اب صرف جمہوریت چلے گی

October 15, 2018

’’ پاکستان میں جمہوریت کے سوا کوئی اور نظام چل سکتا ہے نہ اس کی اجازت دینگے، جہاں جمہوریت نہیں وہاں بنیادی حقوق بھی نہیں، سب کیلئے یہ میرا واضح پیغام ہے کہ اب اس ملک میں آئین کیخلاف کوئی اقدام قبول نہیں، ملک میں اب صرف جمہوریت،جمہوریت اور بس جمہوریت ہی ہوگی‘‘ آئین و قانون کی بالادستی اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے اپنی پوری زندگی اور تمام توانائیاں وقف کردینے والی ملک کی مایۂ ناز اور نڈر ماہر قانون عاصمہ جہانگیر کے تعزیتی ریفرنس سے بطور مہمان خصوصی کئے گئے خطاب میںملک کے منصف اعلیٰ جسٹس ثاقب نثار نے فی الحقیقت اپنے ان الفاظ کے ذریعے پوری پاکستانی قوم کے اس عزم صمیم کی ترجمانی کی ہے کہ اب بائیس کروڑ پاکستانیوں کے حق حکمرا نی اور اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے امور مملکت چلانے کے اختیار کو سلب کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس حقیقت کا بھرپور مظاہرہ اس تقریب میں شریک سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، سینئر صحافی حامد میر اور متعدد دوسری ممتاز شخصیات کے اظہار خیال کی شکل میں ہوا جو سب کے سب اس امر پر پوری طرح متفق تھے کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام حکومت ہی پاکستان کی بقا و سلامتی اور فلاح و ترقی کا واحد راستہ ہے۔لاہور میںعاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد کی گئی اس تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے چیف جسٹس نے انسانی حقوق اور آئین و قانون کی بالادستی کیلئے مرحومہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کی ترغیب انہیںعاصمہ جہانگیر ہی سے ملی اور اس مقصد کیلئے انہوں نے پہلا از خود نوٹس ان ہی کے کہنے پر لیا۔ چیف جسٹس نے گزشتہ عام انتخابات سے پہلے درپیش ملکی حالات کے حوالے سے انکشاف کیا کہ عاصمہ جہانگیر نے انہیںایس ایم ظفر کا پیغام دیا کہ جمہوریت کو شدیدخطرہ ہے جس پر انہوں نے عدالت میں اس امر کی صراحت کی کہ عدلیہ جمہوریت کیخلاف کوئی اقدام قبول نہیں کریگی۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس نے ان دنوںمقدمات کی سماعت کے دوران ایک سے زائد مرتبہ آئین اور جمہوریت کے خلاف کسی بھی کارروائی کو قبول نہ کرنے کا واضح اعلان کیا تھا اور یہاں تک کہا تھا کہ نہ صرف وہ بلکہ سپریم کورٹ کے تمام 17جج پرعزم ہیں کہ جمہوریت کے خلاف کسی اقدام کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بلاشبہ عدلیہ کا یہ کردار پوری پاکستانی قوم کیلئے آئینی نظام اور جمہوریت کے تسلسل کے یقینی ہونے کے حوالے سے نہایت امید افزا ہے اور صحیح معنوں میں یہ ایک مثبت اور خوش آئند تبدیلی ہے کیونکہ قیام پاکستان کے چند برس بعد گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں دستور ساز اسمبلی توڑے جانے کے اقدام کو نظریہ ضرورت کے نام پر اس وقت کے چیف جسٹس کی جانب سے جو تحفظ فراہم کیا گیا اس نے اس ملک میں جمہوریت کیلئے سخت ناسازگار صورت حال پیدا کردی تھی چنانچہ اسکے بعد کئی عشروں تک بار بار جمہوری نظام کی بساط لپیٹے جانے کو اسی نظریہ ضرورت کے تحت عدالتی تحفظ ملتا رہا اور ہر ڈکٹیٹر اپنے غیرآئینی قدام کیلئے عدلیہ سے سند جواز پاتا رہا۔تاہم 2007ء میں اس وقت کے چیف جسٹس کا آمر وقت کے غیرآئینی اقدام کو قبول کرنے سے انکار پوری پاکستانی قوم کو اٹھا کھڑا کرنے اور عدلیہ کی آزادی اور آئین و جمہوریت کے تحفظ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کا باعث بن گیا اور اس کے بعد ہماری عدلیہ بھی دنیا کے دوسرے مہذب ملکوں کی طرح آئین اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہوگئی۔تاہم ملک میں منتخب حکومتوں کے خاتمے اور غیرآئینی اقدامات کی کامیابی میں خود سیاستدانوں نے بھی بسا اوقات کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اپوزیشن رہنما فوجی قیادتوں سے مداخلت کرکے وقت کی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کی درخواستیں کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ منتخب حکومت اپنی پوری پانچ سالہ میعاد میں ایسی ہی صورتحال سے دوچار رہ چکی ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی اور استحکام کیلئے سیاستدانوں کو بھی اپنے یہ اطوار ہمیشہ کیلئے ترک کرنا ہوں گے۔