حکومت وعدہ پورا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟

October 04, 2018

25 جولائی 2018 کے انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی حکومت اپنے اقتدار کے 45 روز مکمل کرچکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان میں تبدیلی کے لئے گزشتہ 22 برس سے جدوجہد کررہے ہیں، بظاہر پاکستان کی یہ پہلی حکومت ہے جسے مسلح افواج اور عدلیہ کی مکمل آشیر باد حاصل ہے اور اس بات کا اظہار حکومت کے ترجمان اعلانیہ طور پر کرتے ہیں۔ بلکہ مخالف سیاسی جماعتوں کا الزام تو یہ ہے کہ نگران دور حکومت میں نیب نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بار بار طلب کرکے پی ٹی آئی کے لئے کامیابی کا ماحول پیدا کیا۔ منتخب حکومت کو قومی اداروں کی سرپرستی کے نتیجہ میں تمام تر تحفظات کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل ، اے این پی اور نیشنل پارٹی سمیت کسی سیاسی جماعت نے سیاسی نظام کے تسلسل میں رکاوٹ بننے کی حمایت نہیں کی حالانکہ اپوزیشن کے پہلے اجلاس میں حلف نہ اٹھانے کی قرار داد پیش کی گئی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کی دعوت پر جماعت اسلامی کے نائب مرکزی امیرمیاں محمد اسلم کے گھر اسلام آباد میں منعقدہ اس اجلاس میں سیاسی نظام رول بیک ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا تھا مگر شہباز شریف نے اپنے خطاب میں حلف نہ اٹھانے کی قرار داد کو مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کی تائید سے مشروط کرکے صورتحال کو سنبھال لیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نے انتخابی نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے کی حمایت کردی ، اگرچہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اورمتحدہ مجلس عمل سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے کئی مشترکہ اجلاس ہوچکے ہیں مگر ابھی تک اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر متحد نظر نہیں آئی۔وزارت عظمیٰ اور صدر مملکت کے انتخاب کے موقع پر اکھٹے ہوکر اپوزیشن کی طاقت کا مظاہرہ ممکن تھا مگر اپوزیشن اس میں ناکام رہی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربرا ہ میاں شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اپنا منصب سنبھال چکے ہیں مگر حکومت انہیں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ نامزد کرنے میں آڑے آرہی ہے یہ تنازع کس کروٹ بیٹھتاہے جلد نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہوجائے گا سیاسی حلقوں کاکہنا ہے کہ اس تنازع کی وجہ سے قائمہ کمیٹیوں کے غیرفعال ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ اپوزیشن کہہ چکی ہے کہ قائد حزب اختلاف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نہ بنائے جانے کی صورت میں وہ قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ قبول نہیں کریںگے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف ، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو قید و جرمانہ کی سزا لندن سے آکر گرفتاری دینے اور جیل یاترا کے دوران سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز کے انتقال سے پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک غمزدہ ماحول کی کیفیت میں رہی، حکومت نے اس موقع پر ایک اچھے سیاسی رویے کا مظاہرہ کیا اور نواز شریف ان کی صاحبزادی اور داماد کو چھ روزہ پیرول کی سہولت دے دی،ایون فیلڈ ریفرنس کے سزایافتہ پیرول سے واپس اڈیالہ سنٹرل جیل پہنچے تو اگلے دن اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے ان کی سزا معطل کرنے کا حکم دے دیا۔ اپنی اہلیہ کے انتقال کی وجہ سے سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی غم کی کیفیت میں ہیں، میڈیا کی کوشش کے باوجود انہوں نے کسی موقع پر سیاسی بات نہیں کی اور امکان نظر آتا ہے کہ وہ بیگم کلثوم نواز کے چہلم تک خاموش رہیں گے۔ نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطل ہونے پر طرح طرح کی موشگافیاں سننے کو ملیں جن کی تصدیق تردید حالات و واقعات کے ساتھ ہوتی رہےگی۔

