عجلت پسندانہ تبادلے !

October 11, 2018

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات سے صرف چار دن قبل انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب محمد طاہر خان کا تبادلہ اور ان کی جگہ امجد جاوید سلیمی کو تعینات کر کے ملک کے معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف حکومت نے انتظامی مسائل کا پینڈورابکس بھی کھول لیا ہے تبادلہ وفاقی حکومت نے کیا تھا چیف الیکشن کمشنر نے اس قانون اور اصول کی بنیاد پر کہ انتخابی عمل کے دوران سرکاری افسروں کے تبادلے نہیں کئے جا سکتے طاہر خان کے تبادلے کا نوٹی فیکیشن معطل کردیا اور وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے وضاحت طلب کر لی۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ آئی جی پولیس نے حکومتی احکامات پر عمل نہیں کیا اس لئے انہیں ہٹایا گیا جبکہ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ طاہر خان کو ایک صوبائی وزیر کے کہنے پر ہٹایا گیا تاکہ ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی جا سکے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ آئی جی پولیس کو سانحہ ماڈل ٹائون میں مبینہ طورپر ملوث پولیس افسروں کو ہٹانے کے لئے کہا گیا تھا مگر انہوں نے انہیں دوسرے اضلاع میں اہم عہدوں پر تعینات کر دیا ایک خیال یہ بھی ہے کہ بعض ارکان اسمبلی اپنے اضلاع کے ڈی پی اوز سے خوش نہیں ہیں اور انہیں ہٹانا چاہتے ہیں مگر آئی جی نے انکار کردیا۔ وجہ کچھ بھی ہو ایسے فیصلے کرنے سے پہلے قانونی تقاضوںاور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے سپریم کورٹ ہدایت دے چکی ہے کہ قانون کے مطابق کسی عہدے پر تعیناتی کی مدت مقرر کردی جائے تو اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتامحمد طاہر خان کو تعیناتی کے صرف 32روز بعد ہٹا دیا گیا پھر خود پارٹی کی اعلانیہ پالیسی بھی یہی ہے کہ پولیس اور بیورو کریسی کو غیر سیاسی بنا دیا جائے گا آئی جی پولیس اور ڈی پی او پاکپتن کے معاملات اس پالیسی کی خلاف ورزی نظر آتے ہیں سرکاری افسروں کی تقرری ، تعیناتی اور تبادلے معمول کا معاملہ ہیں جنہیں خوش اسلوبی سے نمٹانا چاہئے تاکہ کوئی قانونی پیچیدگی پیدا نہ ہو جیسا کہ طاہر خان کو ہٹانے سے پیدا ہوئی اور حکومتی ساکھ متاثر ہوئی۔