اہواز میں دہشت گردی اور امریکا کے خطرناک ارادے

September 26, 2018

ایران کے شہر اہواز میںفوجی پریڈپر22 ستمبر کو ایک بڑا حملہ ہوا۔ اس حملے کے ردعمل میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر،بھارتی نژاد نکی ہیلی نے ایرانی حکم رانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ملک میں بدامنی کی وجوہ کےبارے میں سوچیں۔ گو کہ نکی ہیلی نے اپنا روایتی بیان دہرایا کہ امریکا ہر جگہ دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے ،مگر دراصل وہ ایرانی صدر حسن روحانی کی اس تقریر کا جواب دے رہی تھیںجس میںانہوں نے کہا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ حملہ کس گروہ نے کیا اور اس کی وابستگی کس سےہے۔ ظاہر ہےکہ ان کا اشارہ امریکا کی طرف تھا۔

ایران کے بارے میں امریکا کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ وہ ایران کوہمیشہ ایسا ملک قرار دیتاہے جس نے ایرانی عوام کو دباکرکھا ہواہے۔ لیکن اس طرحکا کوئی بیان امریکا خلیج کی بادشاہتوں کے بارے میںنہیںدیتا جہاںنام کو بھی جمہوریت نہیںہےاورنہ ہی بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے امریکا ان پر کوئی اعتراض کرتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر آپ امریکا کےاشاروںپر چل رہے ہوںتو آپ کے سارے گناہ معاف ہوسکتے ہیں چاہے آپ بدترین آمر ہی کیوں نہ ہوں۔

اب امریکا یہ کہتا ہے کہ ایران کے عوام ایرانی حکومت سے تنگ آچکے ہیں اور اس کے نتیجے میں اہواز کا حملہ ہوا ہے۔ چوںکہ اب اقوام متحدہ کی مجلس عامہ (جنرل اسمبلی) کا اجلاس ہونے والا ہے اس لیے ممکن ہے کہ نیویارک میں اجلاس کے دوران ایران اور امریکاکی جھڑپ ہو،کیوں کہ صدر روحانی امریکاپر داداگیری کاالزام لگارہے ہیں اور صاف کہہ رہے ہیںکہ امریکا ہی ایران میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ بائیس ستمبر کو ایرانی یوم دفاع کے موقعے پر اہواز میں ہونے والے حملے میں کم از کم 25 افراد مارے گئے تھے جن میں پاسدارانِ انقلاب بھی شامل تھے۔پاسدارانِ انقلاب کا پورا نام سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی ہے جو ایران میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایرانی مسلح افواج کی ایک شاخہے جسے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کا قیام آیت اللہ خمینی کے حکم پر ہوا تھا۔ ایران کی ریگولر فوج کو ارتش کہا جاتا ہے جس کا کام ایران کی جغرافیائی سرحدوںکا تحفظ ہے۔ پاسدارانِ انقلاب بہ راہ راست ایران کے رہبر معظم، ولایت مطلق اور امام علی خامنہ ای کی نگرانی میںکام کرتے ہیں اور منتخب صدر کا عمل دخل اس کے معاملات میںکم ہی ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ریاست کے اندر ریاست کا درجہ رکھتے ہیں جو منتخب عوامی نمائندوں کو جواب دہ نہیں۔

پاسدارانِ انقلاب کا بنیادی کام اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا تحفظ ہے۔ یعنی اسلامی نظام کو بچائیں اور بیرونی مداخلت پر نظر رکھنے کےساتھ ملک میں بغاوتوںکی سرکوبی کریں اور ناپسندیدہ تحریکوںکو کچلیں۔یادرہے کہ ایران کی ریگولرفوج چار سے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ پاسداران انقلاب میں سوا لاکھ سے زیادہ افرادکام کرتے ہیں اوراس کے پاس نہ صرف زمینی دستے بلکہ فضائی اور بحری بیڑےبھی ہیں ۔پاسداران انقلاب کے بحری دستے خلیج میںکارروائی کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان ہی کے کنٹرول میں نیم فوجی دستے، جنہیںبیسج ملیشیا بھی کہا جاتا ہے، کام کرتے ہیں ۔ اس طرح پاسداران انقلاب ایران کی ریگولر افواج کے ساتھ ایک اور بڑی طاقت ہیں۔ بیسج شروع میں رضاکار سویلین دستوںپر مشتمل تھی جنہیں آیت اللہ خمینی کے حکم پر ایران عراق جنگ میںلڑنے کیلئے بھرتی کیا گیا تھا۔پاسداران انقلاب نےبیسج کے ساتھ مل کر ایران کے معاشرے کو پوری طرحاپنی گرفت میں لے رکھا ہے اوروہ ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں۔

