کوئی اس کی مدد ضرور کرتا ہے

October 07, 2018

میری دادی نے گائوں میں اپنی ایک ہم عمر پڑوسن کو سہیلی بنایا ہوا تھا، بچپن سے یہ دونوں ساتھ پلی بڑھی تھیں۔ آپس میںبہنوں جیسا پیار تھا۔ شادی کے بعد بھی دونوںایک دوسرے کے حالات سے ہمیشہ باخبر رہتیں۔ دادیاں بن کر پوتے، پوتیوں والی ہوگئیں، مگر ان کا ملنا جلنا بدستور قائم رہا۔ ان کی اولاد بھی انہیں احترام کی نظروں سے دیکھتی تھی۔ دادی کی سہیلی کو میری والدہ’’ ثریا خالہ‘‘ کہتی تھیں، ان کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی انہیں خالہ ثریا کہنا شروع کردیا۔ کبھی گائوں جانا ہوتا، تو ان سے ملنے ضرور جاتے، وہ خاطرداری میں بِچھ بِچھ جاتی تھیں۔ ان کے گھر کے دالان کے عقب میںایک کمرا تھا، اس کمرے میں خالہ ثریا کی چھوٹی بیٹی شیریں رہتی تھی۔ اس کے پاس گائوں کی پریشان حال خواتین کا آنا جانا رہتا تھا، اس لیے اسے گھر سے الگ تھلگ کمرا بنوادیا گیا تھا۔ شیریں بچپن ہی سے ایک پراسرار کردار کی مانند تھی۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی کو جو دعا دیتی، وہ پوری ہوجاتی تھی۔ اس لیےاکثر گائوں کی غریب اور مسائل میں گِھری خواتین شیریں سے دعا کروانے آیا کرتی تھیں۔ وہ تین بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی، اس کے بعد اس سے چھوٹا بھائی تھا۔ دو بڑی بہنیں دو بھائیوں سے بیاہ کر کراچی چلی گئی تھیں۔ گائوں میں لڑکیوں کا مڈل تک اسکول تھا، لہٰذا دونوں بہنوں نے مڈل تک ہی پڑھا تھا۔ متوسط گھرانے میںکسی قسم کی کوئی مالی پریشانی نہیں تھی کہ ایک روز اچانک اس گھرانے کو ایک گمبھیر پریشانی نے آگھیرا۔

شیریں ایک رات معمول کے مطابق اسکول کا ہوم ورک کرکے جلدی سوگئی۔ اس کی والدہ، ثریا خالہ متمول زمین دار گھرانے کی خواتین کے کپڑے سَیا کرتی تھی۔ عموماً وہ رات کے وقت ہی سلائی کیا کرتیں، لیکن اس رات وہ اپنی بیٹی شیریں سے پہلے چھت پر بستر ڈال کر سوگئیں۔ کچھ دیر بعد شیریں بھی سوگئی، لیکن نصف شب کو ہڑ بڑاکر اٹھ بیٹھی۔ اسے اپنے جسم پر بھاری بوجھ سا محسوس ہورہا تھا، اس نے اٹھ کر پانی پیا، مگر بے قراری کم نہ ہوئی، ماں کو جگانے لگی، مگر اُسے یوں محسوس ہوا، جیسے کسی اَن جانی قوت نے اس کے ہاتھ جکڑ لیے ہوں۔ کچھ دیر تک وہ اسی کیفیت میںرہی، پھر کچھ دیر بعد اسے نیند آگئی۔ صبح اٹھی، تو اپنی والدہ، ثریا خالہ کو گزشتہ رات والی کیفیت کے بارے میں بتایا، مگر انہوں نے زیادہ توجّہ نہ دی۔ اگلے روز رات کو پھر اس کی یہی حالت ہوگئی۔ اس دفعہ اس نے ماں کو جگادیا۔ انہوں نے پانی پلایااور درود وغیرہ پڑھ کر پھونکا، تو اسے نیند آگئی، لیکن پھر یہ سلسلہ بہ جائے رکنے کے بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس کی حرکات و سکنات کے ساتھ چہرے کے تاثرات بھی بدلنے لگے۔ وہ پہلے ایک خوش شکل اور ملنسار طبیعت کی لڑکی تھی، مگر دھیرے دھیرے اس کی شخصیت میں سختی آنے لگی اور وہ مرضی کے خلاف کسی بات کا ردِعمل توڑ پھوڑ اور غل غپاڑا مچاکر دینے لگی۔ خالہ ثریا نے بیٹی کے اس رویّے کی طرف، اپنے شوہر کو توجّہ دلائی، وہ خود بھی بیٹی کی تبدیلیاں نوٹ کررہے تھے۔ انہوں نے پہلے اسے کسی ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا، مگر اس دوران ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ انہیں اپنی رائے بدلنی پڑگئی۔

