تھر میں بچوں کی ہلاکت: سندھ حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنا ہونگے

October 18, 2018

سندھ میں ضمنی انتخابات کے نتائج عین توقع کے مطابق آئے تاہم ضمنی انتخاب میں امیدواروں سمیت عوام کی عدم دلچسپی ، سسٹم پر عدم اعتماد کی جانب اشارہ کررہی تھیں۔ این اے 243کی نشست وزیراعظم عمران خان نے خالی کی تھی اس نشست پر انہوںنے 2018 کے عام انتخابات میں 91 ہزار سے زائد ووٹ سمیٹے تھے تاہم ضمنی انتخابات میں ان کی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار عالمگیر خان صرف 35 ہزار ووٹ تک محدود رہے اس حلقے میں ووٹ کاسٹنگ کی شرح 14 فیصد کے قریب تھی یہی حال پی ایس 87 کا رہا جہاں پی پی پی نے میدان مارا خیرپورکی نشست پی ایس 30 بھی پی پی پی کے نام رہی این اے 243 پر پی ٹی آئی کو حقیقی مدمقابل کا سامنا نہیں تھا حلقے کے عوام ایم کیو ایم سے بدظن تھے ایم کیو ایم کا امیدوار کوئی نامی گرامی شخص نہیں تھا ایم کیو ایم کاوہ دور ختم ہوچکا ہے جب حلقے کے عوام امیدوار کے نام تک سے واقف نہیں ہوتے تھے اور وہ ایم کیو ایم کے انتخابی نشان پتنگ پر مہر لگاتے تھے یا مہرلگائے جاتے تھےدوسری وجہ ایم کیو ایم کے موجودہ بلدیاتی یونین کونسل کے نمائندے بھی ہیں یونین کونسل کے نمائندے ایم کیو ایم کےاکثریتی علاقوں میں لوگوں کے کام نہیں کررہے بلکہ اطلاع یہ ہے کہ بیشتر علاقوں میں عوام کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے ڈیتھ سرٹیفکیٹ سمیت دیگر کاغذات بنوانے میں عوام کو ان علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے جہاں ایم کیو ایم کے بلدیاتی نمائندے ہیں تیسری وجہ ایم کیو ایم لندن کا بائیکاٹ تھا اور آخری سب سے بڑی وجہ ایم کیو ایم کے دیرینہ ساتھی ڈاکٹرفاروق ستار کی انتخاب سے دو دن قبل کی پریس کانفرنس تھی جس میں انہوںنے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے بھرپور شکایات کیں اور اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ وہ ایم کیو ایم نظریاتی بنائیں گے انہوںنے پارٹی انٹراالیکشن کی بھی بات کی ان تمام وجوہات کی بنا پر ایم کیو ایم اس حلقے سے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کی جیت بھی کوئی مثالی جیت نہیں تھی حکومتی پالیسیوں کا ضمنی انتخاب پہ منفی اثرپڑا ہے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ 21 اکتوبر کو این اے 247 اور پی ایس 111 پر بھی حکومتی پالیسیوں کے اثرات پڑیں گے یہ نشستیں صدرمملکت عارف علوی اور گورنرسندھ عمران اسماعیل نے خالی کی ہیں تاہم ان نشستوں پر بھی کسی سیاسی جماعت نے ہیوی ویٹ امیدوار نہیں اترا یہ نشستیں بھی پی ٹی آئی جیت سکتی ہے تاہم جیت کا مارجن وہ نہیں ہوگا جو عام انتخابات میں تھا ضمنی انتخابات عام طور پر عوامی مقبولیت کا پیمانہ نہیں ہوتے تاہم ان انتخابات نے حکومت کی 55 دن کی پالیسیوں کومسترد کردیا ہے کراچی اور سندھ کی سیاست کا رخ بھی متعین کردیا ہے کراچی کے عوام گوں مگوں کی کیفیت سے دوچار ہے کراچی کے عوام کیا سوچ رہے ہیں بلدیاتی انتخابات میں اپنی سوچ کا اظہار کریں گے کراچی کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں عوام تقریباً تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں کراچی کے ایشو پر جماعت