..... ادا کر رسم شبیریؓ

September 21, 2018

آج دس محرم ہے، آج کے دن نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ نے دین حق کے راستے میں اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا، کربلا میںانہوں نے انسانیت کو زندگی کے کئی اسباق سکھائے تھے، شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میں حضرت امام حسینؓ کا تذکرہ کئی حوالوں سے محبت کے ساتھ کیا ہے، کربلا کے میدان میں حضرت حسینؓ نے عشق کے جو اسباق پڑھائے تھے، علامہ اقبالؒ انہی اسباق میں سے اپنی شاعری کے ذریعے جدید دور کے مسلمانوں کوآگاہی بخش رہے ہیں، ایک سوئی ہوئی قوم کو جگانےکی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ جدید دنیا کے مظالم کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ کربلا، کوفہ اور شام کے تمام مظالم سامنے آجاتے ہیں، ان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، شاید اسی لئے وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ؎

حقیقت ابدی ہے مقام شبیریؓ

بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

علامہ اقبالؒ نے کئی مرتبہ واقعہ کربلا کویاد کرتے ہوئے جدید دور کے مسلمانوں کی پستی کو بیان کیا ہے ، انہیں کربلا سے ملنے والے درس کے راستے سے جگانے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی یہ کوششیں ایک صدی پہلے تھیں، بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک صدی بعد بھی مسلمان دنیا میں عظمت کی بلندیوں پر نہیں ہیں بلکہ رسوائیوں کا شکار ہیں، مسلمانوں کی حالت زار کا اندازہ ان دو تین باتوں سے لگایئے۔ مثلاً مسلمانوں کے ملک شام میں ایک بچہ بم دھماکے میں زخمی ہوا، زخم گہرے تھے، زخموں کے درد کی شدت میں جونہی دم توڑنے لگا تو بے بسی کے عالم میں کہنے لگا کہ ’’میں اوپر جا کر اپنے رب کو تمام حالات بتا دوں گا‘‘ بے بسی کی ایک اور تصویر دیکھئے۔ عراق میں لڑائی ہورہی تھی، قتل و غارت کے مناظرتھے اس دوران ایک بھاگتے ہوئے کیمرہ مین سے ایک مسلمان بچی کہتی ہے ’’انکل اللہ کے واسطے میری عکاسی نہ کرنا، میری تصویر نہ بنانا، انکل میں اس وقت بے حجاب ہوں‘‘۔

مسلمانوں پر جاری مظالم کی داستانیں بہت دراز ہیں، اس میں سب سے زیادہ قصور خود مسلمانوں کا ہے وہ دنیا کے کئی ملکوں کے سامنے خود بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، خود ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، ایک تصویر اور دیکھ لیجئے۔ ارض فلسطین سے ایک بہت پیارا بچہ بھوک کی شدت کو محسوس کرتا ہے، بھوکے کوکچھ نہیں ملتا تو رونا شروع کردیتا ہے پھر رو رو کر نڈھال ہو جاتا ہے، ہچکیاں لیتا ہے اور پھر ان ہچکیوں میں اپنے رب سے التجا کرتا ہے ’’اے میرے اللہ مجھ سے میری زندگی لے کر مجھے جنت میں بھیج دے تاکہ میں پیٹ بھر کے کھانا کھا سکوں‘‘۔ ایک افغان بچی کا دھماکے میں بازو زخمی ہوتا ہے، اسے اسپتال لے جایا جاتا ہے، آپریشن کی تیاری ہوتی ہے، ڈاکٹر کہتا ہے کہ ہاتھ کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، یہ سنتے ہی افغان بچی بولتی ہے ’’انکل ڈاکٹر میرا ہاتھ بے شک کاٹ دیں مگر میری آستین نہ کاٹنا کیونکہ میرے پاس اس کے علاوہ اور کپڑے نہیں ہیں‘‘ ایک چھوٹا سا کشمیری بچہ کرفیو کے نرم ہوتے ہی سری نگر کے ایک محلے میں اپنے گھر والوں کیلئے آٹا لینے دکان پر جاتا ہے، اسے واپسی پر راستے میں چند بھارتی فوجی درندے روک لیتے ہیں پھر اسے بغیر کسی جرم کے مارنا شروع کردیتے ہیں، وہ روتا ہے، کراہتا ہے، بے بسی کی تصویر بن کر بھاگتا ہے، بس پھر بھاگتے بھاگتے کہتا ہے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ چند روز پہلے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے کولگام میں کشمیری نوجوان کی لاش کی بے حرمتی کی گئی، لاش کو گھسیٹا گیا، برما کے مظالم سےکون واقف نہیں، ہاں ان مظالم پر مسلمان ملکوں کی اکثریت چپ رہی، برما میں عورتوں، مردوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہاں کے فوجی ان کے جسموں کو کاٹتے ہیں، ان پر چھرے چلاتے ہیں، ٹوکے چلاتے ہیں، کرنٹ لگاتے ہیں، ان کے گلے کاٹتے ہیں، وہاں اتنا ظلم ہوتا ہے کہ اب تو ان مظالم پر عالمی عدالت انصاف بھی بول پڑی ہے۔ پورے مشرق وسطیٰ میں مسلمان ملکوں میں تباہی پھیلی ہوئی ہے مگر یہودیوں کا ایک ملک چمکدار خنجر کی طرح سلامت ہے۔ کئی مسلمان ملکوں میں مسلمانوں کے گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ شاید اسی لئے اقبالؒ نے کہا تھا کہ؎

ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

بڑے افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا مسلمان حق کی خاطر لڑنے سے گریزاں ہے، نواسہ رسولؐ تو مظلوموں کی مدد کرنے کیلئے مدینے سے بہت دور کوفے کی طرف آگئے تھے مگر ان کے ماننے والے اپنی ہمسائیگی میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے، آج کے مسلمانوں کو دنیاوی اقتدار اور دولت سے زیادہ رغبت ہے اسی لئے وہ رسم شبیریؓ ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ فلسفہ حسینیؓ تو یہ ہے کہ جابر حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہو جائو مگر افسوس کہ امت مسلمہ کی اکثریت جابر حکمرانوں کے سامنے حق کی خاطر آواز بلند کرنے سے قاصر ہے۔ مسلمان حکمران بھی دنیا کے دوسرے طاقتور حکمرانوں سے خوف زدہ رہتے ہیں ورنہ 57اسلامی ملکوں کے ہوتے ہوئے کسی کی یہ جرات کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ کسی مسلمان بچے کا گلہ دبا سکے، کسی مسلمان عورت کی بے حرمتی کرسکے، کسی مسلمان نوجوان کی لاش گھسیٹ سکے۔ دنیا کے وحشیوں کی یہ جرات صرف اس لئے ہے کہ مسلمان حق کیلئے کھڑے ہی نہیں ہوتے، حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے امت مسلمہ کی بے بسی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بے بسی کے خاتمے کا واحد علاج راہ حسین ؓتجویز کیا ہے جب تک مسلمان حضرت امام حسینؓ کے بتائے ہوئے اصولوں پر نہیں چلیں گے انہیں کامیابی نہیں مل سکتی، جب تک مسلمان ظلم و جبر کے سامنے کھڑے نہیں ہوں گے، رسوائی ان کا مقدر رہے گی، مسلمان جب تک راہ حق پر نہیں چلیں گے ان کی زندگیوں میں کامرانیاں نہیں آئیں گی۔ اسی لئے تو اقبالؒ مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوتے کہتا ہے کہ؎

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)