موسم، مزاج اور میڈیا

September 07, 2018

ابھی ایک روز ریڈیو پر اعلان ہوا کہ آج موسمِ خزاں کا پہلا دن ہے۔ باہر نکل کر دیکھا تو ساری ہریالی جو ں کی توں کھڑی جھوم رہی تھی۔خزاں کا موسم خاموشی سے کب آیا ہے۔ ایسا غضب کا پت جھڑ ہوتا ہے کہ جب تک سارے درخت برہنہ نہ ہوجائیں، موسم اپنے تیور دکھائے جاتا ہے۔اب پتہ نہیں قدرت نے موسم کیلنڈر دیکھ کر بنائے ہیں یا کیلنڈر موسم کی آمد ورفت دیکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں تو بارہ مہینوں کے نام موسم کی مناسبت سے ہوتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں ۔ ہم نے ہمیشہ دیکھا،مون سون کی گھٹائیںہر بارمقرر ہ تاریخ پر آیا کرتی تھیں اور کھیتی باڑی پر جینے والا معاشرہ اپنے چھپّر میں بیٹھا اپنی زمینوں پر باران رحمت کا چھاجوں اترنا دیکھ کر نہال ہوا کرتا تھا۔سنا ہے، بلکہ مشاہدہ ہے کہ موسموں کا یوں مقررہ دنوں میں آنے جانے کا نظام کچھ لڑکھڑانے لگا ہے۔ وہ جو لگے بندھے دن تھے، کسان کو سب پتہ تھا کہ ہوا کدھر کی ہے تو کل موسم کیساہوگا، آسمان سرخ ہے تو کل مطلع صاف رہے گا، بادل پھٹے ہوئے ہیں تو کہیں برس کر آئے ہیں۔ اس طرح کے ٹوٹکے ہوا کرتے تھے۔ اب بھی برطانیہ کے ٹی وی پر ہم دیکھتے ہیں کبھی کبھی کسانوں کو آزمانے کے لئے ان سے پوچھا جاتا ہے کہ موسم کے ڈھنگ کیا کہتے ہیں۔مگر دکھ کی ، بڑے ہی دکھ کی بات یہ ہے کہ دنیا کا موسم ایک عجیب سے ہیجان کا شکار ہے۔کہیں طوفان پر طوفان آرہے ہیں، ریگستانوں میں سیلاب آرہے ہیں، تپتے ہوئے صحراؤں پر برف گر رہی ہے، بڑی بڑی سمندروں جیسی جھیلیں سوکھ رہی ہیں، ان میں جینے والی مخلوق بوند بوند کو ترس رہی ہے،مچھلیاںمر رہی ہیں، مرغابیاں صدیوں سے جن علاقوں کے پھیرے لگایا کرتی تھیں،اپنی راہ بدل کر کسی اور سمت نکل گئی ہیں۔کونجیں نئے بسیروں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔ جنگل سوکھ رہے ہیں اور ان میں آئے دن آگ بھڑک رہی ہے۔ مجھے اپنا بچپن یاد ہے، ہمارے گھر کے کوٹھے سے دہرہ دون کے پہاڑ نظر آتے تھے، ان میں سال کے سال آگ لگا کرتی تھی اور وہ بھی اتنی باقاعدگی سے کہ ہم نے حیران ہونا چھوڑ دیا تھا۔ امریکہ کے مغربی ساحل پر جنگلوں نے سال کے سال جلنے کا وتیرہ اختیار کر لیا ہے۔ سارا قصور موسم کا ہے جسے یوں بیان کرتے ہیں کہ ’دنیا گرم ہورہی ہے‘۔ جاڑے پہلے بھی آتے تھے، گرمیاں اس سے قبل بھی آتی تھیں اور وہ بھی یوں جھلساتی ہوئی کہ زمین تونس جاتی تھی۔ وہ سب اب بھی آتا ہے مگر کچھ زیادہ ہی کرّو فر سے۔ جاڑے آتے ہیں تو جانے کا نام نہیں لیتے، گرمیاں طول کھینچتی ہیں تو بچوں کے اسکول بند کرنے پڑتے ہیں۔ بارش کا تو یہ معمول ہو چلا ہے کہ یا تو برسے گی نہیں یا ایسے برسے گی کہ طوفان اٹھا دے گی۔ مطلب یہ کہ قدرت کے نظام میں دخل دے دے کر انسان نے اپنے کرّہ ارض کے معمولات کو تلپٹ کرڈالا ہے ۔

