بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان سے زیادہ کیوں؟

October 03, 2018

پچھلے ہفتے جب میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ معاشی میدان (فی کس آمدنی)میں بنگلہ دیش پاکستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے تو مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایشیا کپ میں بھی پاکستان کو پچھاڑ دے گا۔ اگرچہ کھیلوں کی دنیا میں اس طرح کے ایک واقعے سے حتمی نتائج اخذ کرنا درست نہیں ہے کیونکہ چھوٹا سا ملک ہوتے ہوئے بھی سری لنکا بڑے بڑے ملکوں کی کرکٹ ٹیموں کو دھول چٹوا چکا ہے اور حالیہ ہونے والے ایشیا کپ میں افغانستان کی ٹیم کی زبردست کارکردگی بھی اس ملک کے زمینی حالات کی عکاسی نہیں کرتی۔ ان تمام باتوں کے باوجودبنگلہ دیش کی ٹیم میں پیدا ہونے والی خود اعتمادی میں معاشی ترقی کا بھی ایک عنصر ہو سکتا ہے: پاک۔ہند کرکٹ مقابلوں میں ہندوستان کی بار بار جیت اس کی خود اعتمادی کی مظہر ہے۔ ویسے عمومی طور پر اولمپک مقابلوں میں دنیا کے معاشی اور سماجی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک ہی سب سے زیادہ تمغے جیتتے ہیں۔یہ اتفاقیہ امر نہیں ہے کہ ابھی تک اولمپک مقابلوں میں سارا برصغیر کانسی کے چند تمغے جیتنے تک محدود رہتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں دنیا کی اس طرح کی ٹھوس حقیقتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک تصوراتی بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جس میں اپنی فرضی قومی و مذہبی عظمت کو ابھارتے ہوئے ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالا جاتا ہے۔

پچھلے ہفتے کے کالم پر تنقید کرتے ہوئے ایک عزیز دوست نے لکھا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی کے بارے میں دئیے گئے میرے اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمان عیاری اور دھوکہ دہی سے اپنی آبادی کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے اور بنگلہ دیش کی علیحدگی کے زمانے میں بھی مغربی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی۔ یہی نہیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی دونوں ملکوں کی آبادی میں کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہے اور پاکستان کی آبادی کے بڑھنے کی شرح بنگلہ دیش کے قریب قریب ہے۔ اب آپ گوگل پر معمولی سی چھان بین بھی کریں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ متحدہ پاکستان میں مشرقی پاکستان کی آبادی تقریباً 7 ملین زیادہ تھی اور اسی لئے قومی اسمبلی میں ان کی سیٹوں کی تعداد مغربی پاکستان سے کافی زیادہ تھی۔ اگر ان کی آبادی زیادہ نہ ہوتی تو مرکز ی حکومت چلانے والے مغربی پاکستان کے فوجی حکمران ان کو کبھی بھی زیادہ سیٹیں الاٹ نہ کرتے۔ علاوہ ازیں اعداد و شمار رکھنے والی ہر قومی و بین الاقوامی تنظیم تسلیم کرتی ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی شرح بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ رہی ہے اور اب پاکستان کی آبادی بنگلہ دیش سے 43ملین زیادہ ہے۔ ان حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا لیکن ہمارے دوست پاکستان میں مقبول بیانئے کے مطابق بنگالی مسلمانوں سے پنجاب میں پائی جانے والی روایتی نفرت کے اسیر ہوتے ہوئے ٹھوس حقائق کو اپنے ڈھنگ سے لینے پر مصر ہیں۔ غرضیکہ مسئلہ حقائق کا نہیں بلکہ اس ذہنیت کا ہے جو کہ اچھے بھلے لوگوں کے سچائی تک پہنچنے کے راستے میں حائل ہے۔

پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی تیز تر معاشی ترقی کے کئی اسباب ہیں جن میں سے اولین تو یہ ہے کہ مسلم بنگال میں مغربی پاکستان کی طرح جاگیردار غالب نہیں تھے: مشرقی بنگال میں زیادہ تر جاگیردار ہندو تھے اور مسلمان کسان یا درمیانہ طبقات پر مشتمل تھے جو اپنے آقائوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ مشرقی بنگال میں سیاسی شعور بھی زیادہ تھا جس کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ 1906میں یہیں سے مسلم لیگ کا آغاز ہونا بھی کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1947میں ہندو جاگیرداروں کی نقل مکانی یا خاتمے کے بعد چند سالوں میں رہی سہی جاگیرداری کا بھی خاتمہ کردیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد مشرقی پاکستان زیادہ تر درمیانے اور نچلے طبقات پر مشتمل تھا جن کا مرکزی حکومت پر چھائے ہوئے جاگیرداروںاور ان کے محافظ دوسرے طاقتور اداروں سے بنیادی تضاد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے چند سال بعد(غالباً 1954) مشرقی پاکستان اسمبلی کے پہلے انتخابات میں مسلم لیگ کو روشن خیال پارٹیوں کے بنائے ہوئے یونائیٹڈ فرنٹ کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی تھی۔اس سے پہلے لسانی تنازع کے باعث بھی مشرقی پاکستان کی مرکز سے مڈبھیڑ شروع ہو چکی تھی۔

اسی پس منظر میں مغربی پاکستان کے حکمران طبقات میں یہ خوف تھا کہ 1959میں ہونے والے ممکنہ انتخابات میں مشرقی پاکستان کا جگتو فرنٹ اپنی زیادہ آبادی کی بنا پر مرکز میں حکومت قائم کرکے زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری کا خاتمہ کر دے گا۔ اسی کو روکنے کے لئے 1958 میں ایوب خان سے مارشل لالگوایا گیا تھا۔ اسی خوف کے باعث یحیی خان اور مغربی پاکستان کا جاگیردار ٹولہ 1970کے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو حکومت دینے سے انکار کررہا تھا۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو 1971تک ہونے والی تمام سیاسی تبدیلیوں کا منبع مشرقی پاکستان کے زیادہ با شعور درمیانے طبقے کا مغربی پاکستان کے جاگیرداری ڈھانچے سے بنیادی تضاد تھا۔ چنانچہ بنگلہ دیش میں علیحدگی کے بعد نہ تو روایتی طرز کا جاگیردار تھا اور نہ ہی جاگیرداری ڈھانچہ: ملک اور سماج کا مستقبل درمیانے طبقوں کے ہاتھ میں آچکا تھاجس نے ترقی کی رفتار کو تیز تر کردیا۔

بنگلہ دیش میں کئی الٹے سیدھے سیاسی تجربات بھی ہوئے جن میں شیخ مجیب الرحمن کا قتل، فوجی حکومت کا قیام، سیاسی رہنماؤں کا سخت احتساب جیسے واقعات شامل ہیں۔ بنگلہ دیش میں کرپشن، اقرباء پروری اور بری گورننس جیسے عوامل کی موجودگی بھی کسی لحاظ سے پاکستان سے کمتر نہیں ہے ۔ ان سب منفی رجحانات کے باوجود بنگلہ دیش کی تیز تر ترقی کا بنیادی سبب جاگیرداری ڈھانچے کی عدم موجودگی اور ریاست کی انتہا پسند مذہبی نظریاتی سیاست سے دوری ہے۔ علامتی سطح پر دیکھیں توبنگلہ دیش میں خواتین نے صنعتی میدان کو وسیع تر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ پاکستان میں چادر اورچار دیواری کی حدود و قیود کو قومی بیانیہ کی بنیاد بنایا جاتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں آبادی کے کنٹرول کے کامیاب اور موثرپروگرام کئے گئے جن میں مذہبی تنظیموں نے بھی ہاتھ بٹایا۔ بنگلہ دیش میں مادری زبان بنگالی کے ذریعہ تعلیم ہونے کی وجہ سے خواندگی کی شرح بھی تقریباً 73فیصد ہے جبکہ پاکستان میں 58 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کے مسلمان بنگالی بیرون ملک میں بھی تارکین وطن پاکستانیوں کو بہت پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ المختصر مشرقی بنگال میں پایا جانے والا تاریخی طور پر برتر سیاسی شعور اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)