سیاست کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے!

September 13, 2018

پاکستان کے قیام، استحکام اور جمہوریت کی شمع جلائے رکھنے میں مدبرانہ کردار ادا کرنے والے مردان حُر ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں جسے ہماری آنے والی نسلیں کبھی نہیں بھولیں گی مگر ان خواتین رہنمائوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جنہوں نے صنف نازک ہونے کے باوجود انتہائی نامساعد حالات اور مشکل ترین بحرانوں کا آہنی عزم و حوصلے سے مقابلہ کیا اور محبان وطن کی راہ طلب سے درد کے فاصلے مختصر کرتی چلی گئیں۔ اس حوالے سے معتبر ترین نام مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ہے جنہوں نے ہر مشکل میں اپنے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور جمہوریت کے دفاع کےلئے ایوبی آمریت کا انتہائی دلیری سے مقابلہ کیا، پھر تحریک پاکستان کی صف اول کی رہنما بیگم شاہنواز اور ان جیسی دوسری خواتین کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ 1970کی دہائی کے بعد جمہوریت کے لئے بیگم نصرت بھٹو، شہید بے نظیر بھٹو اور بیگم کلثوم نواز شریف کی جدوجہد ہماری تاریخ کا قابل فخر حصہ ہے۔ بیگم بھٹو نے اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور کلثوم نواز نے پرویز مشرف کے ہاتھوں اپنے شوہر میاں نواز شریف کی اقتدار سے جبری علیحدگی اور جلا وطنی کے بعد جمہوریت کا پرچم بلند رکھنے کے لئے قوم کو جس طرح متحرک کیا، اس کی یادیں آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ قافلہ جمہوریت کی ایک سالار بیگم کلثوم نواز تھیں جو منگل کو کینسر کے موذی مرض سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئیں۔ ان کی میت لندن میں نماز جنازہ کے بعد پاکستان لائی جارہی ہے جہاں جاتی امرا میں انہیں سپرد خاک کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے اخلاقی روا داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن محمد صفدر کو پیرول پر جیل سے رہا کر کے مرحومہ کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت دی۔ حکومت کے اس اقدام کو اگر بیگم کلثوم نواز کی علالت اور ان کے شوہر اور بیٹی کی جانب سے عیادت کے لئے ایک دوبار لندن جانے پر اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے والوں کے رویے کے پس منظر میں دیکھا جائے تو کہنا پڑتا ہےکہ سیاست کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر سیاست اخلاقیات سے عاری نہیں ہونی چاہئے۔ خاص طور پرکسی کی علالت ، موت یا مصیبت پر سیاست بالکل نہیں کرنی چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان نے تین بار خاتون اول بننے والی کلثوم نواز کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ایک بہادر خاتون قرار دیا۔ صدر عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف جسٹس ثاقب نثار اور دوسری قومی شخصیات نے بھی ان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے، جن سیاستدانوں نے ان کی علالت کو ڈھونگ قرار دے کر مذاق اڑانے کی کوشش کی تھی وہ بھی آج اپنے کہے پر شرمندہ ہیں۔ ان میں سے چوہدری اعتزاز احسن نے بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا اور شریف خاندان کی دلآزاری پر معافی مانگ لی۔ بیگم کلثوم نواز شہرہ آفاق گاما پہلوان کی نواسی اور ایک معروف کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اردو ادب میں اعلیٰ ڈگری ہولڈر ہونے کے ناتے انہیں ادب سے خاص شغف تھا، پرویز مشرف کے خلاف جمہوری جدوجہد کے حوالے سے انہوں نے ایک کتاب ’’جبر اور جمہوریت‘‘ لکھی۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی تین سال تک صدر رہیں اور سیاسی نشیب و فراز کا بڑی ہمت اور وقار سے مقابلہ کیا لیکن جب نواز شریف 2008میں جلاوطنی سے واپس آگئے تو سیاست چھوڑ کر پھر گھر داری سنبھال لی تاہم نواز شریف کو جب بھی کوئی مشکل پیش آئی ان سے مشورے کرتے رہے صدقہ خیرات، مستحقین کی امداد ان کا خاص وصف تھا، ایک بڑے سیاسی لیڈر کی بیگم اور بذات خود ایک بڑی لیڈر ہونے کے باوجود وہ عاجزی اور انکساری کا مجسمہ تھیں، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے درست کہا کہ کلثوم نواز کی رحلت سے سیاست کا ایک عہد ختم ہو گیا۔ وہ ایک مثالی بیوی، مثالی ماں اور مثالی بیٹی تھیں، جمہوریت کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔ شریف خاندان پر آنے والے مشکل اور کٹھن ادوار میں انہوں نے جس ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی رہنمائوں کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور بعض دوسرے ملکوں نے بھی ان کی وفات پر تعزیتی بیانات جاری کئے ہیں، کلثوم نواز چل بسیں مگر ان کی انسانوں سے محبت یادگار رہے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998