پاکستان کی نئی حکومت اور مسئلہ کشمیر

September 23, 2018

تحریر:کونسلر ریاض بٹ…لوٹن
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوچکی ہے، پاکستان کی طرح کشمیریوں نے بھی نئے وزیراعظم عمران خان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ خاص طور پر تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں کو اس نئی حکومت سے جو توقعات ہیں ان کو وہ کیسے پورا کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں۔ بھارت کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن بھارتی افواج کے جبر اور ظلم کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو خبریں آرہی ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ بھارتی افواج کا یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے کہ وہ کسی کو بھی گھر سے اٹھا لے جاتے ہیں۔ ان میں خواتین اور چھوٹے بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ خواتین کو سرے عام مارنا، ان کی بے عزتی کے علاوہ عصمت دری تک کی جاتی ہے۔ ایسے معاملات بین الاقوامی برادری کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ جون2018ء میں اقوام متحدہ نے کشمیر کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا گیا۔ وہی رپورٹ مقبوضہ کشمیر کے ایک بہادر صحافی شجاعت بخاری نے سوشل میڈیا پر جاری کی تھی، جس کی قیمت انہیں اپنی جان دے کر چکانا پڑی۔ ایسے حالات میں حکومت پاکستان کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ کشمیریوں کے حقوق کیلئے اور بھارتی مظالم کو رکوانے کیلئے بین الاقوامی برادری سے رابطہ کرے۔ یہ رابطہ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی شکل میں بہتر انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ کشمیر کمیٹی سے ملک کر اور مشاورت کرکے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر فورم پر اٹھائیں اور مظلوم کشمیری عوام کی مدد کریں۔ میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ آزاد کشمیر اور پاکستان سے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو مسئلہ کو سمجھتے ہوں۔ 2001ء میں جب پارلیمانی کشمیر کمیٹی تشکیل دی گئی، اس وقت تحریک آزادی کے نامور مجاہد، مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کو سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ شاہد خان، شیریں مزاری، پی کے شاہانی چوہدری محمد خان اور دیگر لوگوں کو ممبران کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا۔ اس وقت تحریک بھی عروج پر تھی۔ ان لوگوں نے بڑے اچھے انداز میں کام کیا تھا، ہر جگہ اور ہر فورم پر کشمیر کی بات ہوئی تھی جب کہ گزشتہ دس سال میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی زیرو رہی، کمیٹی کے سربراہ نے کسی بھی بیرونی دورے کے دوران کشمیر پر بات نہیں کی۔ ان دس سالوں میں مسئلہ کو سردخانے کی نظر کردیا گیا تھا۔ اسی طرح پاکستان کی گزشتہ دونوں حکومتوں کے اوورسیز ایم ایل اے نے بھی کشمیر پر کوئی کام نہیں کیا۔ اگرچہ ہم نے ان کو برطانیہ میں بسنے والے کشمیریوں کی طرف سے مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔ اس طرح آزاد کشمیر کی گزشتہ تین ادوار کی حکومتوں نے بھی کوئی کام نہیں کیا، بلکہ وہاں پر اقتدار کی جنگ ہی ہوتی رہی، جس سے مسئلہ پس پشت چلا گیا۔ اب آزاد کشمیر کی حکومت میں کوئی ایسا شخص نہیں جو لوگوں کو تحریک کے لیے موٹی ویٹ کرے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کو لوکل مسائل میں الجھا دیا گیا ہے۔ وہ پانی سڑکوں اور سیوریج سسٹم اور دوسرے اداروں کی چیرہ دستیوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان ہماری آپ سے گزارش ہے کہ آپ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو تشکیل دیتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ کمیٹی ان لوگوں پر مشتمل ہونی چاہیے جو مسئلہ کشمیر کے پس منظر سے واقف ہوں اور اپنی بات ہر فورم پر بہتر انداز سے پیش کرسکیں۔ اس سلسلے میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرکے اسی طرح پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود مسئلہ کشمیر پر دسترس رکھنے والوں سے مشاورت کرکے کشمیر کمیٹی کو تشکیل کی جائے تو ایک بہت حسن اقدام ہوگا۔ آزاد کشمیر سے مسعود خان، وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان، سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود، اپوزیشن لیڈر چوہدری محمد یٰسین، عبدالرشید ترابی اور سردار خالد ابراہیم سے بھی مشاورت کی جائے اگر ہوسکے تو ان تمام حضرات کو کمیٹی میں ممبران کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔ قارئین کرائم پارلیمانی کشمیر کمیٹی پاکستان نے گزشتہ10سال میں کوئی کام نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ اب اس غلطی کا ازالہ اسی طرح ہوسکتا ہے، اب پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو بحال کیا جائے اور ہر تین مہینے بعد اس کا اجلاس ہو، جس کی صدارت وزیراعظم پاکستان کریں۔ کمیٹی اس میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ وزیراعظم وزیراعظم کو پیش کریں تاکہ وزیراعظم خود اس کا جائزہ لیں کہ مسئلہ کشمیر پر کیا کام ہورہا ہے۔ ادھر برطانیہ میں بھی بہت سے لوگ کام کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت قیادت کو بھی ان سارے معاملات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً ساری قیادت نظر بند ہے۔ ان کی رہائی کے لیے بھی اقدام کرنے ہوں گے۔ کشمیری اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خود ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مقبوضہ کشمیر کا دورہ کریں، تاکہ انہیں علم ہوسکے کہ بھارت کی افواج نے کشمیریوں کی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے۔