سر رہ گزر۔۔۔۔،،،

August 31, 2018

پنجاب..... جرائم بڑھتے جاتے ہیں

یہ رعایت اپنی جگہ کہ ابھی پنجاب حکومت کو آئے بہت کم عرصہ ہوا ہے اس لئے شکایت کرنااچھا نہیں تاہم کچھ معاملات فوری نوعیت اور اولین ترجیح کے طالب ہوتے ہیں۔ اس وقت پور ے پنجاب میں اسٹریٹ کرائم بڑھتا جارہا ہے۔ مجرم کوشش کریں گے کہ حکومت کو سنبھلنے نہ دیاجائےاور اس کے ابتدائی ایام سے انتہائی فائدہ اٹھایا جائے۔ پولیس سیاسی مداخلت سے آزادی حاصل کئے بغیر اچھی کارکردگی نہیں دکھاسکتی۔ آج مجرم کویقین ہوجائے کہ اسے سزا سے کوئی نہیں بچائے گا نہ ہی کسی مجرم کی سفارش کی جائے گی تو پولیس جسےہم ہمیشہ برابھلا کہتےہیں، وہی ہماری آزادانہ بے خوف و خطر مداخلت کرکے بہترین حفاظت کرے گی۔ پولیس کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر دن دہاڑے صوبائی دارالحکومت میں شہریوں سے بھرے ہوئے اک ریستوران کو گن پوائنٹ پر لوٹا جارہا ہے تو مجرموں کی پشت پر کوئی طاقتور ہاتھ ہے جسے روک کروہ اپنی روزی روٹی سے محروم ہوسکتی ہے۔ اس لئے وہ اپناوجود نمائشی رکھنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتی ہے اور انجان بن کر ڈیوٹی ٹائم گزارنے کی کرتی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کوسب معلوم ہے کہ ان کے زیر انتظام صوبے کے بڑےشہروں میں اسٹریٹ کرائم میں اچانک بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کیامجرموں کی کوئی پشت پناہی ہو رہی ہے کہ وہ جرم کرتے وقت جھجکتے ہیں نہ ڈرتے ہیں۔ جو مجرم پکڑے جاتے ہیں اگر انہیںعبرتناک سزا ملنے میں تاخیر نہ ہو، ان کو چھڑوانے والا کوئی نہ ہو تو جرم کے اس بے لگام گھوڑے کوقابو میں لانا ایک بااختیار حکومت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔ یعنی غضب خداکاکہ دولہے سے اس کی دلہن چھین لی جاتی ہے۔ مجرم بحفاظت فرار ہوجاتے ہیں۔ کیا اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے کسی بڑی منصوبہ بندی کا انتظار کیاجارہا ہے؟ ہمیں توقع ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ہماری معروضات پر ایکشن لیںگے۔

٭٭٭٭٭

لوٹی کب لوٹے گی؟

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے:ملک کی لوٹی ہوئی دولت جلد واپس آنا شروع ہوجائے گی۔ حق مشاورت کے بل بوتے پر یہ خوش آئند دعویٰ اپنی جگہ مگرجہاں جہاں یہ لوٹی ہوئی دولت پڑی ہے وہ تو اپنے کسی کسٹمر کے اکائونٹ کو ہوا نہیںلگنے دیتے، لوٹی ہوئی دولت کیسے واپس دیں گے۔ ہماراسوال ایک عام انسان کا ہے جو اپنی عقل سےکام لیتا ہے۔ ایک ہی حل ہے کہ جزا وسزاکاعمل اس قدر تیز اور بھاری کردیا جائے کہ صاحب ِ دولت خود ہی لوٹ کامال واپس کرنے میںاپنی عافیت سمجھے۔اگرکسی پر ثابت ہوجائے کہ اس نے قومی خزانے کولوٹا ہے تو اسے قابو کرکے ان کے سارے بیرون ملک اکائونٹ بےقابوہو کرہماری جھولی میں آگریںگے۔ ہمارے سامنے سعودی عرب کی مثال موجود ہے۔ کس طرح شاہی خاندان کے لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت حاصل کرلی گئی۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ تقریباً 40برس سے پاکستان میں سیاست، نراکاروباررہاہےگویا 40برس اس ملک کے خزانے کو جمہوریت کی آڑ میں نہایت بیدردی سے لوٹا جاتارہا۔ اب اگروزیراعظم نے تہیہ کررکھا ہے کہ قومی دولت کوواپس لانا ہے تو اس کے لئے سخت اقدامات کرنا ہوںگے ۔ یہ گھی ٹیڑھی انگلی سے ہی نکلے گا۔ اگر احتساب بے لاگ ہوگا، بے رعایت ہوگاتو کوئی وجہ نہیں کہ لٹیرے خود ہی ہماری دولت ہماری ہتھیلی پر نہ رکھیں۔ ہمارے ہاںبالعموم دعوے ایک جیسے ہوتے ہیں اور ان پرعمل بھی ایک جیساہوتاہے یعنی عمل نہ کرنا ہمیشہ قدر مشترک رہی۔ ابھی ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم نئی حکومت بارے کوئی حتمی تنقید کرسکیں مگر حکومتی چال ڈھال دیکھ کر اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ آگے چل کر کیا متوقع ہے۔ ایک طویل عرصے کا جمع شدہ کچرا صاف کرنا آسان نہیں مگرپختہ عزم پوری دیانت کے ساتھ کیا جائے تو مزید دو تین ماہ میں ماہ ِ نو کے طلوع ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ اپوزیشن جتنی بڑی ہے اتنی ہی منتشر۔ کیا یہ مثبت اصلاح کا فریضہ موثر انداز میں ادا کر پائے گی؟ یہ سوال تگڑا ہے مگر اس کے جواب کی امید کمزور، اپنے اپنے مفادات جن کا ملک و قوم سے تعلق نہ ہو ان کی حفاظت ہمیں ہر لحاظ سے غیرمحفوظ بنادے گی۔ ہمارے زندہ رہنےکا پائندہ رہنے کا دارومدار لوٹی ہوئی دولت واپس لانے سے مشروط ہے۔

