بجلی بحران کے معاشی اثرات

September 17, 2018

پاکستان میں پچھلے چند برسوں میں بجلی کی پیداوار میں نمایاں اضافے کے باوجود بجلی چوری اور ترسیل کے نظام میں نقائص کی وجہ سے بحران برقرار ہے اور گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ایک بار پھر معمول بن چکی ہے۔اس کے نتیجے میں مقامی صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور قومی معیشت کو سالانہ 5.8ارب ڈالر نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کے 2.6فیصد کے مساوی ہے۔ پاکستان میں 97.5فیصد آبادی کو بجلی کی سہولت دستیاب ہے۔بجلی صارفین نہ صرف ماہانہ استعمال شدہ بجلی کا بل جمع کرواتے ہیں بلکہ لائن لاسز کی مد میں بھی اُنہیں حکومتی خزانے میں پیسے جمع کروانے پڑتے ہیں ، جو ان کے ساتھ کھلی نا انصافی ہے کیونکہ لائن لاسز کے ذمہ دار صارفین نہیں بلکہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہیں۔این ٹی ڈی سی کا بجلی کا ترسیلی نظام اربوں روپے لگانے کے با وجود اوور لوڈ ہو چکا ہے اور اِس وقت ملک بھر کی بجلی ترسیلی کمپنیوں کا مجموعی لائن لاس 141.85ملین یونٹ سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔پنجاب میں لیسکو، سندھ میں سیپکو، کے پی میں پیسکو اور بلوچستان میں کیسکو لائن لاسز میں سر فہرست ہیں۔اس وقت بجلی تقسیم کے نظام میں 500kvکے چودہ، 220kvکے اُنتالیس، 132kvکے چھ سو چھپن اور 66kvکے ایک سو چار گرڈ اسٹیشن موجود ہیں۔66kvکے گرڈ اسٹیشن غیر موثر ہونے کی وجہ سے لائن لاسز کا سبب بنتے ہیں، جنہیں فوری طور پر بند کر دینا چاہئے۔عالمی بینک کی الیکٹریفیکیشن اینڈ ہائوس ہولڈ ویلفیئر ریسرچ رپورٹ کے مطابق بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنا کے اور اسکی تقسیم و ترسیل کے نقصانات پر قابو پا کر قومی معیشت کو سالانہ چھ ارب ڈالر کے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی ترسیل ،تقسیم اور لائن لاسز پر قابو پانے کیلئے توانائی کے شعبہ میں بنیادی اصلاحات کی جائیں تاکہ صارفین کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کیساتھ ساتھ توانائی کی قیمت اور ادائیگی کے مسائل بھی ختم کیے جا سکیں ۔