ادبی تنقید میں اختلافِ رائے کی اہمیت

September 12, 2018

ڈاکٹر فرمان فتحپوری

’’اختلافِ رائے‘‘ ادب سے متعلق ہو یا زندگی کے کسی اور شعبے سے، اس کا وجود، بہرحال ایک فعال اور ارتقا پذیر معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اختلافِ رائے صرف یہی نہیںکہ انسان کے فکری تموج اور جولانی طبع کا سراغ دیتا ہے، بلکہ قوت تمیز کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اختلافِ رائے کا وجود، معاشرے کے استحکام، تزئین اور بقا کے لیے ناگزیر ہے۔

ادبی اور غیر ادبی مسائل میں اختلافِ رائے کی نوعیتیں اور اس کے نتائج کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔ غیر ادبی مسائل یا علم و فن کے دوسرے شعبوںمیں اختلافِ رائے سے آخر کار ایک نتیجہ خیز بات نکل آتی ہے اور سارے علمائے تحقیق و تنقید اس بات پر بہر طور متفق ہوجاتے ہیں، گویا سائنس اور دوسرے معاشرتی علوم میں اختلافِ آرا سے بالعموم کُلیے اور صداقتیں وجود میںآتی ہیں۔ ایسے کُلیے اور صداقتیں، جنہیں ہم اس وقت تک کے لیے قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جب تک کہ کسی خارجی ثبوت یا تجربے کی مدد سے اس نتیجے کو رد نہ کرسکیں۔

تخلیقی یا خالص ادبی مسائل میں جن کا تعلق خارجی واقعات و حقائق سے نہیں، بلکہ احساس و وجدان اور روحانی تجربات سے ہے، اختلافِ رائے کے نتائج کا سلسلہ اس سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ تخلیقی ادب میں اختلافِ رائے کا جنم دیا ہوا کوئی نتیجہ کبھی مُردہ نہیںہوتا، بلکہ ہر نتیجے کو ایوانِ ادب میں ایک روشن چراغ کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے، اس ایک چراغ سے دوسرا، دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے چوتھا چراغ، غرض کہ چراغ سے چراغ جلتا رہتا ہے، لیکن کوئی چراغ کبھی پوری طرح گل نہیںہوتا، بلکہ ادب کے کسی نہ کسی جز و یا گوشے کو منور رکھتا ہے، جس طرحاعلیٰدرجے کا ادب یا اس کا کوئی جزو کبھی مرتا نہیںہے، بلکہ ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے انسانی روح اور ذہن دونوں کی سیرابی کا سامان فراہم کرتا رہتا ہے، بالکل اسی طرحاختلافِ رائے کا نتیجہ بھی ادب میںبے جان نہیںہوتا، بلکہ ادب کو ایک نیا رُخ اور نئی سمت دینے کا وسیلہ ہے۔

افلاطون نے کہا کہ شاعری نقل کی نقل ہے، اس لیے بے وقعت ہے۔ ارسطو کے خیال میں شاعری نقل کی نقل ہو کر بھی اصل سے بہتر ہے، اس لیے وقیع ہے۔ ڈرائیڈن نے کہا کہ شاعری کا بنیادی کام مسرت بخش ہے۔ ڈاکٹر جانسن نے اس پر یہ شرط لگائی کہ شاعری اس وقت تک مسرت بخش نہیں ہو سکتی، جب تک وہ انسانی فطرت کی ترجمان نہ ہو۔ ورڈز ورتھ نے رائے دی کہ شاعری کا اصل کام انسانی معاشرے کی عظیم مملکت کو جذبے اور علم سے منور کرنا ہے، اس لیے شاعر کو عام انسانوں کی زبان اختیار کرنا چاہیے۔ کولرج نے کہا کہ شاعری کا سارا حُسن اور اس کی ساری قوت، اس فلسفیانہ اصول میںہے، جسے ہم ادب کا طریقۂ کار کہتے ہیں، اس لیے اس طریقۂ کار کی زبان کو عام بول چال سے زیادہ پُر وقار اور دلکش ہونا چاہیے۔ میتھوار نالڈ نے رائے دی کہ محض فنی برتائو یا جذبے کی شدت سے نہیں،بلکہ شاعری میںعظمت کے آثار موضوع کی سنجیدگی اور جذبے کو خیال سے منسلک کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ والٹرپیٹر کے خیال میں فن، چونکہ ایک مخصوص مزاج کے فرد کا ذاتی تجربہ ہے، اس لیے نظریات اور اخلاقیات کی سخت گیری سے آزاد ہونا چاہیے۔ ہربرٹ ریڈ نے کہا کہ شاعری کا اصل کام شخصیت کا انفرادی اظہار ہے۔ ٹی۔ایس ایلیٹ نے رائے دی کہ شاعری کا کام شخصیت کا اظہار نہیں،بلکہ فن کاری کا ظہور ہے۔

اس طرحکی اور نہ جانے کتنی رائیں، اختلافِ آرا کے نتائج کے طور پر ادبیات کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔ ادب کے تقاضے کچھ ایسے ہیںکہ یہاںدو اور دو چار کی صورت میں کوئی قطعی نتیجہ نکلتا بھی نہیں، جس دن ایسا ہوا، ادب، ادب نہ رہے گا، کچھ اور ہوجائے گا۔ اس لیے ادبی مسائل میں اختلافِ رائے کی نوعیت، سخت اور قطعی نہیں، بلکہ لچکدار اور نرم ہونی چاہیے۔ جو لوگ ادبی مسائل میں اختلافِ رائے کے ذریعے فیصلے صادر کرتے ہیں، اپنی رائے کے آگے دوسری رایوںکو مہمل گردانتے ہیں اور اپنے نتائج کو قطعی اور اٹل خیال کرتے ہیں وہ ادب اور ادیب دونوں کے منصب سے ناآشنا ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اپنی رائے پر بے جا اصرار ادب کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے گا، لیکن ایسے ادیبوں کو ضرور لے ڈوبے گا۔