حسن روحانی کےبہ قول،اہواز پر حملہ امریکی پشت پناہی سے کیا گیا ہے اور اس میں مبینہ طور پر ایران مخالف عرب گروہ شامل ہیں جنہیں خلیجی ممالک عسکری اور مالی امداد دے رہے ہیں۔اہواز ایرانی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے جس میں پچھلے دس سال سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ اگر ایران کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو خوزستان ہمیں ایران کے جنوب مغربی کونے میں نظر آتا ہے جو عراق اور کویت کے قریب خلیج کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ یہاں کی عرب آبادی کا بڑاحصہ خوزستان پر ایرانی حکومت کو جائز نہیں سمجھتا اور بعض لوگ تو اسے ایرانی مقبوضہ خوزستان بھی کہتے ہیں۔دراصل عرب خوزستان کے انتہائی مغربی علاقوں میں رہتے ہیں اور ایرانی حکومت کسی بھی عرب تحریک کو تسلیم نہیں کرتی اور اس کے مطابق خوزستان میں کوئی علیحدگی کامطالبہ نہیں کر ر ہا ۔ تاہم عربوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں نسل پرستی کی وجہ سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گو کہ یہاں بسنے والے عرب بھی شیعہ ہیں، لیکن وہ خود کو الگ نسلی گروہ سمجھتے ہیں۔1920ء کے عشرے میں پہلوی بادشاہت کا آغاز ہوا تو یہ علاقہ رسمی طور پر ایرانی حصہ رہ چکا تھا، مگر مغربی خوزستان میں عربستان کے نام سے آزاد امارت بھی قائم رہ چکی تھی۔

خوزستان کا مشرقی حصہ بختیاری قبیلے کے ہاتھ میں تھا۔ جب شاہ رضا خان نے اس علاقے پر تسلط قایم کیا تو شیخ خزعلی الکعبی نے بغاوت کردی تھی جسے 1925ء تک کچل دیا گیا اور رضا شاہ نے وہ امارت تحلیل کردی تھی۔ پھر یہاں وقتاً فوقتاً چھوٹی موٹی بغاوتیں ہوتی رہیں جو خوزستان کو عربستان بنانے کےلیے تھیں۔ 1979ء کے اسلامی شیعہ انقلاب کے بعد ایک بار پھر خوزستان سے عربستان کی آزادی کی تحریک چلی۔ 1980ء میں لندن میں ایرانی سفارت خانے کا محاصرہ خوزستان کے عربوں ہی نے کیا تھا جو علیحدگی کی تحریک کی حمایت کررہے تھے۔پھر 1999ء میں تحریک آزادی اہواز نامی تنظیم سامنے آئی جو پچھلےپندرہ ،بیس سالوں میں مختلف کارروائیاں کرتی رہی ہے۔ اس ضمن میں خاص طور پر2005 اور پھر 2011ء میںبڑے احتجاج ہوئے جنہیں ایرانی حکومت نے کچل دیا۔ اس دوران عرب بہار کا بڑا غلغلہ تھا اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ایران پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔مذکورہ احتجاج میں جو عرب شامل ہوئےان میں شیعہ اور سنی دونوں تھے۔2015ء کے بعد سے اہواز کے آس پاس کے علاقوں میں ایرانی حکومت کے اہل کاروں کو نشانہ بنانے کے واقعات ہوتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں ایرانی حکومت مقامی لوگوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ پھر اس قصے میں ایران کی باغی راہ نما مریم رجوی بھی شامل ہوگئیں جو ایرانی حکومت کے مخالف گروہ مجاہدین خلق کی راہ نما ہیں اور لاپتہ باغی رہ نما مسعود رجوی کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے بھی ایران میں خوزستان کے باغیوں کی حمایت کی ہے۔