یہ تو ممکن نہیں کہ انسان خطا کرے اور سزا نہ پائے۔ زمین کی فضا کو آلودہ کرنے کی سزا یوں مل رہی ہے کہ جیسے جیسے قدرت کے آراستہ کئے ہوئے موسم ہراساں ہیں اس کا سارا، تمام تر، کل اثر انسان کے ذہنوں پر بھی پڑرہا ہے ۔یہ پہلے بھی ہوتا تھا کہ زیادہ گرمی ہو تو لوگ چڑ چڑے ہوجایا کرتے تھے،پھوہار پڑے تو مستیاں سوجھتی تھیں، شدید جاڑے ہوں تو اور طرح کے پکوان پکا کرتے تھے۔ لیکن وہ سب ایک مقررہ وقت پر ہوا کرتا تھا۔ اب کیا ہے،یہ کہ موسم کا کوئی دین دھرم نہیں رہا۔ نہ موسم کے مزاج ملتے ہیں نہ زمین پر آباد خلقت کے۔ انسان کے کُل رویّے بدل رہے ہیں ۔ اضطراب بڑھ رہا ہے۔ ہر کام کی جلدی ہے۔ جو ہونا ہے ابھی ہو جائے، مہلت نہیں، رعایت نہیں۔ ہماری ہتھیلی ہو اور اس پر جمی سرسوں ہو تب ہمیں قرار آتا ہے۔ اسی طرح موسم کے اثرات نے صبر وقرار کے تصور کو یکسر بد ل ڈالا ہے۔ غضب کا اشتعال ہے۔ ذرا سی گرما گرمی ہو تو ہتھیار نکل آتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں، مخالف کو مار بھی ڈالتے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ کہیں کوئی قتل ہوتا تھا تو کسی نہ کسی رنگ کی آندھی آتی تھی۔ اب آندھیوں نے آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اسی بے صبری اور بے چینی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سڑکوں پر حادثے زیادہ ہونے لگے ہیں۔ صبح و شام ، اٹھتے بیٹھتے ٹریفک حادثوں کی اندوہناک خبریں آتی رہتی ہیں اور پورے پورے کنبے مرجایا کرتے ہیں۔ موسم کا اثر مزاجوں پر کس طرح پڑرہا ہے، کبھی سیاست کے اکھاڑے میں دیکھئے۔ لوگ نہ صرف دوسروںسے بلکہ اپنے آپ سے بھی الجھنے لگے ہیں ۔کبھی کبھی لگتا ہے سارا معاشرہ حزب اختلاف ہوگیا ہے۔ ہر ایک کو ہر ایک میں عیب نظر آنے لگے ہیں۔ خوبیاں جیسے نصیب دشمناں ہوئیں، جو ہے لوگ اس میںکیڑے ڈال رہے ہیں۔ کوئی کامیاب ہوا تو اس پر جھلّا رہے ہیں کہ کیوں کامیاب ہوا۔ کوئی آگے بڑھ گیا تو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اسے پیچھے کھینچ رہے ہیں۔نہ کوئی دلیل کار گر ہورہی ہے نہ کوئی منطق۔ جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے اور بس۔ کسی زمانے میں رواداری نام کی ایک شے ہوا کرتی تھی۔ اب تو ذہنوں میں منفی انداز فکر کی راہ داری رہ گئی ہے۔نتیجہ یہی ہوا ہے کہ سچ بات کہنے والے چپ ہوکر ایک طرف کو دبک گئے ہیں۔کسی معاشرے کے حق میں یہ خاموشی بڑے ہی دکھ دیتی ہے۔

یہ اکھاڑا دیکھنا ہو تو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ جو نئی وبا ہم پرنازل ہوئی ہے جسے سوشل میڈیاکہتے ہیں اس میں اور خاص طور پر فیس بُک میں قدم رکھ کر دیکھئے۔ لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں ۔ ان پر نہ کوئی روک ہے نہ کوئی تھام۔مادر پدر آزاد مکالمہ جاری ہے۔نہ تہذیب رہی نہ شائستگی۔ جو ہے اپنی رائے کو آخری قرار دے رہا ہے جسے نئی زبان میں حتمی کہنے لگے ہیں۔اور آخری غضب یہ کہ لوگو ،اگر یہ سب موسم کا کیا دھرا ہے تو اس کے بہتر ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ کوئی ماہر سے ماہر کھیتی باڑی کرنے والا کسان بھی نہیں بتا سکتا کہ کل کیا ہوگا، کیا غضب کا سوکھا پڑے گا یا کوئی سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)