بیٹی بیمار ہے صاحب

September 05, 2018

جنید فیروز

سفید چہرہ ، آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے، بے ترتیب بال ، سہما ہوا لہجہ اور پریشان حال پرانے، مگر صاف سُتھرے کپڑوں میں ملبوس وہ روزانہ صبح میرے پاس آیا کرتا تھا۔

وہ باپ تھا، مجبور باپ، ہارا ہوا باپ،

” صاحب میری بیٹی بیمار ہے، اس کا آپریشن ہے ،خدا کے لئے میری کچھ مدد کر دیں، اللہ آپ کو بہت اجر دے گا” ۔

کام میں مگن دوکان پہ بیٹھے کیلکولیٹر پر تیزی سے اُنگلیاں چلاتے ہوئے کن اکھیوں سے میں نے اس کی طرف دیکھا اور گویا ہوا، اچھاخوب یہ کام ٹھیک ہے،

یہ مانگنے کے نت نئے طریقے کہاں سے نکال لیتے ہو تم لوگ؟ کبھی ماں بیمار ہے تو کبھی بیوی اور بیٹی، اچھا طریقہ ہے حرام خوری کا، چنگے بھلے ہو کوئی کام دھندہ نہیں کر سکتے، مانگنے چلے آتے ہو منہ اُٹھا کے‘‘۔

’’صاحب کرتا ہوں کام، مگر تین سو روپےدیہاڑی میں گھر کا چولہا بڑی مشکل سے جلتا ہے، بیٹی کا علاج کیسے کراؤں؟ آپ حسبِ توفیق میری مدد کر دیں، احسان مند رہوں گا اللہ آپ کو ہزار گنا اجر دےگا “۔

میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی دس روپے کا نوٹ اسے تھماتے ہوئے دس ہزار باتیں سُنا دیں، جیسے اپنی ساری جمع پونجی اسے تھما رہا ہوں اور وہ نظریں جھکائے دس روپے کا نوٹ لیتا دعائیں دیتا رخصت ہو گیا۔

یہ پہلی دفعہ جب میری دوکان پر آیاتھا، تب کا واقعہ ہے ۔ اب یہ سلسلہ روز چل نکلا ،وہ آتا سوال کرتا۔ میں باتیں سُناتا وہ سر جھکائے کھڑا رہتا۔ میں دس روپے دیتا۔ وہ دعائیں دیتا رخصت ہو جاتا۔

ایک دن ایسا ہوا کہ صبح مسجد سے واپسی پر میرے والد صاحب نے مجھے پانچ سو روپے دیئے کہ کسی ضرورت مند کو دے دینا اور وہ اکثر ایسا کرتے رہتے ہیں، اس لئے پیسے میں نے جیب میں رکھے اور دوکان کی راہ لی ۔حسب معمول پہلے کی طرح سب سے پہلے، اسی فقیر نے آ کر مودبانہ اور سلجھے طریقے سے سوال کیا اور میں نے سب سے پہلے اسے خوب الٹی سیدھی سنائیں اور پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اسے خبردار کیا کہ،’’یہ تمہارے پورے چھ مہینے کی خیرات ہے اب چھ ماہ تک تم دوبارہ میری دوکان کے آس پاس بھی نظر آئے تو تمہاری خیر نہیں” اور وہ روزانہ کی طرح سر جھکائے دعائیں دیتا نظروں سے اوجھل ہو گیا، تقریباً دو ہفتے تک تو وہ دوبارہ نظر نہ آیا پھر ایک دن میں اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا کہ وہ فقیر نمودار ہوا ۔ اسے دیکھ کر جھٹ سے میرا پارہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔

’’حرام خور،تم پھر آ گئے؟ کیا کہا تھا میں نے، ذرا سکون نہیں بہت ڈھیٹ آدمی ہو‘‘۔

اس نے میری طرف خاموشی سے دیکھا اور بند مُٹھی میری سامنے کاونٹر پر رکھ کر کھول دی، اس میں کچھ پیسے تھے ۔ خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا،” یہ کیا ہے؟‘‘

’’صاحب آپ نے جو پیسے دیئے تھے، ان میں سے کچھ بچ گئے تھے وہ واپس کرنے آیا ہوں کیوںکہ میری بیٹی کا پچھلے ہفتے انتقال ہو گیا ہے، مجھے اب ان پیسوں کی ضرورت نہیں۔ آپ رکھ لیں میں مجبور تھا فقیر نہیں اور آپ لوگوں کی بہت مہربانی جو میرے مشکل وقت میں مجھ بے بس اور لاچار کے کام آئے ۔ اللہ آپ کو کبھی کسی شے کی کمی نہ کرے ،خوش اور آباد رکھے “۔آنکھوں میں جاری آنسووں اور کانپتی آواز کے ساتھ وہ میرا شکریہ ادا کر رہا تھا اور میں اس کی کھلی مُٹھی کو بت بنا اپنی کرسی پہ بیٹھا مارے شرم اور ندامت کے زمین کے پھٹ جانے اور دفن ہو جانے کا انتظار کر رہا تھا۔

وہ شکریہ ادا کرنے کے بعد رکا نہیں، آج بھی ڈھیروں دعائیں دیتا رخصت ہو ا تھا، مگر مجھے اپنے حلق میں درد کا ایک گولا اٹکا ہوا محسوس ہو رہا تھا ،جس کو نگلنے میں کافی وقت لگا ۔

انسانی فطرت بھی کمال کی ہوتی ہے غریب کو اس کی غریبی کا احساس دلانے اور اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے اپنی نیکی کو گناہِ کبیرہ میں بدل کر سکون کےطلب گا ر،رہتے ہیں ۔

اللہ نے ہمیں جب ایسی بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے، جس کے ہم ذرا بھی لائق اور قابل نہیں تو پھر ہم کیوں اس کے دیئے ہوئے رزق میں سے کسی ضرورت مندکو دیتے ہوئے اکڑتے ہیں۔