اسلامی کےسوا کوئی جماعت ایشوکی سیاست نہیں کررہی پی پی پی کے پاس موقع ہے کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرے بلدیات کی اہم وزارت ان کے فعال وزیرسعیدغنی کے پاس ہے جن سے عوام کو توقعات ہیں کہ وہ مسائل کے حل کی کوششیں کریں گے دوسری جانب یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ تمام ترتحفظات کے باوجود سندھ میں پی پی پی کا اب بھی کوئی مدمقابل نہیں یعنی سندھ کارڈ پی پی پی کے پاس ہے پی پی پی کی قیادت گرچہ مشکلات میں ہے سابق صدرآصف علی زرداری اور فریال تالپور حفاظتی ضمانت پر ہیں سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی ، بے نامی اکاؤنٹس کی تفتیش کررہی ہے اور آصف زرداری کے دست راست انورمجید کے اومنی گروپ کراچی کے دفتر پر چھاپے مارکر اہم ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے توقع کی جارہی ہے کہ ضمنی الیکشن کے بعد اس مقدمے میں اہم پیش رفت ہوسکتی ہے جو سندھ کو احتجاج کی جانب لے جائے گی تاہم اس احتجاج کے اثرات زائل کرنے کے لیے اپوزیشن کی صف بندی بھی کی جارہی ہے دوسری جانب سپریم کورٹ سندھ حکومت کے بعض اقدامات اور پالیسیوں پر سخت ریمارکس دے رہی ہے خصوصاً تھر میں بچوں کی اموات کا سپریم کورٹ نے سخت ایکشن لیا ہے تھر میں 3 سو سے زائد بچے خسرے کا شکار ہیں جبکہ تھر میںغذائیت کی کمی سے بچوں کی ہلاکت کا دائرہ وسیع ہوتاجارہا ہے دواؤں کے بحران نے بھی شدت اختیار کرلی ہے غذائیت کی کمی اور بروقت علاج نہ کئے جانے سے مزید بچے جاں بحق ہوگئے۔دوسری جانب سپریم کورٹ نے تھر کے معاملے پر سندھ حکومت کی رپورٹ بھی مسترد کردی دوران سماعت سپریم کورٹ نے تھر میںغذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کمیٹی قائم کرنے کاحکم دیتے ہوئے کہاہے کہ تھر میں اموات رکنی چاہئیں، آصف زرداری اور بلاول بھٹواپنا پیسہ تھر کے لوگوں پر خرچ کریں۔تھر میں بچوں کی اموات سے متعلق سندھ حکومت کو اسمبلی کے فلورپر بھی تنقید کانشانہ بنایا گیا اس معاملے پر پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈرحلیم عادل شیخ نے سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا سندھ حکومت کواس معاملے پر سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے دوسری جانب جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے عام انتخابات کے بعد پہلی بار کراچی کادورہ کیا جے یو آئی کی جانب سے اس دورے کوتقریباًخفیہ رکھا گیا اور میڈیا سے مولانا فضل الرحمٰن کودور ہی رکھا گیا ایک طویل عرصے سے جے یو آئی کے اندرونی اختلافات کے سبب پارٹی رہنماؤں کے دورے کی خبریں میڈیا اور کارکنوں تک نہیں پہنچ رہی مولانافضل الرحمٰن کا مذکورہ دورہ بظاہر ایک مدرسے میں علما ء سے خطاب پر محیط تھا تاہم یہ بھی کہاجارہاہے کہ ان کا یہ دورہ دراصل انٹراپارٹی الیکشن میں حمایت حاصل کرنے کے لیے تھا پارٹی میں اختلاف رائے رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ایک جانب مولانا فضل الرحمٰن سندھ کا دورہ کرکے چلے گئے تودوسری جانب پارٹی کے سینئررہنما خان شیرانی کے سندھ کے دورے پر غیراعلانیہ پابندی ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ شہداء کربلا کے چہلم کے بعد سندھ کی سیاسی صورتحال میں تیزی آئے گی۔