٭٭٭٭٭

انتظار فرمایئے

کہاتو یہ جاتا ہے کہ انتظار موت سے زیادہ سخت اور تکلیف دہ ہوتاہے مگر جس نے بھی اونٹ پر منزل کی جانب جانا ہوگااسے کوہان توبرداشت کرنا پڑے گا۔ حکمران ہوں یاعوام سب کو انتظارکرنا ہوگا۔ ایک زمانے میں پی ٹی وی بھی انتظارکراتا تھا اور ہم گھنٹوں انتظار کرلیاکرتے تھے۔ اس لئے انتظار کا تجربہ پرانی نسل کو تو ہے نئی نسل نے اس کا سواد نہیں چکھا یایوںکہئے کہ وہ منہ میں انتظار کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ اس لئے ایک مسلسل انتظار میںہیں اوریہ احساس بھی نہیں کہ وہ منتظر ہیں۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ اب منزل ہماری منتظر ہوگی اور اس کے لئے سوئی میں دھاگہ ڈال لیاگیاہے۔ ہمارے سارے چاک سل جائیں گے یاہم رانجھے کی طرح ’’چاک‘‘ (چرواہا) ہی رہیں گےاور بے آب و گیاہ دشت میں اپنی بھینسیںچراتے رہیںگے۔ یہ مقولہ بھی عام ہے کہ صبرکا پھل میٹھا ہوتاہے صبر تو ہم نے بھی بہت کیامگر 71برسوں میں اس لئے میٹھا پھل نہیں پایاکہ ہمارے آنگن میں سر ےسے پیڑ ہی نہ تھا۔ اب بہت درخت اُگائے جارہے ہیں۔ نئی نسل کی نئی نسل ضرور ان کے سائے میں بیٹھ کر میٹھا پھل کھائے گی۔ اگر سودن میں درخت اُگ آئے توسمجھ لیں کہ ایک دن پھل بھی جھولی میں آگرے گا۔ برا ئلر پھل تو ہنگامی بنیادوں پر ملنا شروع ہوجائیں گے مگر خدارا 100دن انتظار تو کرلیا جائے۔ 71سال درخت کاٹے گئے اب لگائے جارہے ہیں، اس لئے انتظار کرناہوگا۔ پھر؎

ہم تم ہوں گے بادل ہوگا

رقص میں سارا جنگل ہوگا

صبر بھی انتظار کی پراڈکٹ ہے اور صبر کرنے والوںکے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔ انتظاراگرچہ نوشتہ دیوار ہے مگراس میں صبرملا دیا جائے تو دیوارمیں بھی رحمتوں نعمتوں کے دروازے کھول دے گا۔ ابھی آپ ہماری میٹھی امید افزا باتوں پر گزارا کریں کیونکہ ہمارا ہیرو ناآزمودہ ہے اور نوآموز بھی، اسلئے بڑی تبدیلیوں پر نظر رکھیں چھوٹی بھول چوک معاف کرتے جائیں اللہ بھلی کرے گا۔ آپ بھول گئے سرکاری ٹی وی کیسے کیسے ہٹ ڈرامے پیش کرتاتھا اس لئے اب اگرچہ کارجہاں دراز ہے مگر انتظار فرمایئے۔

کون بنے گا صدر؟

O۔ خورشید شاہ:اعتزاز کا نام تحریک انصاف نے دیا پھریوٹرن لے لیا۔

انہوںنے تو یو ٹرن لے لیا آپ نے ان کی تجویز نہایت بے لوث انداز میں کیوں قبول کرلی؟

O۔ اعتزاز احسن:مولانا کی دستبرداری کی امید، تحریک انصاف کے کئی ارکان مجھے ووٹ دیںگے۔

نہ مولانا دستبردار ہوںگے البتہ سیکرٹ بیلٹ میںہم نہیں جھانک سکتے۔

O۔ عامر لیاقت حسین نے سپریم کورٹ سے غیرمشروط معافی مانگ لی۔

اور تحریک انصاف نے عامر لیاقت حسین سے معافی مانگ لی۔

O۔ لاہور میں بجلی کا بڑا بریک ڈائون

بس بریک ڈائون بجلی تک ہی رہے۔

O۔ بھارت کے دریائے چناب پر پاور منصوبے پاکستان کا شدید اعتراض

ہمیں مودی کی آبی دھمکی نہیں بھولنی چاہئے۔ بہرحال مذاکرات ہوئے یہ بھی بڑی بات ہے۔ بات ہے پانی کی اور پانی سےزندگی ہے۔ ہماری زندگی اگر خطرے میں پڑتی جارہی ہے تو پھر تاریخ گواہ ہے کہ پانی کے تنازعات کے انجام کیا نکلے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)