ایک روز شیریں کا موڈ اچھا تھا، اس نے بڑے لاڈسے خالہ ثریا سے درخواست کی’’امّاں آج میرا گرم گرم اور میوے والا سوجی کا حلوہ کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔‘‘ خالہ نے جواب دیا ’’اس وقت گھر میں سوجی نہیں ہے، تیرا بھائی باہر سے کھیل کر آجائے، تو دکان سے سوجی منگواکر بنادوں گی۔‘‘ ماں کا جواب سن کر تھوڑی دیر بعد شیریں نہانے چلی گئی۔ نہاکر آئی، تو اس نے دالان میں بچھی چوکی پر ایک پلیٹ رکھی دیکھی۔آگے بڑھ کر دیکھا، تو وہاں الائچیوں کی مہک میںبسی حلوے کی ایک گرم پلیٹ رکھی تھی۔ اس نے لپک کر حلوے کی پلیٹ اٹھائی اور کپڑے سیتی ماں کے پاس جاکر کہنے لگی ’’امّاں بہت بہت شکریہ۔‘‘ خالہ ثریا سمجھیں کہ شاید وہ اسے طعنہ دے رہی ہے، مگر اس نے جب گرم حلوے سے بھری پلیٹ اس کے ہاتھ میں دیکھی، تو گھبراگئیں۔ بیٹا بھی ابھی تک گھر نہیںآیا تھا۔ انہوں نے بیٹی کو یہ بتانا مناسب نہ سمجھا اور بات بنادی کہ ’’حلوہ صفیہ خالہ کے گھر سے آیا ہے۔‘‘

دو روز بعد گائوں میں ایک شادی کی تقریب تھی۔ شیریں کے پاس ایک سبز رنگ کا پرانا سوٹ تھا، اس نے بہت پہلے اسے صرف ایک ہی بار پہنا تھا۔ اس نے خالہ ثریا سے ضد کی کہ شادی میں وہ سوٹ کے ساتھ سبز رنگ کا زرتار دوپٹا پہنے گی۔ ماں نے حسب ِ عادت اسے ڈانٹ دیا کہ ’’کوئی اور سوٹ پہن لو، ورنہ گھر بیٹھو۔‘‘ شیریں غصّے میں پیرپٹختی نہانے چلی گئی، پھر کھانا کھایا اور کمرے میں آکر کوئی دوسرا سوٹ نکالنے کے لیے اپنا صندوق کھولا، تو کپڑوں کے اوپر ہی سبز اور زرد رنگ کا ایک زرتار دوپٹا رکھا تھا۔ وہ خوشی سے ناچ اٹھی۔ دوپٹا ماں کے پاس لے گئی اور شکوہ کرنے لگی’’اتنا خوب صورت اور نفیس دوپٹا آپ نے مجھ سے کیوں چُھپا کر رکھا تھا۔‘‘

خالہ ثریا گنگ ہوگئیں، اِدھر وہ ماں کا جواب سنے بغیر شادی میں شرکت کے لیے تیار ہوگئی۔ یہ بات ثریا خالہ نے تشویش اور راز داری سے اپنے شوہر بتائی اور دوپٹا بھی دکھایا، تو وہ بھی ڈرگئے۔ اپنی تسلّی کے لیے اسے ڈاکٹر کو دکھایا، مگر اسے چوں کہ کوئی جسمانی مرض لاحق نہیں تھا، لہٰذا ڈاکٹر نے بھی انہیں مطمئن کرکے گھر بھیج دیا۔ پھر کسی نے انہیں ایک عامل کے بارے میں بتایا۔ وہ شیریں کو لے کر اس عامل کے پاس گئے، انہوں نے کچھ پڑھا، تو شیریں کی حالت بدلنے لگی، اس کی آواز بھاری اور آنکھیں یکسر مختلف اور سُرخ ہوگئیں، مگر عامل کا اس دوران اپنا ہی حلیہ بگڑگیا۔ ان کی سانسیں گھٹنے لگیں۔ انہوں نے عمل درمیان میں روک کر شیریں کے والد کو بتایا کہ ’’اس پر کوئی جِن مہربان ہوگیا ہے۔ وہ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، مگر اسے جس نے تنگ کیا، اس کی جان عذاب میں مبتلا کردے گا۔‘‘ عامل کا علم محدود تھا، وہ اس سے مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، البتہ انہوں نے اپنے ایک استاد کا پتا بتادیا، جو فیصل آباد کے نواحی علاقے کی ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے تھے۔ وہ یہ کام اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے چھوڑ چکے تھے اور گم نامی کی زندگی گزاررہے تھے۔ عامل نے ان کے نام ایک رقعہ لکھ کر دیا اور کہا کہ شاید وہ اس بچّی کو جِن سے نجات دلانے میں کام یاب ہوجائیں۔ عامل نے ان سے کوئی نذرانہ وغیرہ بھی نہیں لیا۔