اپوزیشن کے مطالبے پر حکومت نے 25جولائی کے انتخابا ت میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے سینیٹ وقومی اسمبلی کی 24 ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی قائم کردی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ دھاندلی کے خلاف اپوزیشن جس طرح کی انکوائری چاہے گی ساتھ دیں گے لہٰذا انہوں نے کمیٹی قائم کرکے اپنا ایک وعدہ پورا کر دیا ہے کمیٹی عملی طور پر کیا نتائج دیتی ہے ساتھ ساتھ پتہ چلتا رہے گا ۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی خرابیوں کو بے نقاب کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی طرف سے لگائے گئے کسی الزام کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا مشورہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھی نواز شریف حکومت کے حسابات کی آڈٹ کے دوران پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کسی دوسرے رکن پارلیمنٹ کو دینے کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ وہ ذاتیات کے الزام سے بچ سکیںاس ضمن میں چیئرمین پی اے سی خورشید شاہ اور سید فخر امام کے ناموں پر غور کیا جاسکتا ہے۔ دو سال بعد موجودہ حکومت کے اخراجات کے حسابات آنا شروع ہونگے تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ ن لیگ کو دے دینی چاہیے۔ رولز کے مطابق اپوزیشن کو پی اے سی کی چیئرمین شپ دینے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پہلے 100 دنوں کیلئے کیا وعدے کئے تھے ان 41 وعدوں کی آمادیت یقینا ہوگی مگر حکومت کو فوری طور پر چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اور وفاقی دارالحکومت میں سفارشوں کے بغیر کام کئے جانے پر توجہ دینی چاہیے، حکومتی تبدیلی کے باوجود آج بھی پنجاب کے ہر ضلع میں پٹواری کھلے عام رشوت لیتا ہے مفت فرد بھی نہیں دیتا اور نام حکمرانوں کا لیتا ہے۔ تھانے میں ایف آئی آر بھی بغیر کچھ دئیے نہیں درج ہوتی اگلی کارروائی کیلئے تو مفت کام ہوتاہی نہیں، ماتحت عدالتوں میں اگلی تاریخ بھی نذر نیاز کے بغیر نہیں ملتی، ناکوں پر کھڑے پولیس اہلکار بھی نذرانہ لئے بغیر گزرنے نہیں دیتے۔ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ 20 مئی 2018 کو انتخابات سے قبل عمران خان نے اپنی حکومت کے جس ایجنڈے کا اعلان کیا تھا ان پر عملدرآمد کے لئے آغاز کردیاگیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان آئندہ چند دنوں میں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے حوالے سے ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان کردیں گے، پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ عوام نے انہیں تبدیلی کا مینڈیٹ دے کر منتخب کیا ہے تمام قومی ادارے ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیںلہٰذااقتدار جانے کا کوئی خوف نہیں، کسی سیاسی جماعت میں اتنی جرات نہیںکہ ’’ تبدیلی‘‘ کے اس عمل کی راہ میں رکاوٹ بن سکے۔ ضمنی انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے امیدوار ہی کامیاب ہونگے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ساتھ لے کر چلیں گے۔کرپشن میں ملوث پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی ن لیگ کی طرح کوئی رعایت نہیں ملے گی، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کاعزم لے کر آئے ہیں عوام نے ووٹ دے کر اس عزم پرمہر ثبت کردی ہے، فوری نتیجہ ممکن نہیں سو دنوںبعد تبدیلی نظرآنا شروع ہوجائے گی۔ پٹواری، تحصیلدار، چوکی او ر تھانوں کے علاوہ ما تحت عدالتوں میں بھی جھاڑو پھرے گا، رشوت اورکر پشن جیسے ’’ ناسور‘‘ختم کرکے ہی اصل تبدیلی لائیں گے ،روزگار کی فراہمی ایک جہاد تسلسل کا نام ہے جن پرپوری قوت صرف کردیں گے۔