میاں صاحب، عمران خان اور چھچھوندر

November 22, 2012

الیکشن ملتوی کرنے کی حکومتی خواہش کو میڈیا کی قیاس آرائی، طویل المیعاد ٹیکنو کریٹس یا بنگلہ دیش ٹائپ حکومت کے قیام کو افواہ اور اداروں کے درمیان تصادم کو مخصوص عناصر کا پروپیگنڈہ قرار دینے والے میاں نواز شریف اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی واضح اور دو ٹوک انتخابی کامیابی کے بارے میں اس قدر پراعتماد و پرامید ہیں جتنے ایک سال قبل تھے جو حیرت انگیز بات ہے۔
گزشتہ روز مقبول و صاحب طرز کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے وارث روڈ پر ”معاصر“ کے دفتر میں جناب ارشاد احمد حقانی مرحوم کے الفاظ میں شہر کے ”چیدہ چیدہ“ اخبار نویسوں کو اکٹھا کیا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے روبرو کر دیا۔ میاں صاحب کا موڈ خوشگوار تھا اور آسودگی سے ڈیڑھ دو گھنٹے تک گپ شپ میں مصروف رہے۔ انہیں صدر زرداری کی سیاسی سرگرمیوں پر تشویش تھی اور قبل از انتخاب دھاندلی کا خدشہ بھی مگر وہ ہر طرح کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نظر آئے۔
ایک سینئر کالم نگار کے سوال پر کرپشن کے خاتمے کا جو نسخہ انہوں نے تجویز کیا اسے میاں صاحب کے بزرگ اور سرپرست مدیر کے علاوہ مسلم لیگی رکن اسمبلی جناب ایاز امیر، جناب مجیب الرحمن شامی اور نوجوان کالم نگار یاسر پیرزادہ نے بیک زبان ناقابل عمل قرار دے کر کہا کہ دس فیصد ٹیکس کلیکشن سے پاکستان جیسا معاشی بدحالی کا شکار ملک نہیں چل سکتا۔ اس لئے دوسرے کسی کو رائے زنی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ میاں صاحب کی اس تشویش سے سب نے اتفاق کیا کہ امن و امان کی موجودہ صورتحال میں انتخابی مہم کیسے چلے گی؟ اور انتخابی عمل پرامن انداز میں کیونکر مکمل ہو گا جبکہ دہشت گردی سے قاضی حسین احمد تک محفوظ نہیں۔
آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی کامیابی اور حکومت سازی کے سوال پر میاں صاحب پہلی بار خاصے محتاط انداز میں بولے ”میں قبل از وقت کیا کہہ سکتا ہوں، میں کسی بھی سیاسی مدمقابل حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کو آسان حریف نہیں سمجھتا جو اپنی غیر مقبولیت کی آخری انتہاؤں کو چھو رہی ہے“ حالانکہ چند ماہ قبل قاسمی صاحب کے ہی ظہرانے میں میاں صاحب نے فرمایا تھا کہ پیپلز پارٹی ان کے خیال میں 1977ء کے انتخابات سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر پائے گی۔
اس وقت جبکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کی شاخوں سے اڑنے والے سارے موسمی پرندوں کا رخ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف کی صوبائی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں اور گڈ گورننس سے ووٹروں کی آنکھیں خیرہ کر دی ہیں، نوجوانوں کو ترغیبات کے ذریعے مسلم لیگ کا گرویدہ بنا لیا ہے اور ہر امریکی و برطانوی سفارت کار اسلام آباد کے بعد جاتی عمرا کا رخ کر رہا ہے۔ ایک مقبول، تجربہ کار، زمینی سیاسی حقائق سے باخبر سیاستدان کی اپنی انتخابی کامیابی کے حوالے سے فکر مندی اور محتاط رائے زنی باعث تعجب ہے اور آف دی ریکارڈ گفتگو امانت۔
خوش فہم اور سخن طراز حاشیہ نشینوں کی بات اور ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نوجوان ووٹر جو کہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور پہلی بار انتخابی عمل میں شریک ہوں گے ہر اس سیاستدان کے دل و دماغ میں ہلچل مچا رہے ہیں جسے ذرا بھی حالات کی سنگینی، پرانی سیاست گری کی تباہ کاریوں، موروثی سیاست سے عوام بالخصوص نوجوانوں کی بیزاری اور ان کے خمیر و ضمیر میں امڈتی مچلتی تبدیلی کی بے پایاں خواہش کا احساس ہے اور اس حقیقت کا ادراک کہ عمران خان نوجوان نسل کو متاثر کرنے کے بعد ان بڑوں بوڑھوں کے دلوں پر دستک دے رہا ہے جو مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ ہیں اور انہی سوراخوں سے ایک بار پھر ڈسے جانے پر تیار ہیں جہاں سے وہ دو دو تین تین بار ڈسے گئے۔
عمران خان نے جمود کو توڑا ہے اور جماعتی انتخابات کے ذریعے سیاست کو مخصوص خانوادوں سے نکال کر ایک بار پھر بے لوث عام سیاسی کارکنوں اور باخبر و باشعور نوجوانوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد چاروں صوبوں میں یونین کونسل سے لے کر مرکز اور صوبے کی سطح پر منتخب جماعتی قیادت سامنے آئی تو گزشتہ 65 سال سے قوم کی گردن پر سوار مخصوص چہروں اور نامزدگیوں پر گزارہ کرنے والی جماعتوں کے لئے اس سونامی کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا جس کا ہراول دستہ جوش و خروش اور جذب و جنوں سے سرشار کروڑوں نوجوان ہوں گے۔ اندیشہٴ سود و زیاں سے برتر اور ذاتی مصلحت و مفاد کے بکھیڑوں سے آزاد اقبال کی آرزو اور قائداعظم کی امید نوجوان جو عمران خان کو اپنی تمناؤں کا مرکز بنا چکے ہیں۔
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
جماعتی انتخابات کا کوہ ہمالیہ سر کرکے عمران خان منتخب عہدیداروں اور نوجوانوں کے جلو میں رابطہ عوام کی مہم پر نکلے تو ان کا مقابلہ کردار کشی و الزام تراشی کی کسی مہم اور جوڑ توڑ کے آزمودہ مگر ازکار رفتہ حربوں سے ممکن نہیں۔ جس کا اندازہ ہر سمجھدار سیاستدان کو ہے۔ دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ جانتا ہے مگر مجھے میاں نواز شریف کی گفتگو میں فکر مندی کی جھلک نظر آئی۔ پاکستانی قوم معصوم اور بھولی بھالی ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ دیکھی بھالی چھچھوندروں کو ایک بار پھر منہ میں ڈال لے اور اگلے پورے پانچ سال انہیں نگلے تو اندھی، اُگلے تو کوڑھی ہونے کے خوف میں مبتلا رہے آزاد عدلیہ، خود مختار الیکشن کمیشن، غیر جانبدار نگران حکومت سیاسی پسند و ناپسند سے بالاتر فوج اور فعال میڈیا کی موجودگی میں ان چھچھوندروں کا کوئی داؤ چلنا ممکن بھی نہیں۔