مجاہدین خلق ایران میں بائیں بازو کی جماعت تھی جسے 1965ء میں قائم کیا گیا تھا اور اس نے شاہ ایران کے خلاف جدوجہد میں امام خمینی کا ساتھ دیا تھا، مگر اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی مجاہدین خلق کے خلاف ہوگئے۔1980ء میں انقلاب کےبعدپہلے صدارتی انتخابات ہوئے تو مجاہدین خلق کے راہ نما مسعود رجوی صدارتی امیدوار کے طورپر سامنے آئے ،مگر امام خمینی نے انہیں اس کے لیے نااہل قرار دے کر مجاہدین خلق کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ اس وقت مجاہدین خلق کو خاصی عوامی حمایت حاصل تھی، مگر ایران کی اسلامی حکومت سے اس تنظیم کو بری طرح کچل دیا۔

اہواز میں ہونے والے حملے کی ذمے داری تنظیم ملی اہواز اور دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے۔ اس حملے میں مسلح افراد نے،جو فوجی وردیا ں پہنے ہوئے تھے ، پریڈ پر فائرنگ کردی تھی۔ اب مجاہدین خلق کی حمایت کے بعد اہواز کی تحریک نے نیا رخ اختیار کرلیاہے اور یہاں بھی شام کی طرح کئی گروہ مل کر کام کررہے ہیں۔دراصل اس خطے میں اسرائیل اور امریکاکے مفادات اس میں ہیں کہ ایران کو غیر مستحکم کیا جائے کیوں کہ ایران عرب ملکوں کے مقابلےمیںبہت زیادہ اسرائیل کی مخالفت کرتا رہاہے۔ فوجی اعتبار سے بھی ایران اس خطے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی حالت میں رہا ہے جس کا مظاہرہ شام میں پانچ سال سے ہو رہا ہےجہاں بشار الاسد کی حکومت کو ایران اور روس کی مدد حاصل ہے۔ اسی لیے امریکا اور اسرائیل شام میں پس پا ہو گئے ہیں۔ شامی حکومت نے ایران اور روس کے علاوہ حزب اللہ سے بھی مدد حاصل کی ہے۔

اسی دوران لبنان کے شدت پسند گروہ حزب اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسرائیلی مخالفت کے باوجود جدید ترین راکٹ حاصل کر لیےہیں۔ اسرائیل وقتاً فوقتاً حزب اللہ سے بھی لڑتا رہا ہے اور اب اسرائیل نے روس کے طیارے بھی گرانے شروع کر دیے ہیں اور اس کا الزام شام پر لگایا ہے۔مغربی ذرایع ابلاغ اسے شامی کارروائی قرار دے رہے ہیں ۔لیکن خود روس اسرائیل کو اس کا ذمے دار قرار دے رہا ہے۔یادرہے کہ ایک حالیہ حملے میں روسی طیارے کےعملے کے تمام پندرہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایران پر امریکی اور اسرائیلی دبائو بڑھے گا اور اندرونی طور پر ایران مخالف قوتوں کو ہوا دی جائے گی۔ وہاں دہشت گردی کی مزیدکارروائیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب ایران پہلے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔ ایسے میں پاکستان، سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے اور سعودی عرب ایران کے خلاف ہے۔

اس وقت اس خطے میں مسائل کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تاوقت یہ کہ اسلامی ممالک باہمی جھگڑے بھلا کر امن کی کوشش کریں اور اس خطے کو شیعہ، سنی اختلافات کی جنگ میں نہ جھونکیں۔ایسے میں سعودی عرب اور پاکستان کو ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے۔