دو روز بعد خالہ ثریا کے شوہراپنی بیوی اور شیریں کو لے کر مطلوبہ بستی جاپہنچے۔ بزرگ رقعہ پڑھ کر شیریں کے علاج پر رضامند ہوگئے۔ وہ بھی خلقِ خدا کی خدمت کرنے والے عامل تھے۔ انہوں نے پہلے اپنا حصار کیا اور پھر شیریں کا علاج شروع کیا۔ چار دن تک درودووظائف کی مدد سے انہوں نے شیریں کا علاج کیا، چوتھے روز علاج مکمل ہونے کی نوید سناکر ان سے کہا کہ ’’ وہ جِن بچّی کو چھوڑنے پرراضی ہوگیا ہے، مگر بہتر یہی ہوگا کہ اس کا جلد از جلد نکاح کردیا جائے، شادی کے بعد وہ جِن اس کا پیچھا مکمل طور پر چھوڑ دے گا۔‘‘ شیریں کی حالت میں بہتری نظر آنے لگی۔ ثریا خالہ نے بیٹی کو سارے حالات سے آگاہ کردیا اور اس کے لیے رشتہ ڈھونڈنے لگیں۔ گائوں والوں سے یہ بات خاص طور پر چھپائی گئی تھی، لیکن ایسی باتیں کب تک راز میں رہتی ہیں۔ گائوں میں کوئی شیریں کا رشتہ لینے پر رضامند نہ ہوا، رشتے دار کترانے لگے، تب انہوں نے اپنی بستی سے دور ایک رشتہ تلاش کیا۔ لڑکا میٹرک پاس اور راول پنڈی کے کسی دفتر میں کلرک تھا۔ ثریا خالہ نے انتہائی سادگی اور رازداری سے راول پنڈی جاکر اس کی شادی کردی۔ قریبی رشتے داروںاور گائوں والوں کو بعد میں اس کی شادی کی خبر ملی۔ کچھ ماہ چہ میگوئیاں ہوتی رہیں، مگر رفتہ رفتہ لوگ بھولنے لگے۔ اسے بدقسمتی کہہ لیں کہ ایک روز شیریں کا شوہر اسے ساتھ لے کر کسی اطلاع کے بغیر اس کے میکے چل دیا۔ گائوں کے نزدیک بس سے اتر کر دونوں میاں بیوی پیدل گھر کی طرف روانہ ہوئے، تو راستے میں انہیں گائوں کا ایک لڑکا مل گیا، جو شیریں کے شوہر کا پرانا دوست تھا، دونوں بڑے تپاک سے ملے، لیکن شیریں کو دیکھ کر گائوں کا لڑکا چونک گیا۔ پھر اس نے اپنے دوست کو الگ لے جاکر شیریں پر جِن کے عاشق ہونے کی داستان نمک مرچ لگاکر سنائی اور اسےخبردار کیا کہ وہ جِن تمہیںبھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ شیریں کا شوہر بےچارا ڈرگیا۔ اس نے راستے میں شیریں سے اس بابت دریافت کیا، تو اس نے جھوٹ بولنا مناسب نہ سمجھا اور سب کچھ سچ سچ بتادیااور کہا کہ یہ واقعہ شادی سے پہلے کا ہے، عامل کے علاج سے اس جِن نے اس کا پیچھا چھوڑدیا ہے اور اب وہ نارمل ہوچکی ہے، لیکن شیریں کے شوہر کو یقین نہیں آیا۔ وہ اسے میکے چھوڑ کر چلا گیا اور چند روز بعد طلاق کے کاغذات اس کے گھر بھجوادیئے۔ کم عمری میں طلاق کا داغ لگ جانا، اس کے والدین اور خود شیریں کے لیے روگ بن گیا۔ اس جِن کی داستانیں دور دور تک پھیل گئی تھیں اور شیریں جاہل دیہاتیوں کے لیے ایک عجوبہ بن کر رہ گئی تھی۔ کچھ عرصہ اس نے اپنے حالات سے لڑنے کی پوری کوشش کی، مگر بالآخر ہتھیار ڈال دیئے اور دنیا سے کنارا کشی اختیار کرکے خود کو ایک کمرے تک محدود کرلیا۔ گھر والوں نے بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔

ایک طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود شیریںآج تک اسی کمرے میں رہتی ہے۔ گائوں کی عورتیں اس سے دعا کروانے آتی ہیں، وہ ان کے لیے دعا کرتی ہے، لوگوں کے بقول، اس کی دعا میں تاثیر ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ جِن اب بھی اس کے تابع ہے۔ پڑھے لکھے لوگ اسے ہسٹریا کی مریضہ سمجھتے ہیں اور خالہ ثریا اس کی حالت دیکھ کر روتی اور کڑھتی رہتی ہیں، کیوںکہ وہ گھر والوں سے بالکل بات نہیں کرتی۔ گھر والے اس کے لیے پرائے ہوگئے ہیں، اللہ ہی جانے حق پر کون ہے، مگر اس کا پُراسرار کردار گواہی دیتا ہے کہ کوئی نادیدہ قوّت اس کی مدد ضرورکرتی ہے۔

(دعا علی، کراچی)