اے خدا! میرے ابو سلامت رہیں

September 02, 2018

ابّو، میرے لیے ایک ایسا گھنا درخت ہیں، جس کی چھاؤں، ٹھنڈک سے میرا ہر دُکھ، ہر غم اور ہر فکر دُور ہو جاتی ہے۔ امّی کے مزاج کا موسم جب کبھی گرم ہوتا ہے اور پارہ اوپر کی جانب دوڑنے لگتا ہے، تو اُن کی گرج چمک کے ساتھ پڑنے والی ڈانٹ کے آگے ابّو ایک ایسا بند بن جاتے ہیں، جس سے امّی کے غصّے کا ریلا ٹکرا کر دَم توڑ دیتا ہے۔ بھلا ماں کی اہمیت سے انکار کی ہمّت کون کر سکتا ہے، مگر میری پرورش اور تربیت میں ابّو کا بھی کلیدی کردار رہا ہے۔ وہ ایک اصول پسند اور دیانت دار انسان ہیں۔ اُنھوں نے ہمیشہ دوسروں کے ساتھ حُسنِ سلوک اور درگزر کرنا سکھایا۔ بچپن میں جب کبھی اپنے کسی بہن، بھائی یا دوست کی شکایت اُن سے کرتی، تو وہ مجھے بہت پیار سے اُس کی خُوبیاں گنواتے اور پھر کہتے،’’ دیکھو، اُس نے تمھارے ساتھ یہ اچھائیاں بھی تو کی ہیں۔ اگر آج کچھ بُرا کردیا یا کہہ دیا، تو اُسے بھول جاؤ اور درگزر سے کام لو۔‘‘ یہ اُن کی تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مَیں اپنی غلطی پر معافی مانگنے اور دوسروں کی خطا کو معاف کردینے میں زیادہ وقت نہیں لگاتی۔

ابّو، میرے ایسے دوست ہیں کہ جن سے مَیں اپنے دِل کی ہر بات کہہ کر نہ صرف مطمئن ہو جاتی ہوں، بلکہ بہترین مشاورت سے بھی سرفراز ہوتی ہوں۔ مجھے آج تک اُن کے دیے گئے کسی مشورے سے نقصان نہیں پہنچا۔ ہماری دوستی کرکٹ میچ دیکھنے سے لے کر بارش میں بھیگنے تک رہی ہے۔ دینی مسائل ہوں یا دنیاوی معاملات، ابّو کی رہنمائی ہمیشہ میرے لیے مشعلِ راہ رہی۔ تعلیمی مشکلات ہوں یا پھر زندگی کے امتحانات، ابّو کے صلاح مشوروں نے ہمیشہ نتیجہ میرے حق میں کرنے میں میری مدد کی، پھر اس بات کا اعتراف بھی مجھ پر لازم ہے کہ ابّو نے بیٹی ہونے کی وجہ سے کبھی میری حیثیت میں کمی نہیں کی، بلکہ بیٹی ہونے کے سبب مَیں اُن کی محبّت کی زیادہ ہی حق دار رہی ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہیں کہ جن سے اُن کی شخصیت و احسانات کا احاطہ کر سکوں۔ بس ہر لمحہ لبوںپر اُن کے لیے دنیا و آخرت میں بہترین اجر ہی کی دُعا رہتی ہے۔ اللہ کریم دنیا کے ہر والد کو سلامت رکھے کہ اُن کے بغیر بَھرے گھر بھی سُونے سُونے لگتے ہیں۔

(آفرین خان، کراچی)