فارما کمپنیاں پاکستان میں ملین ڈالرز ٹیکس بچا رہی ہیں

September 20, 2018

فخر درانی

اسلا م آباد :…فارما کمپنیاں پاکستان میں ملین ڈالرز ٹیکس بچا رہی ہیں جبکہ آکسفام کی رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ چار کمپنیاں دستیاب اعدادو شمار کے مطابق سالانہ تقریباًسات ترقی پذیر ممالک میں سالانہ تقریباً 112 ملین ڈالرز ٹیکس بچارہی ہیں ۔تفصیلات کے مطابق ادویات کی بڑھتی قیمت نے اگرچہ زیادہ تر کم آمدنی والے افراد کیلئے علاج کو مشکل بنادیا ہے لیکن ٹھیک اسی وقت میں دنیا کی بڑی فارما سیچول کمپنیاں پاکستان میں ہر سال کئی ملین ڈالرز کا ٹیکس بچا کر امیر ترین ہورہی ہیں ،آکسفام کی نئی رپورٹ کے مطابق غربت سے متعلق ٹاپ کی چار ملٹی نیشنل فارماسیچوئل کمپنیوں کے سال 2013 اور 2015 کے درمیان انکشاف کیا ہے ۔اس رپورٹ کے مطابق کمپنیوں نے سات ترقی پذیر ممالک میں سالانہ تقریباً 112 ملین ڈالرز ٹیکسوں سے گریز کیا ہے جہاں کے اعدادوشمار دستیاب ہیں۔ان ملکوں میں چلی ،کولمبیا،ایکواڈور ،بھارت ،پاکستان ،پیرو اور تھائی لینڈ شامل ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی فارماسیچوئل کمپنی سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اس نے صرف پاکستان میں ہی 1.7 ملین ڈالرز کے ٹیکس کا دائو لگایا ہے ۔آکسفام کے پاس پاکستان میں باقی تین رہ جانیوالی کمپنیوں سے متعلق ٹیکسز کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے ۔اس رپورٹ کے مطابق تقریبا 10 لاکھ بچوں کی نمونیا سے سالانہ اموات ہوتی ہے جس میں سے صرف پاکستان میں 91 ہزار کی ہلاکت ہوتی ہے ۔نمونیا ویکسین سے اس اموات کی شرح پرکمی کیلئے اثر پڑ سکتا ہےاور اندازے کے طور پر نہ ملنے والی ٹیکس کی رقم سے ان سات ترقی پذیر ممالک میں 8.9 ملین بچوں کیلئے نمونیا کی ویکسین خریدی جاسکتی ہے۔اگر یہ حکومتیں اس رقم کو صحت کے شعبے میں لگادیں تو یہ 10 ملین لڑکیوں کیلئے اس وائرس کیخلاف ادا کی جاسکتی ہے جو گردن کے کینسر کا سبب بنتا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 90 فیصد کے قریب اس بیماری سے وفات پا جانیوالی خواتین ترقی پذیر ممالک کی ہوتی ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دو کمپنیوں نے 4.7 ملین ڈالرز ہیں جوکہ ایکواڈور کے ہیں اور صرف پاکستان کے 1.7 ملین ڈالرز واجب الادا ہیں ۔ٹیکس بچانے سے عدم مساوات کا بحران بڑھ رہاہے اور امیر و غریب کے درمیان فرق بھی بڑھا ہے ۔جب ادویات کی کمپنیاں ٹیکس بچاتی ہیں تو معاشرے میں غریب ہی ہیں جن پر اثر پڑتا ہے اور حکومت لازمی سروسز کو بجٹ سے ختم کرتی ہیں اور ٹیکس کے دیگر فورم کو اٹھایا جاتا ہے۔آکسفام انٹرنیشنل کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر وینی بیانیمیا کا کہنا ہے کہ ہیلتھ کے بغیر کوئی بھی اپنے بچوں کو بیمار نہیں دیکھنا چاہیےیا خوراک اور ادویات کی خریداری کیلئے زور دیا جائے وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔اب تک یہ ہر روز ہورہا ہے اور ادویات کی کمپنیاں کاروبارکرتے ہوئے اس المیے میں حصہ ڈال رہی ہیں۔ادویات کی کمپنیاں ٹیکس ریونیو سے باہر ہوکر حکومت سے فریب کررہی ہیں یہ ہیلتھ کیئر پر لگایا جاسکتا ہے ۔یہ ادویات کی قیمتیں ایسی لگارہی ہیں کہ وہ غریب آدمی کی پہنچ سے دور رہیں ۔پولیس کی ٹیکس کیلئے کارروائی اور قیمتیں کم کرنے کیلئے کسی بھی کوشش میں اپنی طاقت اور اثر ورسوخ استعمال کرتی ہیں۔آکسفام کے تجزیے سے تجویز ملی ہے کہ یہ چار کمپنیاں منافع کو ملکوں سے باہر منتقل کررہی ہیں کہ جہاں وہ اپنا کاروبار کررہی ہیں اور ٹیکس ہیون میں ہیں وہ یا تو کم ٹیکس لے رہے ہیں یا نہیں لیتے ۔اپنی مالی حالت سے متعلق یہ کمپنیاں رازداری برتی ہوئی ہیں،’’پرسیپشن فار پورٹی‘‘بھی ایک آئوٹ لائن ہےکیسے کمپنیاں ادویات کی قیمتیں بڑھا کر غریب لوگوں کی صحت کو کمزور کررہی ہیں ،رپورٹ میں یہ بھی تفصیلی ہے کہ کیسے فارماسیچوئل انڈسٹری کیسے اپنی معاشی اور سیاسی پیوند کو حکومتی پالیسی کے ٹیکس ،تجارت اور صحت کے شعبے میں اپنے مفاد کیلئے استعمال کررہی ہے ،بالخصوص ایسا امریکا میں ہے کہ جہاں انڈسٹری سالانہ 200 ملین ڈالرز لابی اور سیاسی ڈونیشن پر خرچ کردیتی ہے ۔غریب ممالک میں اکثر پبلک سروسز بہت کم ہیں اور غربت کی شرح بہت زیادہ ہے ۔اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق غریب ملک ہر سال 100 ارب ڈالرز کارپوریٹ ٹیکس بچاتے ہیں ،بیانیمیا کا مزید کہنا تھا کہ یہ ادویات کمپنیاں بذات خود ہی سماجی ذمہ داری پر فصیل ہیں لیکن ان کا تجارتی کام ایک الگ ہی کہانی بتاتا ہے ۔کمپنیاں لازمی اپنا ٹیکس ادا کریں ،اپنی ادویات کو لوگوں کی پہنچ کے مطابق بنائیں اور ان حکومتی قوانین میں کانٹا نہ بنیں جو عدم مساوات اور غربت کیخلاف لڑائی کے ہیں ۔حکومت بھی لازمی طور پر ان کمپنیوں پر زور دے کہ وہ اپنی مالی معلومات کو ہر ملک میں شائع کریں کہ جہاں وہ اپنا کاروبارکررہی ہیں ،اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس کا واضح حصہ دے رہی ہیں ۔