا۔ بگڑے ہوئے ذہنوں کو راہِ راست پر لانے اور نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل کی شاہراہ پر ڈالنے کے لیے الفاظ کے بجائے عمل کی ضرورت ہے۔ خوبصورت الفاظ کے سراب قوم کے اندر شدید مایوسی اور بے یقینی کی فصل کاشت کر رہے ہیں۔ یہ وقت انسانوں کے مابین پائی جانے والی عدم مساوات اور بلاخیز ناانصافی پر قابو پانے کے لیے ایثار خلوص اور تدبر سے آگے بڑھنے اور ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کا ہے۔
ملک میں درپردہ اور اعلانیہ انہونے واقعات جنم لے رہے ہیں۔ اشاروں کنایوں میں ٹینک اور اسلحے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بعض تجزیہ نگار ایک ہولناک منظر نامے کی تصویر کشی کر رہے ہیں اور ہمارے ذہن ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہونے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اِن تمام اعصاب شکن اعشاریوں کے باوجود پاکستان کے اندر وہ قوم بستی ہے جس نے ناممکنات کو ممکنات میں ڈھال دیا تھا۔ پاکستان کی تخلیق خود بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ تھا اور اِس کا قیام اور استحکام اِس سے بھی کہیں بڑا معجزہ ہے۔ یہ قوم اپنے مضبوط خاندانی نظام کے بدولت ہر آزمائش کو پاوٴں تلے روند کر آگے بڑھنے کی حیرت انگیز قوت اور صلاحیت رکھتی ہے۔ اب انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے جس کے اندر خوش اسلوبی کے ساتھ گزر کر اہلِ پاکستان عظیم امکانات کی طرف ایک نیا سفر شروع کریں گے۔
انتخابات کا اعلان کب ہو گا یہ بھی ابھی صیغہٴ راز میں رکھا جا رہا ہے جبکہ حقیقت پسندی اور معاملہ فہمی کا تقاضا یہ ہے کہ انتخابات مارچ کے وسط میں ہو جانے چاہئیں تاکہ اپریل کے وسط میں قومی اسمبلی وجود میں آ جائے جو بالغ نظری کے ساتھ بجٹ کی تیاری کر سکے۔ پانچ سال مکمل کرنے کا تصور نہایت خوبصورت ہے مگر اِس پر غیر ضروری اصرار بہت گھمبیر مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے۔ تیرہویں آئینی ترمیم سے پہلے قومی اسمبلی اپنی معیاد پوری ہونے سے ساٹھ روز پہلے تحلیل کی جاتی تھی مگر جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے وہ آئینی طریقِ کار تبدیل کر دیا تھا۔ جمہوری قوتیں قیل و قال سے بلند ہو کر اُلجھے ہوئے مسائل سر کر سکتی اور ایک جہانِ تازہ آباد کر سکتی ہیں۔