سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا

September 14, 2018

دو روز پہلے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنے چند وزراء کے ساتھ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر گئے جہاں انہیں ایک بھرپور بریفنگ دی گئی۔ اس بریفنگ کا دورانیہ آٹھ گھنٹے پر مشتمل تھا۔ اس سے قبل جو بریفنگ جی ایچ کیو میں دی گئی تھی اس کا دورانیہ بھی کم و بیش آٹھ گھنٹے ہی تھا۔ ان دونوں بریفینگز کے بعد فوجی قیادت خوش بھی ہے اور حیران بھی۔ انہیں خوشی اس بات کی ہے کہ کوئی تو وزیر اعظم ایسا آیا جسے قومی سلامتی کی فکر ہے جو اتنی دلچسپی سے قومی سلامتی کے امور پر بریفنگ لے رہا ہے ۔ انہیں حیرت اس بات پر ہے کہ وزیر اعظم دنیا کی سیاست کو کس قدر زیادہ سمجھتے ہیں اور جنگی معاملات میں کتنی گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ جس دن جی ایچ کیو میں بریفنگ ہو رہی تھی تو وزیر اعظم عمران خان نے سب سے زیادہ سوالات اس وقت کئے جب انہیں ڈی جی ایم او یعنی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بریفنگ دے رہے تھے۔باقی فوجی افسران کے ساتھ ساتھ ڈی جی ملٹری آپریشن جنرل شمشاد ساحر مرزا کو بھی حیرت ہو رہی تھی کہ وزیر اعظم جنگی حکمت عملیوں میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ انہیں سمجھنے کی بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں۔ سوالات کا یہ سلسلہ دیکھ کر فوجی قیادت بہت خوش ہوئی۔ جنرل شمشاد ساحر مرزا، جو اس وقت ڈی جی ملٹری آپریشنز ہیں، بڑے قابل افسر ہیں۔ ان کے کزن جنرل شاہد بیگ مرزا چند ہفتے پہلے تک کور کمانڈر کراچی تھے۔ یہ دونوں مہلال مغلاں کے رہنے والے ہیں۔ یہ قصبہ چکوال سے راولپنڈی کی طرف آئیں تو چکوال اور گوجر خان کے درمیان ہے۔

آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں بھی دی گئی بریفنگ جی ایچ کیو کی طرح خاصی طولانی تھی۔ اس بریفنگ میں بھی وزیر اعظم نے سوالات کئے۔ امریکی رینکنگ کے مطابق آئی ایس آئی دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہے جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ساتواں آٹھواں نمبر ہے۔ اسی طرح گزشتہ کئی سالوں سے دنیا میں جو فوجی مقابلے ہو رہے ہیں پاک فوج کے جوان پہلی پوزیشن حاصل کر رہے ہیں۔ یہ سب پاکستان پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔

ان دونوں بریفینگز میں بہت کچھ زیر بحث آیا، وزیر اعظم عمران خان کی پرکشش شخصیت نے فوجی قیادت کو بہت متاثر کیا۔ اسی لئے تو انہیں اتنے سیلوٹ کئے گئے ، شاید یہ لمبے عرصے کے بعد پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی سول و ملٹری قیادت ایک پیج پر ہیں۔ شاید اسی لئے وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کہتے ہیں کہ ’’سول و ملٹری قیادت صرف ایک پیج ہی پر نہیں، ایک کتاب پر ہیں یہ کتاب پاکستان سے محبت ہے‘‘۔

خواتین و حضرات !اس سے قبل بھی وزرائے اعظم کو بریفنگ دی جاتی تھی مگر ان کی عدم دلچسپی کے باعث فوجی قیادت کو بریفنگ مختصر کرنا پڑتی تھی، ایک وزیر اعظم صاحب تو زیادہ زور لسی پینے پر رکھتے تھے۔ ایک بریفنگ کے دوران تو ایک وزیر اعظم نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ سینڈوچ بڑے مزے دار ہیں، ہمارا کک کیوں ایسے سینڈوچ تیار نہیں کر پاتا۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ کسی کو صرف کھانے سے دلچسپی تھی اور کسی کو ملکی سلامتی سے بہت دلچسپی ہے اسی لئے بریفینگز طول پکڑ جاتی ہیں۔

خواتین و حضرات ! سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز انتقال کر چکی ہیں، ان کی شخصیت پر بعد میں بات کرتا ہوں پہلے ایک واقعہ آپ کو سنا لوں کیونکہ اس واقعہ میں بہت بڑا درس ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید 1993ء میں دوسری مرتبہ ملک کی وزیر اعظم بنیں تو ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن چودھری علی اکبر وینس کو کینسر ہو گیا۔ وزیر اعظم محترمہ کو پتا چلا تو انہوں نے بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے علی اکبر وینس کو وزیر اعظم ہائوس بلایا اور کہا کہ ’’میں آپ کو لندن بھجوا رہی ہوں تاکہ وہاں آپ کا علاج ہو سکے۔‘‘ وزیر اعظم کی زبان سے یہ الفاظ سننے کے بعد سادہ سا جاٹ بولا..... ’’نہیں بی بی ! میں لندن نہیں جائوں گا ، میں نے ٹھیک ہونا ہوا تو یہیں ہو جائوں گا کیونکہ میں نے نیو یارک اور لندن میں اپنی آنکھوں سے قبرستان دیکھےہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں بھی لوگ مرتے ہیں، میں پاکستانی قوم کا پیسہ اپنے علاج پر خرچ نہیں کروانا چاہتا ، میری ماں نے ہمیں کبھی بغیر وضو کے کھانا نہیں کھلایا تھا، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں قوم کا پیسہ اپنے علاج پر خرچ کروں، میں نے کل کو خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔‘‘ بعد میں علی اکبر وینس پاکستان ہی میں ٹھیک ہو گئے تھے، مجھے علی اکبر وینس کے جملے آج بھی یاد آتے ہیںکہ کیسے کیسے لوگ تھے یہاں، کیا شان تھی ان کی، کیا عظیم لوگ تھے۔ ویسے آپ کو بتادیتا ہوں کہ علی اکبر وینس کا خاندان قیام پاکستان کے وقت گوردا سپور سے ہجرت کر کے آیا تھا۔

اب بات کرتے ہیں بیگم کلثوم نواز کی ۔ وہ ایک مدبر خاتون تھیں۔ میری ان سے بہت سی ملاقاتیں تھیں۔ وہ اپنے خاندان کے مشکل وقت میں کام آئیں۔ انہوں نے خاندان کے افراد کی جانیں بچائیں اور ایک معاہدے کے ذریعے انہیں بیرون ملک لے گئیں۔ ان کا موازنہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ یا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں کیونکہ بیگم کلثوم نواز ایک گھریلو خاتون تھیں۔ مجھے ان کے بیٹوں پر افسوس ہےجواپنی ماں کی قبر پر مٹی ڈالنے بھی نہیں آ پائے۔ نواز شریف کے بیٹوں نے یہ خیال ہی نہیں کیا کہ وہ اپنی ماں کی تدفین میں شریک ہوں حالانکہ جان بھی چلی جانی ہے اور مال بھی فانی ہے۔ نظیر اکبر آبادی ایسے مرحلوں پر اکثر یاد آجاتے ہیں کہ:۔

دھن دولت ناتی پوتا کیا کچھ کنبہ کام نہ آوے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)